وسائل پر اشرافیہ کی اجارہ داری کا خاتمہ ضروری
بعض طبقات حکومت سے سبسڈیز وصول کرتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے
عالمی بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کر دی ہے، نائب صدر مارٹن ریزر نے کہا ہے کہ قیمتوں میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں، تاہم لائن لاسز کم کریں۔ رواں مالی سال پاکستان کو دو ارب ڈالر قرض دیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کچھ لوگ کرپشن پر پل رہے ہیں اور مراعات پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ جاگیردار اور صنعت کار معاشی اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں، بعض طبقات حکومت سے سبسڈیز وصول کرتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے، غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے نظام کی خرابیاں دور اور موثر اصلاحات کرنا ہوں گی۔
ورلڈ بینک کے نائب صدر نے صائب خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی معیشت میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ درحقیقت ہمارے یہاں امیروں کو ریلیف اور مراعات خوب دی جاتی ہیں جب کہ عام عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔
ٹیکسز لینے کے باوجود انھیں بہتر صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی نہیں دی جا رہیں جب کہ پٹرول، آٹا، چینی اور بجلی مہنگی کر کے خسارے کا سارا بوجھ ان پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مشکل فیصلوں کی زد میں ہمیشہ غریب طبقہ ہی کیوں آتا ہے۔
ان مشکل فیصلوں کے نتیجے میں ارب، کھرب پتی اشرافیہ کی جیبیں کیوں نہیں کھنگالی جاتیں؟ ان مشکل فیصلوں میں ہمیشہ ایسے عوام ہی کیوں پستے ہیں، جو پہلے ہی نان نفقے کے محتاج ہوتے ہیں اور اپنی گزر بسر کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
کیوں امیر طبقے کو ریلیف پر ریلیف دیا جاتا ہے؟ جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو جو حقائق سامنے آتے ہیں، وہ بڑے تلخ ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے بجلی کے نرخ بڑھا کر مہنگائی تلے دبے عوام پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے جب کہ عوام کے بھاری ٹیکسز سے اشرافیہ کو مفت بجلی و دیگر مراعات کے مزے کرانے کا سلسلہ نہیں رک پا رہا۔
عوام کے اس درد کا احساس سرکاری افسران، ارکان قومی اسمبلی، صوبائی اور وفاقی وزرا، وزیر اعظم، سمیت دیگر وی آئی پیز کو اس لیے نہیں کہ ان کے لیے عوام کے دیے گئے پیسوں کی بدولت بجلی، گیس، پٹرول سمیت دیگر مراعات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، گیس پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے مگر وزرا، وزیر اعظم، سمیت دیگر وی آئی پیز پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔
نا صرف یہ کہ انھیں مہنگا پٹرول مفت ملتا ہے، وزرائ، اور وزیر اعظم کو کسی قسم کا کوئی بھی بل ادا نہیں کرنا پڑتا۔ بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران کو ریٹائرمنٹ پر جو مراعات دی جاتی ہے ان میں تاحیات ڈرائیور، اردلی دیا جاتا ہے، ہر ماہ 800 یونٹ بجلی اور 200 لٹر پٹرول مفت ہوتا ہے۔
بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ اراکین پارلیمان اور ان کی فیملی کو تاحیات ملنے والی مراعات کا بھی ایک دریا بہہ رہا ہے۔ ان فضول خرچیوں اور وسائل کی اس بربادی کو روک دیا جائے تو پاکستان اربوں روپے بچا سکتا ہے، لیکن یہ بھاری پتھرکوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔ سب کو بس عوام ملے ہوئے ہیں۔
جی چاہا تو ان ڈائریکٹ ٹیکسز اور مہنگائی سے انھیں ادھیڑ لیا اور جی چاہا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پیسے کاٹ لیے۔حکومت چاہے جس بھی جماعت کی ہو، اس ملک کی حکمران جب تک کرپٹ اشرافیہ رہے گی، عوام کو سکون نہیں مل سکتا۔
ان لوگوں نے آئی ایم ایف کے کہنے پر غریبوں پر مزید 170ارب کے ٹیکسز لاد دیے۔ یہ خود اپنی مراعات کم کرنے کو تیار نہیں نہ یہ کابینہ کو مختصر بنانا چاہتے ہیں۔ ملک کی زمین سونا اگلتی ہے۔ ہمارے پاس معدنیات کی وسیع دولت ہے۔ محنتی قوم ہے، پڑھے لکھے نوجوان ہیں، ہمیں کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔
نظام محصولات کو کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں کو ڈھالنے اور اُن پر اثرانداز ہونے والا ایک طاقتور عامل خیال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ واجب عنصر توجہ سے محروم ہے۔
ایک حقیقی ٹیکس پالیسی کا مقصد ریاست کے نظم و نسق اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا اور نجی شعبے سے وسائل لے کر عوامی شعبہ جات پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔
اس طرح سماجی جمہوریت میں ٹیکسیشن ہی وہ فیکٹر ہے جو معاشی انصاف کو یقینی بناتے ہوئے سماجی ہمواری ممکن بناتا ہے کیونکہ اس کی مدد سے ہی دولت کی تقسیم، معاشرے کے کمزور طبقات، جیسا کہ بے سہارا خواتین، یتیم بچے، غریب اور مستحق، خصوصی افراد اور جبر کا شکار افراد کی امداد ممکن ہو پاتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ تاہم ہماری مروجہ ٹیکس پالیسی میں یہ تمام عوامل ناپید ہیں۔
اس کے علاوہ مالیاتی وسائل پر مرکزیت کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوا ہے چنانچہ صوبوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ عام شہری کو سہولیات فراہم کرسکیں۔ اس صورت میں ہماری جمہوریت صوبائی خود مختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ ملک کے عوام بے حد پریشان ہیں۔
پاکستان زرعی ملک ہے مگر آٹا نہیں، دالیں، چینی، سبزیاں مہنگی ہوگئی ہیں اس بدحالی کی بنیادی وجہ حکمران ہیں۔ وزیروں، مشیروں، بیوروکریسی کے استعمال میں موجود پانچ لاکھ گاڑیوں کو مفت پٹرول ملتا ہے جب کہ غریب مہنگا پٹرول قیمتاً خریدتا ہے۔ پاکستان کی ٹیکس پالیسی دنیا کی فعال ٹیکس پالیسی کے برعکس ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی سطح پر ٹیکس پالیسی بنانے والے معیشت کی مجموعی صورت حال سے لاعلم ہیں۔ ٹیکس نافذ کرتے وقت وہ کوئی تجزیہ کرنے یا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس پالیسی کا ملکی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر کیا اثر ہو گا اور نا ہی وہ اس کے مجموعی پیداوار پر نتائج کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔
ایف بی آر کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ اگلے تین سالوں میں 15 ٹریلین روپے ٹیکس حاصل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے (اگرچہ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل 20 ٹریلین روپے تک ہے۔) ۔ وفاقی حکومت صوبوں سے تقاضا کرے کہ وہ اپنے وسائل کا حجم بڑھائیں کیونکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد انھیں زیادہ ٹیکس لگانے کا حق حاصل ہو چکا ہے، لیکن ٹیکس کی موجودہ بوسیدہ مشینری سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔
اس صورت حال سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ وفاق اور صوبوں کے درمیان سماجی رابطے کا ازسرِ نو جائزہ لے۔ صوبائی خود مختاری اور نچلی سطح پر انتقال اقتدار اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ان حکومتوں کے پاس وسائل نہ ہوں۔
یہ بات سیاسی اور سماجی علوم کے ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ صوبوں کو زیادہ اختیارات دیے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے اپنے وسائل خود اکٹھے کریں اور اپنے شہریوں پر خرچ کریں۔
ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ مالیات کی عدم مرکزیت اور میونسپل نظام کو سماجی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ تمام شہری سماجی سہولیات سے استفادہ کرسکیں۔ درحقیقت وسائل پر مخصوص طبقوں کی اجارہ داری توڑنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ نمایندگی دیے بغیر ٹیکسز عائد کرنا بذات خود آئین پاکستان کی نفی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس ادا کیے بغیر عوام پر اپنی نمایندگی مسلط کرنا بھی غیر جمہوری رویہ ہے۔
عالمی سماجی نظام میں معاشی عدم مساوات کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کا بینک بیلنس برابر ہو، بلکہ یہ کہ وسائل سے استفادہ سب کر سکیں۔ اس کے لیے ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بات گھوم پھر کر پھر ایک جامع اور مربوط ٹیکس پالیسی پر آ جائے گی جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔
پاکستان کی صوبائی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام وضع کریں۔ اس نظام کی بنیاد سماجی پالیسی پر ہو تا کہ شہریوں کے دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ فی الحال ایسی کسی پالیسی کا نفاذ دکھائی نہیں دیتا۔اس وقت پاکستان بھاری قرضوں تلے جکڑا ہوا ہے۔
بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی منصوبے بنانے اور عوام کو صحت، تعلیم اور ہاؤسنگ کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ مؤثر مالیاتی انتظام اور شفاف احتساب کے بغیر پاکستان اپنے مسائل پر قابو نہیں پا سکتا۔
وفاقی حکومت کو دستیاب وسائل میں سے زیادہ حصہ درکارہوتا ہے، چنانچہ اس ٹیکس کے نرخ کم کرتے ہوئے اس کے دائرے کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ گڈ گورننس سے دستیاب مالیاتی حجم میں اضافہ کر لیا جائے تو پھر حکومت عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور ہاؤسنگ کی سہولیات فراہم کرسکتی ہے۔
اس صورت میں عوام کے اندر بھی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ ٹیکس دیں کیونکہ وہ جانتے ہوں گے کہ اس کا حتمی فائدہ انھی کو ہو گا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت وسائل کو طاقتور حلقوں سے لے کر عام شہریوں پر خرچ کرے۔ وسائل کی اس تحریک کے لیے ٹیکسیشن ہی واحد فعال فیکٹر ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں وسائل کو ضایع ہونے سے بچایا جائے۔
ہمیں انفرا اسٹرکچر، چھوٹی اور میڈیم سائز فرموں اور صنعتی یونٹس کے علاوہ زرعی شعبے پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب افراد کی مدد کے لیے نجی اور سرکاری شعبے کے تعاون کے ذریعے وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
اس سے معاشی پیداوار بڑھانے اور عوام کو وسائل پیداوار میں اسٹیک ہولڈر بنانے کا موقع پیدا ہو گا۔ اس وقت تک وسائل پر صرف اشرافیہ کی اجارہ داری ہے، جس کو توڑے بغیر ریاست کے قیام کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔