ایڈز تشخیص احتیاط اور علاج

مریضوں سے متعلق معاشرتی رویہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے


فوٹو : فائل

یہ پچھلی صدی کی نویں دہائی کی بات ہے۔ ہالی ووڈ کے معروف اداکار راک ہڈسن ایک عجیب و غریب مرض میں مبتلا ہو گئے۔

پیرس کے ایک ہسپتال میں ان کا علاج ہوا مگر 2 اکتوبر 1985ء کو وہ انتقال کر گئے۔ بعد میں دنیا بھر کو معلوم ہوا کہ ان کی بیماری کا نام ایڈز تھا۔ راک ہڈسن پہلے آدمی نہیں تھے جو اس بیماری کا شکار ہوئے مگر ان کی وجہ سے چہار سو اس بیماری کا چرچہ ہونے لگا۔

راک ہڈسن نے تیس سال تک پردہ سیمیں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہم جنس پرست ہیں۔ ابتداء میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ ایڈز ہم جنس پرستوں کی بیماری ہے مگر بعد میں دیگر اسباب بھی سامنے آئے۔

ایڈز ایک وائرس HIV (ایچ آئی وی) سے پھیلتا ہے۔ ایڈز کے نام یعنی ( Acquired Immune Deficiency Syndrome) سے ظاہر ہے کہ اس بیماری میں انسان کا مدافعتی نظام انتہائی کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے مختلف عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بالآخر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں 39 ملین افراد HIV وائرس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 9کروڑ افراد ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور 4 کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض کے نتیجے میں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے مریضوںکی مجموعی تعداد 2 سے اڑھائی لاکھ کے درمیان ہے مگر صرف پچاس ہزار کے قریب مریضوں نے خود کو نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت رجسٹرڈ کروایا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں میں کمی واقع ہو رہی ہے مگر پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اس بیماری کی تفصیل جاننے سے پہلے مدافعتی نظام کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ ہر انسان کو اللہ نے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ اسے جو بھی عوارض لاحق ہوتے ہیں، کوئی بھی وائرس حملہ آور ہو، جراثیم جسم میں آ جائیں، کوئی رخم یا ورم آ جائے، یا کوئی بھی انفیکشن ہو جائے تو اس کے خلاف خود کار طریقے سے انسانی جسم کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور کچھ دفاعی کارکن تشکیل پاتے ہیں، جنہیں اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے۔

یہ اینٹی باڈیز مختلف اقسام کی ہوتی ہیں ، یہ اپنا کام شروع کر دیتی ہیں، بیرونی حملہ آوروں کے خلاف فعال ہو کر انہیں کمزور کر دیتی ہیں اور انسانی جسم کو ان کے مضر اثرات سے محفوظ رکھتی ہیں۔

ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جس میںانسان کا قدرتی مدافعتی نظام ناکارہ ہو جاتا ہے اور اینٹی باڈیز بیرونی حملہ آوروں کے خلاف موثر دفاع نہیں کر پاتیں۔ اس انسان کا جسم اس قابل نہیں رہتا کہ کسی بھی بیماری کا صحیح طور پر سامنا کر سکے اور اس سے خود کو بچا سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بار بار مختلف بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔

مختلف طرح کے وائرس اور جراثیم مسلسل حملہ آور ہوتے ہیں اور صورتحال انتہائی مخدوش ہو جاتی ہے۔ عام حالات میں جن عوارض کا انسان بغیر دوا لیے محض اپنی مدافعتی طاقت کی بنیاد پر دفاع کر لیتا تھا، وہ اس قدر شدید ہو جاتے ہیں کہ رفتہ رفتہ انسان کو موت کے منہ تک لے جاتے ہیں۔

ایڈز پہلی مرتبہ کہاں سے آیا، یہ جاننا انتہائی مشکل ہے۔ اس بارے میں مختلف طرح کے نظریات موجود ہیں لیکن جب یہ کسی کو ہو جاتا ہے تو مختلف طریقوں سے کسی دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر انسانی جسم کی مختلف رطوبتوں اور خون میں پایا جاتا ہے۔

اس مرض کی دو شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک تو وہ مریض ہیں جن میں HIV یعنی ایڈز کا وائرس تو مثبت ہے لیکن ایڈز کی بیماری ان کو نہیں ہوئی ہے۔ HIV کافی عرصے تک مثبت ہو سکتا ہے اس کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ بہرحال موجود نہیں ہے۔

اس لیے کہ اب تک اس کی کوئی دوا یا علاج کی کوئی دوسری صورت مہیا نہیں ہو سکی۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ جس کا HIV مثبت ہو، وہ مکمل طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرے، اس دوران ہونے والی شکایات مثلاً کمزوری، بخار اور دیگر عوارض کا علاج کرے اور اس کو مزید پھیلانے کا باعث نہ بنے۔

HIV وائرس کی موجودگی کی صورت میں دواؤں کے استعمال اور نفسیاتی مدد کے ذریعے ایک لمبے عرصے تک ایڈز کو متحرک ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

اس وائرس کی ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقلی کے چند بڑے ذرائع درج ذیل ہیں۔

1۔ متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی تعلقات کے دوران وائرس کی منتقلی

2۔ متاثرہ شخص کے عطیہ شدہ خون کی منتقلی سے

3۔ استعمال شدہ سرنجوں اور جراحی کے آلودہ آلات کے ذریعے

پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں سرفہرست یہی چیزیں ہیں۔ یہ مرض کسی متاثرہ شخص سے ملنے ملانے، ساتھ بیٹھنے سے منتقل نہیں ہوتا۔ البتہ مریض ماں سے بچے میں یہ بیماری منتقل ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر میں نشہ کرنے والے افراد کے ہاں روایت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک ہی سرنج سے نشہ آور ادویات لے رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر کسی ایک میں بھی ایڈز کا وائرس موجود ہو تو وہ ان تمام لوگوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ عمومی رویہ یہ ہے کہ ہسپتالوں اور کلینکس میں سرنجوں کو استعمال کرنے کے بعد منظور شدہ طریقے کے مطابق تلف نہیں کیا جاتا اور ویسے ہی کوڑا دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جہاں سے کچھ لوگ ان سرنجوںکو اٹھا لیتے ہیں اور دھونے کے بعد یا تو خود استعمال کر لیتے ہیں یا بیچ دیتے ہیں۔ بالخصوص اتائی علاج گاہوں میں اس طرح کی سرنجوں کے استعمال کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر عملیات جراحی اور دانتوں کے علاج میںاستعمال ہونے والے آلات کی صحیح طور پر صفائی نہ کی گئی ہو اور جراثیم سے مکمل طور پر پاک کرنے کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو تو اس بات کا خطرہ موجود ہوتا ہے کہ ان آلات کے استعمال سے اچھے بھلے صحت مند انسان کو بھی یہ مرض لاحق ہو جائے۔

ہسپتالوں اور کلینکس میں تو ان آلات کی صفائی کا اہتمام موجود ہوتا ہے لیکن فٹ پاتھ پر جو لوگ بیٹھ کر دانتوں کا علاج کرتے ہیں، دانت نکالتے ہیں، ادویات لگاتے ہیں، وہاں ان تمام امور کو صحیح طور پر انجام دینا ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے لوگ صحیح احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں، جس کا نتیجہ بیماری کی منتقلی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

بڑے ہسپتالوں اور کلینکس میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ کسی بھی جراحی کے عمل سے پہلے تین طرح کے بلڈ ٹیسٹ لازماً کیے جاتے ہیں جن میں ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور سی شامل ہوتے ہیں، تاکہ تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکیں اور وائرس موجود ہونے کی صورت میں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ایڈز کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ بیماری رفتہ رفتہ انسان کو موت کی طرف لے جاتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے علاج بالمثل (symptomatic treatment)کیا جاتا ہے، یعنی مختلف شکایتوں کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں۔ ایڈز کی ابتدائی علامات میں بخار، سردی لگنا، پسینہ، خاص طور پر نیند آنا، سانس پھولنا، مستقل تھکاوٹ، مختلف قسم کے نمونیا، آنکھوں میں دھندلاہٹ، جوڑوں کا درد، گلے میں سوجن، نزلا ، زکام ، پٹھوں میں درد شامل ہے۔

اس کے علاوہ جلد پر زخم بھی ایڈز کی علامت ہے۔ عمومی طور پر ایڈز میں مبتلا مریض ابتدائی علامات کے ساتھ طویل عرصہ تک بظاہر صحت مند نظر آتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شکایتیں طول پکڑ جاتی ہیں۔

وزن میں تیزی سے کمی ہونے لگتی ہے، مسلسل اسہال ہونے لگتے ہیں اور کھانسی اور بخار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ان شکایتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور فوراً طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔

ایڈز کی حتمی تشخیص کے لیے علامات کا ہونا ہی کافی نہیں۔ اس کے لیے مرض کی پوری تفصیل معلوم کی جاتی ہے اور مریض کے سماجی تعلقات اور عادات و اطوار کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس کی حتمی تشخیص کا واحد طریقہ لیبارٹری ٹیسٹ ہے۔ اس ٹیسٹ کے مختلف طریقے ہیں، جس سے اس بیماری کا یقینی طور پر پتہ چلتا ہے۔

ایڈز وائرس کی جسم میں موجودگی سے لے کر بیماری کے متحرک ہونے تک انسان کے اندر مسلسل ایک جنگ کی کیفیت ہوتی ہے۔

انسان کو مناسب دوائیں ملتی رہیں تو طویل عرصے تک ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت تو رہے گا لیکن بیماری متحرک نہیں ہو گی۔ ایڈز کے مریضوں کو ادویات کے ساتھ نفسیاتی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ حوصلے اور جرات مندی کے ساتھ مرض کا مقابلہ کر سکیں۔ مریض میں کمزوری واقع ہو جائے تو یہ بیماری متحرک ہو جاتی ہے۔ بیماری بالآخر ہونا تو ہوتی ہے لیکن ایک لمبے عرصے تک بچاؤ کیا جا سکتاہے۔

ایڈز سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ نئی سرنجوں کا استعمال ہو، خون کی منتقلی سے قبل اس کا HIV ٹیسٹ کیا جائے، سرجری یا دانتوں کے علاج کے آلات جراثیم سے مکمل طور پر پاک ہوں۔ بغیر ضرورت کے انجیکشن یا ڈرپس لگوانے سے گریز کرنا چاہیے۔

حجامت اور بچے کے ختنے کے لیے ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال کرنا چاہیے۔ کان یا ناک چھدوانے کے لیے بھی صاف سوئی ہونی چاہیے۔ اگر کسی گھر میں ایڈز کا مریض موجود ہے تو اس کے لیے ناخن تراشنے کا آلہ الگ رکھیں، اگر کوئی حاملہ خاتون ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو تو بچے کی پیدائش کے موقع پر کسی دائی سے رجوع کرنے کی بجائے ہمیشہ کسی ماہر اور سینئر ڈاکٹر سے آپریشن کروانا چاہیے۔

پیدائش کے فوراً بچے کا ایڈز کا ٹیسٹ کروائیں۔ اگر مثبت آئے تو اس کے علاج کا اہتمام کیا جائے۔ اگر نتیجہ منفی بھی آئے تو اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ 6 ہفتے کے علاج کا کورس ضرور کروائیں۔ ایڈز میں مبتلا مریضہ کو چاہیے کہ وہ بچے کو دودھ نہ پلائے۔

مریض جب بھی دانتوں کا علاج کروائے تو معالج کو اپنی بیماری سے ضرور آگاہ کرے تاکہ وہ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ ڈاکٹر کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے کسی بھی مریض کو انتہائی توجہ اور پیار کے ساتھ دیکھا جائے، اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اس کی بیماری کا مکمل علاج کیا جائے۔

بدقسمتی سے برصغیر میں ایڈز کے مرض کا ایک پہلو تو اس کا مہلک ہونا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا مریض مستقل طور پر پریشانیوں اور ذہنی دباؤ میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ یعنی ایڈز کے ساتھ ساتھ وہ اداسی، گھبراہٹ، خوف اور بے چینی سے بھی گزر رہا ہوتا ہے۔

ایڈز کے مریض کو یہ تربیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مرض کے ساتھ زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ انہیں ہر مرحلے پر بہت زیادہ نفسیاتی مدد اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ بدقسمتی سے ان مریضوں کو صحیح طور سے مہیا نہیں کی جا رہی ہوتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایڈز ہونے کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ ایڈز ہونے کے بعد مریض سالوں زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بیماری کی شدت کیا ہے، مریض کی شکایات کا علاج ہو رہا ہے، اس کو نفسیاتی مدد مہیا کی جا رہی ہے۔

اس مدد کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں کئی سینٹرز قائم ہیں جہاں ایڈز کے مریضوں کو اجتماعی طور پر رکھا جاتا ہے اور انہیں نہ صرف ادویات مہیا کی جاتی ہیں بلکہ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔

ایڈز کو ہمارے ہاں ایک بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے، کہ شائد ایڈز میں مبتلا شخص بہت غلط کردار کا حامل یا گناہ گار ہے۔ اس چیز سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ایڈز کی بیماری ضروری نہیں کہ کسی گناہ کا نتیجہ ہو۔ یہ بیماری ایک اچھے خاصے شریف اور صحت مند آدمی کو بھی محض ایک غلط سرنج کے استعمال سے لاحق ہو سکتی ہے۔

ان بے بنیاد تصورات کا نتیجہ ہے کہ ایڈز میں مبتلا شخص خود کو لوگوں کی نظروں سے بچاتا ہے، علاج معالجے سے دانستہ گریز کرتا ہے۔ معاشرے میں اس مرض کے معیوب ہونے کے تصور کو دور کرنے اور لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ درست ہے کہ ہم سب کو اسلامی اصولوں کے مطابق پاکیزہ زندگی گزارنی چاہیے اور اپنے جیون ساتھی تک محدود رہنا چاہیے۔

اگر کوئی شخص ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہو گیا ہے تو اسے دھتکارنا نہیں چاہیے۔ اللہ کی رحمت اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ایڈز کے مریض کو معاشرے کے لیے بدنما شے بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے، جوکہ بدقسمتی سے ہو رہا ہے اور ایسے مریض الگ تھلک ہو جاتے ہیں، بدترین زندگی گزارتے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے بالآخر موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔

ان مریضوں کو سمجھانے، صحیح طور علاج مہیا کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بحالی کے مراکز بنانے کی ضرورت ہے۔ جہاں انہیں رکھاجائے اور ان کی تربیت کی جائے۔ اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

مناسب ادویات اور نفسیاتی مدد کے ذریعے یہ لوگ کئی سال تک عام انسان کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور معاشرے میں ایک کارآمد فرد کی طرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

(ڈاکٹر افتخار برنی، ماہر نفسیاتی امراض ہیں اور راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔