ایڈز کا عالمی دن اور کمیونٹیز کی قیادت

پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے


Shayan Tamseel November 30, 2023
کمیونٹیز کی قیادت ایڈز کی روک تھام میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور امسال اس دن کے لیے عنوان ''کمیونٹیز کو قیادت کرنے دیں'' منتخب کیا گیا ہے۔ کراچی میں بھی یکم دسمبر کو اسی عنوان کے تحت جمعہ کی صبح 10 بجے سی ویو پر ایک آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا ہے۔


ایڈز کے عالمی دن سے پہلے ہی یو این ایڈز Lets Communities Lead کے عنوان کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ ایڈز کے خاتمے کے لیے جنگ کی قیادت کرنے کے لیے دنیا بھر میں نچلی سطح کی کمیونیٹیز کی طاقت کو استعمال کریں۔ UNAIDS کی ایک نئی رپورٹ کمیونٹیز کے اہم کردار کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ یہ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح کم فنڈنگ اور نقصان دہ رکاوٹیں ان کی زندگی بچانے کے کام کو روک رہی ہیں اور ایڈز کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں۔


اس امر میں کوئی شک نہیں کہ فرنٹ لائن پر موجود نچلی سطح پر بکھری ہوئی مختلف کمیونٹیز کو اگر حکومتوں اور عطیہ دہندگان کی طرف سے مکمل تعاون حاصل ہو تو ایڈز کو 2030 تک صحت عامہ کے خطرے کے طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔


یو این ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کمیونٹیز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''دنیا بھر میں کمیونٹیز نے ثابت کیا ہے کہ وہ تیار، آمادہ اور رہنمائی کرنے کے قابل ہیں، لیکن انھیں اپنے کام میں رکاوٹ بننے والے عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ انھیں مناسب طریقے سے وسائل فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اکثر فیصلہ سازوں کی طرف سے کمیونٹیز کو لیڈروں کے طور پر پہچانے جانے اور ان کی حمایت کرنے کے بجائے انھیں ہی مسائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ کمیونٹیز راستے میں رکاوٹ نہیں بلکہ وہ ایڈز کے خاتمے کا راستہ روشن کرتی ہیں''۔


سول سوسائٹی کی تنظیم STOPAIDS کے زیر اہتمام ورلڈ ایڈز ڈے کے موقع پر لندن میں شروع کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کمیونٹیز ترقی کےلیے محرک رہی ہیں۔ سڑکوں سے لے کر، عدالتوں اور پارلیمنٹ تک کمیونٹی کی وکالت نے پالیسی میں اہم تبدیلیاں حاصل کی ہیں۔ کمیونٹیز کی مہم نے عام آدمی تک ایچ آئی وی ادویہ تک رسائی میں مدد کی، جس کے نتیجے میں HIV سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں 1995 میں علاج کی لاگت 25,000 امریکی ڈالر فی شخص سے 70 امریکی ڈالر سے بھی کم ہوگئی۔


ایڈز کیا ہے اور اس کا پھیلاؤ کیسے ہوتا ہے، اس موضوع پر آگاہی مہم ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن اس کے باوجود پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 33 ہزار533 افراد ایڈز کا شکار ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ صرف رجسٹرڈ لوگوں کی تعداد ہے۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ایڈز جیسی بیماریوں کی جانب سے اب بھی پہلوتہی برتی جاتی ہے اور عوامی سطح پر ایڈز کی شناخت کے ٹیسٹ بھی نہیں کرائے جاتے۔ ایڈز کی تشخیح کی راہ میں حائل سب سے اہم مسئلہ اس بیماری کا ''جنسی طور پر منتقل ہونا'' بھی ہے۔ جبکہ یہ واحد وجہ نہیں جو اس مرض کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے لیکن عمومی سوچ اس بیماری کو صرف ''جنسی افعال'' سے نتھی کرکے علاج کے راستوں کو مسدود کردیتی ہے۔


پاکستان میں کئی ایسی این جی اوز کام کررہی ہیں جو عوامی سطح پر ایڈز کی آگاہی اور مفت علاج کے لیے فعال ہیں۔ ''پرواز'' ، ''ہمراز'' اور اس جیسی دیگر این جی اوز ہیں جو مردوں کی صحت اور دیگر کمیونٹیز بشمول ٹرانس جینڈرز کےلیے بھی عوامی سطح پر مدد اور مفت علاج کی سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ لیکن ان این جی اوز پر مخصوص چھاپ لگا کر ان کے مثبت کاموں میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے عوامی سہولت کے ان پروگراموں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یو این ایڈز کا یہ نعرہ کہ ''کمیونٹیز کو قیادت کرنے دو'' اس لیے بھی مثبت ہے کیونکہ اس کے ذریعے دیگر کمیونٹیز کو بھی فعال ہونے اور سامنے آنے کا موقع ملے گا۔


کمیونٹیز کی قیادت میں HIV پروگراموں میں سرمایہ کاری تبدیلی کے فوائد فراہم کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں نہ صرف صحت عامہ سے متعلق آگاہی پروگرام منعقد کررہی ہیں، بلکہ ایڈز سے بچاؤ اور اس کے علاج کےلیے ادویہ اور دیگر سامان بھی مفت فراہم کررہی ہیں۔ کمیونٹی پر مبنی تنظیموں کے ذریعے فراہم کیے گئے پروگرام ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی میں 64 فیصد اضافے، ایچ آئی وی سے بچاؤ کی خدمات کے استعمال کے امکانات کو دگنا کرنے، اور لوگوں میں حفاظتی اشیا کے مسلسل استعمال میں کئی گنا اضافہ کررہے ہیں۔ ان پروگراموں کی خاص بات یہ ہے کہ افراد یہاں سے مفت میں رازداری کے ساتھ ایڈز کی تشخیص کا ٹیسٹ اور ادویہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کراچی میں کام کرنے والی دو این جی اوز بطور خاص قابل ستائش ہیں، جن میں سے ایک ''پرواز'' ہے، جب کہ دوسری اہم این جی او ''ہمراز'' کے نام سے صحت عامہ کی یہ خدمت سرانجام دے رہی ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی ایچ آئی وی کا مفت ٹیسٹ اور ادویہ بشمول احتیاطی اشیا حاصل کرنا چاہے تو طارق روڈ، کراچی پر ''پرواز'' کے دفتر یا ''ہمراز'' نزد عزیز بھٹی پارک کا وزٹ کرسکتا ہے۔


آپ سب سے درخواست ہے کہ ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر یکم دسمبر بروز جمعہ، صبح دس بجے کراچی سی ویو پر آگاہی واک میں لازمی شرکت کیجئے، جو کہ سی ویو بیچ کلفٹن پر مکڈونلڈز سے چنکی منکی تک منعقد ہوگی۔


یہاں ایڈز سے متعلقہ معلومات شامل کرنا بھی ضروری ہیں، کیونکہ ایڈز جیسی مہلک بیماری اب بھی عوامی آگاہی کی محتاج ہے جبکہ عوام میں ایڈز سے متعلق کئی غلط معلومات بھی پھیلی ہوئی ہیں۔


ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟


ایچ آئی وی مدافعتی نظام کے خلیات کو متاثر اور تباہ کردیتا ہے، جس کی وجہ سے دوسری بیماریوں سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایچ آئی وی کی وجہ سے مدافعتی نظام کا شدید کمزور ہونا حاصل شدہ مامون نقص علامت (ایڈز) کا باعث بن سکتا ہے۔ ایڈز ایچ آئی وی انفیکشن کا آخری اور سب سے سنگین مرحلہ ہے۔ ایڈز کے مریضوں میں بعض سفید خون کے خلیات کی سطح بہت کم ہوتی ہے اور مدافعتی نظام شدید کمزور ہوتا ہے۔ انہیں دوسری بیماریاں ہوسکتی ہیں جو ایڈز کی نشاندہی کرتی ہیں۔


علاج کے بغیر، ایچ آئی وی انفیکشن تقریباً 10 سال کے اندر ایڈز تک پہنچ جاتا ہے۔ ایچ آئی وی اور ایڈز میں فرق یہ ہے کہ ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو آپ کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ ایڈز ایک ایسی حالت ہے جو ایچ آئی وی انفیکشن کے نتیجے میں ہوسکتی ہے جب آپ کا مدافعتی نظام شدید کمزور ہوجاتا ہے۔


اگر آپ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں ہیں تو آپ کو ایڈز نہیں ہوسکتا۔


ایچ آئی وی کا علاج کیا ہے؟


ایچ آئی وی ہونے والے لوگوں کو دی جانے والی اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی وائرس کو جسم میں بڑھنے سے روکتی ہے۔ یہ انہیں عام آبادی کے مقابلے زندگی کے معیار اور متوقع عمر سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، علاج مناسب طریقے سے اور ڈاکٹر کی نگرانی کے تحت کیا جانا چاہیے۔


انفیکشن کے مراحل


ایچ آئی وی انفیکشن کئی مراحل سے گزرتا ہے، ہر ایک کی خصوصیات مختلف طبی خصوصیات اور مدافعتی نظام پر پڑتی ہے۔ ایچ آئی وی انفیکشن کے مراحل درج ذیل ہیں:


بنیادی انفیکشن: علامات شدید فلو جیسی ہوتی ہیں، عام طور پر وائرس کے سامنے آنے کے 2-4 ہفتے بعد۔ وہ صرف 50 فیصد معاملات میں ظاہر ہوتے ہیں۔
بغیر علامات کے: کوئی علامات نہیں ہیں، وائرس مسلسل کاپیاں بنارہا ہے، اور مدافعتی نظام اب بھی صحت مند ہے۔
علامتی: علامات میں رات کو پسینہ آنا، توانائی کی کمی، جلد کا پھٹنا اور مسوڑھوں کی حساسیت شامل ہیں۔ مدافعتی نظام کو معمولی نقصان۔
ایڈز: مدافعتی نظام کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ انفیکشن جسم پر قابو پا جاتی ہیں۔


ایچ آئی وی کیسے منتقل ہوتا ہے؟


ایچ آئی وی جنسی رابطے کے ذریعے، آلودہ خون کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذریعے اور حمل کے دوران ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔


ایچ آئی وی کی منتقلی کے دوسرے راستے:


انجکشن سے دوا لیتے وقت انجکشن کا اشتراک یعنی دوسروں کا استعمال شدہ انجکشن کا استعمال
ٹیٹو، کان چھیدنے، وغیرہ
وائرس سے آلودہ خون کی منتقلی
بچے کی پیدائش کے وقت متاثرہ ماں کے ذریعے


احتیاط اور روک تھام


ایچ آئی وی کی منتقلی کو کم کرنے کےلیے احتیاطی اقدامات ضروری ہیں۔ یہاں کچھ اہم روک تھام کے اقدامات ہیں:


محفوظ جنسی افعال: جنسی سرگرمی کے دوران حفاظتی طریقے استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے خاندان کے اندر جنسی صحت کے بارے میں کھلے اور ایماندارانہ رابطے کو فروغ دیں۔


باقاعدگی سے ٹیسٹنگ: خاندانی ممبران کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ایچ آئی وی اور دیگر بیماریوں کے زیادہ خطرے میں باقاعدگی سے ٹیسٹ کروائیں۔


سوئی کی حفاظت: اگر خاندان کے افراد طبی مقاصد کےلیے سوئیاں استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ انسولین کے انجکشن، تو یقینی بنائیں کہ وہ سوئیوں کو صحیح طریقے سے سنبھالنے اور ٹھکانے لگانے کےلیے محفوظ طریقوں پر عمل کریں۔


خون کی حفاظت: ان ذاتی اشیاء کو شیئر کرنے سے گریز کریں جو خون کے ساتھ رابطے میں آسکتی ہیں، جیسے استرا یا ٹوتھ برش۔


ماں سے بچے میں منتقلی کی روک تھام: اگر خاندان کا کوئی فرد حاملہ ہے اور ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ مناسب طبی دیکھ بھال حاصل کی جائے اور تجویز کردہ اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) پر عمل کیا جائے تاکہ بچے میں وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔


U=U (واضح نہ ہونے والا، نہ پھیلنے والا): اس سے مراد نسبتاً نئی سائنسی اصطلاح ہے جو ہر اس چیز کو بدلتی ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے تھے کہ ہم HIV کے بارے میں جانتے تھے اور وائرس کیسے منتقل ہوتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ HIV کے ساتھ رہنے والا ایک شخص جو اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی حاصل کرتا ہے اور اس نے ناقابل شناخت حاصل کیا ہے۔ کم از کم 6 ماہ تک ان کے خون میں وائرل لوڈ، غیر محفوظ جنسی ملاپ کے دوران بھی عملی طور پر کسی جنسی ساتھی کو وائرس منتقل نہیں کرسکتے۔


پی ای پی (پوسٹ ایکسپوزر پروفیلیکسس): پوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسس (پی ای پی) اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کے ساتھ ایک ماہ کا علاج ہے، جو ایچ آئی وی کے ساتھ آلودگی کو روک سکتا ہے۔ مؤثر ہونے کےلیے، اسے جلد از جلد، اور کسی بھی صورت میں، 3 دن کے اندر، وائرس کے ممکنہ نمائش کے بعد دیا جانا چاہیے۔ متعلقہ ضابطے کے مطابق، تمام اسپتالوں کو ان صورتوں کےلیے اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کا ذخیرہ رکھنا چاہیے۔ تاہم، اگر آپ کو متعدی امراض کے یونٹ والے اسپتال تک رسائی حاصل ہے، تو یہ مشورہ دیا جائے گا کہ آپ دورہ کریں اور ڈاکٹر سے اپنے کیس پر بات کریں۔ اگر ڈاکٹر کو یقین ہے کہ آپ کےلیے پروفیلیکٹک تھراپی لینے کی کوئی وجہ ہے، تو اسپتال مفت میں دواؤں کا علاج فراہم کرے گا۔


پری ای پی (پری ایکسپوژر پروفیلیکسس): یہ ایک گولی کے ساتھ علاج ہے جو عام طور پر روزانہ لی جاتی ہے اور تقریباً 99 فیصد کی کامیابی کی شرح کے ساتھ ایچ آئی وی سے حفاظت کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے ذریعہ لیا جاتا ہے جو ایچ آئی وی منفی ہیں، ان کے منفی رہنے کےلیے۔ PrEP اسی قسم کی ایک اینٹی ریٹرو وائرل دوا ہے جو ایچ آئی وی پازیٹو لوگوں کو ان کے علاج کے حصے کے طور پر دی جاتی ہے۔ اگر PrEP حاصل کرنے والے شخص کو ایچ آئی وی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو دوائیں جسم کے خلیوں میں وائرس کے داخل ہونے اور اس کی نقل کو روکیں گی۔ یہ جسم میں HIV کی تنصیب کو روکتا ہے، اس طرح PrEP لینے والے شخص کو HIV سے روکتا ہے۔ یہ دنیا بھر کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔ (PrEP لینے کے لیے آپ اوپر بتائی گئی دونوں این جی اوز ''پرواز'' اور ''ہمراز'' سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں)۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔