دہلی کا سفر۔۔۔ یہی بہت ہے
طاقت میں آنے کے بعد وزیراعظم نے ہندوستان کے ساتھ جس خفیہ سفارتکاری کا آغاز کیا وہ اب ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
وزیر اعظم نواز شریف وہی کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کو انتہائی احتیاط برتنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن ہر ریاست کو اپنے مفادات کا تحفظ ملحوظ خاطر رکھ کر اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اس دورے کے بعد ہندوستان کے ساتھ امن کی طرف پیش قدمی آسان ہو جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہو۔ کیوں کہ حالا ت و واقعات کسی دوسری طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اٹھاون انچ چوڑی چھاتی والے ہندو قومیت کی نمائندگی کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔
اس کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ان افکار سے ہوئی ہے جو مہا بھارت کو اپنے مذہب کا مرکزی خیال سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک 1947ء میں ممالک نے آزادی حاصل نہیں کی تھی بلکہ زمین کا بٹوارہ ہوا تھا۔ وہ اس بٹوارے کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی آزادی ایک ڈھکوسلہ ہے۔ جس کو ختم کیے بغیر وہ اپنے نظریے کو مکمل طور پر نقطہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ نریندر مودی 2014ء میں شاید اس نظریے کو کلی طور پر عملی جامہ پہنانے کا نہ سوچیں۔ حالات تبدیل ہو گئے ہیں، 2014ء کا پاکستان بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواہشات سے کہیں پرے نکل گیا ہے۔ نیوکلیئر طاقت نے طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔
دور سے دیکھنے میں تر نوالہ ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جس کو اپنی توقع کے مطابق ہضم کرنا ناممکن ہے۔ مگر اس کے باوجود جدید زمانے میں بھی پاکستان کی بنیاد اور اساس نریندر مودی کے نقطہ فکر کے احاطے میں نہیں آتی۔ وہ ہندو قومیت کے داعی ہیں۔ وہ اس خطے میں اپنے ملک کی اجارہ داری کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی کسی ایسے خیر سگالی جذبے سے نہیں بھری ہوئی جس کو وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے مشیران گرم جوش مصافحے اور بغل گیری والی سفارتکاری سے خطے کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کر پائیں۔ یقینا نریندر مودی ہندوستان کو پاکستان کے لیے بدترین درد سر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چلیں درد سر ہی سہی اس تکلیف کو ختم کرنے کے لیے بھی تو اہتمام کرنا ہی ہو گا۔ منہ پُھلا کر کونے میں بیٹھ جانے سے نریندر مودی کا ہندوستان پاکستان کے پہلو میں کانٹے کی طرح چُبھنا بند نہیں کر دے گا۔ لہذا بات تو کرنی ہی ہو گی۔ یہ درست نقطہ نظر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں بد ترین دشمن کے ساتھ بھی میز کے آر پار بیٹھ کے ہی بات کرنا مناسب ہے۔ مگر جس رفتار سے موجودہ حکومت اس بات چیت کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ہر قیمت پر نریندر مودی کو بھائی قرار دینے پر مصر ہیں۔
اگرچہ وزارت خارجہ نے پچھلے دو تین دنوں میں کئی مرتبہ خواہ مخواہ کی سنسنی پھیلائی اور یہ بتانے سے اجتناب کیا کہ محترم وزیر اعظم اس دعوت نامے پر کیا رد عمل دیں گے۔ لیکن ہم میں سے جو بھی ن لیگ کی ہندوستان پالیسی کو غور سے دیکھ رہا تھا وہ اس مصنوعی سپنس سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا۔ ہاں ن لیگ کے چند ایک ممبران اس مبالغے میں پڑے رہے کہ شاید وزیر اعظم کسی کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سینئر رکن نے ابتدا میں دو تین مرتبہ مجھ سے بات کرتے ہوئے یہ اصرار کیا کہ ''وزیر اعظم ہندوستان جانے کے بارے میں ففٹی ففٹی ہیں''۔ ''میں نے ان کی معصومیت پر مسکراتے ہوئے یہ کہا کہ ففٹی ففٹی نہیں ون ہنڈرڈ اینڈ ففٹی ہیں کہ انھوں نے جانا ہی ہے'' ۔ اس کے بعد وزارت خارجہ کی طرف سے مندرجہ ذیل پریس ریلیز جاری ہو گئی ۔
''وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے نامزد وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت کو باضابطہ طور پر قبول کر لیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف 26 مئی کو بھارت کے دارالحکومت دہلی پہنچیں گے، وزیر اعظم کے ہمراہ سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری بھی جائیں گے، وزیر اعظم اسی روز نامزد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے، وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات 27 مئی کو ہو گی، اس کے علاوہ بھارت کے صدر پرناب مکھرجی سے ملاقات بھی شیڈول میں شامل ہے۔ وزیر اعظم 27 مئی کی سہہ پہر اپنا دورہ مکمل کر کے وطن واپس آ جائیں گے۔''
''اس سینئر مسلم لیگی نے مجھے ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ اور یہ استفسار کیا کہ مجھے وزیر اعظم کی منشاء کا کیسے پتہ چل گیا تھا''۔ ''میں نے جواب میں لکھا کہ منشا کا کس کو نہیں پتہ سب جانتے ہیں کہ دہلی، واشنگٹن ہر جگہ وزیر اعظم کی منشا کے چرچے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر کہ آپ کو اس بارے میں علم کیوں نہیں ہوا''۔
طاقت میں آنے کے فورا بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ہندوستان کے ساتھ شہریار خان صاحب کے توسط سے ایس کے لامبا کے ساتھ جس خفیہ سفارتکاری کا آغاز کیا وہ اب ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ چار نکات پر مبنی ہندوستان پاکستان امن فارمولہ طے کیا جا چکا ہے۔ دہشت گردی، تجارت، امن و امان اور دیگر معاملات اس فارمولے کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک میں باقاعدہ پالیسی پیپرز کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے۔ کبھی دبئی میں اور کبھی شہریار صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی کے کھاتے میں جو ملاقاتیں ہوئی تھی انھوں نے وزیر اعظم کے اس دورے کو عملا پہلے سے ہی طے کر دیا تھا۔ اس تمام عمل کے بہت سے پہلو پریشان کن اور پیچیدہ ہیں۔
مگر دو بالخصوص قابل اعتراض گردانے جانے چاہئیں۔ ایک تو یہ اس تمام بات چیت کے عمل اور اس کے نتائج کو صیغہ راز بنا کر رکھا گیا ہے۔ نہ کابینہ، نہ قومی اسمبلی، نہ سینیٹ، نہ متعلقہ کمیٹیوں اور نہ ہی ملک کے دوسرے اداروں کو اس کی تمام جزیات حکومت نے خود سے بتلائی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ چند ایک اداروں نے زور لگا کر اپنے تئیں معلومات حاصل کر لی ہوں۔ لیکن حکومت کی طرف سے مکمل بلیک آئوٹ ہی رکھا گیا ہے۔ جس طرح دونوں ملکوں کے پنجاب حکومتوں کے درمیان معاہدے کو بند لفافے میں ارسال کیا گیا تھا ویسے ہی قومی سفارتکاری کی جا رہی ہے۔ اگر یہ سب کچھ ملک کے لیے اتنا ہی اچھا ہے تو ڈرنے چھپنے کی کیا بات ہے۔
اصل حقائق سامنے رکھیں پتہ تو چلے کہ آپ ہندوستان کے ساتھ مل کر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ شہریار ۔لامبا بات چیت کے بہت سے پہلو جنرل مشرف کے دور میں کی گئی سفارتکاری سے مستعار لیے گئے ہیں۔ کیوں کہ دلی کا اصرار تھا کہ بات وہیں سے شروع ہو گی جہاں پر جنرل مشرف نے چھوڑی تھی۔ ایک ایسی جماعت جو ڈکٹیٹر کو پتھر مارنے سے کبھی نہیں چونکتی۔ ہندوستان کے معاملے پر اس کی ڈگر اختیار کرنے میں فخر محسوس کر رہی ہے۔ اگر جنرل مشرف کی دانش مندی ہندوستان کے حوالے سے قابل قبول ہے تو دوسری جگہوں پر بھی مان لیں۔ میاں محمد نواز شریف کو ان تمام معاملات پر وضاحت کرنی چاہیے تھی۔ لیکن وہ نہیں کریں گے۔ وہ دہلی جا رہے ہیں، ان کے لیے یہی بہت ہے۔