جنوبی ایشیا کا اعزاز

پسماندہ ملکوں میں ہر آنے والی حکومت کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی غربت میں کمی کرے گی لیکن عملاً ہوتا یہی ہے


Zaheer Akhter Bedari May 26, 2014
[email protected]

پسماندہ ملکوں میں ہر آنے والی حکومت کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی غربت میں کمی کرے گی لیکن عملاً ہوتا یہی ہے کہ عوام کی غربت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال ویسے تو ساری دنیا ہی میں موجود ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں یہ صورت حال اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا کا شمار پسماندہ ملکوں ہی میں ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں کچھ عرصہ پہلے تک غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا تناسب 40 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 50 فیصد سے زیادہ ہو گیا ہے۔

حکمران طبقات خواہ ان کا تعلق کسی بھی پسماندہ ملک سے کیوں نہ ہو ان کا پہلا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ ان کی اولین ترجیح غربت میں کمی ہے لیکن ان دعوؤں کی حقیقت اس پانی کی سی ہوتی ہے جسے چھلنی میں روکنے کی مشق کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غربت میں اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی کسی حکمران کو نہ ضرورت ہوتی ہے نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ اس فضول سوال پر غور کریں کیونکہ ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔

ہر ملک میں عوام کی اجتماعی محنت سے قومی دولت تشکیل پاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی پسماندہ ملکوں کے عوام کی غربت میں کمی کے لیے اربوں ڈالر کی امداد اور قرض دیتے ہیں، پسماندہ ممالک کے حکمراں طبقات معاشی ترقی کے نام پر عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر کا بھاری سود پر قرض بھی حاصل کرتے ہیں۔ آخر یہ اربوں ڈالر جاتے کہاں ہیں؟ کیا یہ اربوں ڈالر غربت میں کمی کے لیے استعمال ہوں تو غربت میں کمی نہیں ہو سکتی؟ بلاشبہ ہو سکتی ہے، لیکن ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

اس سوال کا ایک جواب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دینے کی کوشش کی ہے، اگرچہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے براہ راست غربت کی وجہ نہیں بتائی لیکن اس کی رپورٹ کے مطالعے سے ہر صاحب عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ پسماندہ ملکوں میں غربت کی وجہ کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کام دنیا بھر میں ہونے والی کرپشن پر نظر رکھنا ہے۔ اس ادارے کی تازہ رپورٹ کے مطابق ''جنوبی ایشیا دنیا کا کرپٹ ترین علاقہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے حکمران کرپشن کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں''۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، مالدیپ میں انسداد بدعنوانی (کرپشن) کی کوششیں بدترین مسائل کا شکار ہیں۔ ان ممالک میں کرپشن کو روکنے کے ادارے تو موجود ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتیں انسداد بدعنوانی کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے انسداد کرپشن کے تمام اقدامات بے سود رہ جاتے ہیں۔ سیاسی مداخلت اور دباؤ کی وجہ سے یہ ادارے منصفانہ طریقے سے تحقیقات نہیں کر سکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون زیر غور ہے جبکہ سری لنکا میں اس حوالے سے سرے سے کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔ بھارتی حکومت معلومات تک رسائی کے اپنے قانون میں ترمیم کر کے اسے بے سود بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی ادارہ کرپشن سے بچا ہوا نہیں ہوتا، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھی اسی نظام کا ایک حصہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے حوالے سے اس ادارے نے جو انکشافات کیے ہیں وہ نہ تو نئے ہیں نہ ان میں عوام کے لیے کوئی نئی بات موجود ہے۔ اس خطے میں رہنے والا ہر باشعور شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ پسماندہ ملکوں میں کرپشن حکمران طبقات کی ناگزیر ضرورت ہے، جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح پسماندہ ملکوں کے حکمران طبقات کرپشن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی سے لے کر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل تک سب ہی جانتے ہیں کہ پسماندہ ملکوں کے حکمران طبقات کا کرپشن سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسا مچھلی کا پانی سے لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انکشاف سے کیا اس خطے میں کرپشن میں کمی آ جائے گی؟ یہ انکشاف تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بے بسی کا اظہار ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا ادارہ ہے، کیا ملکی سطح پر کوئی ایسا ادارہ ہے جو کرپشن کو روک سکے؟ اس کا جواب بلاشبہ نفی میں ہی آتا ہے۔ غربت کا کرپشن سے براہ راست واسطہ ہے کیونکہ غربت اسی لیے پیدا ہوتی ہے اور بڑھتی ہے۔ قومی دولت جسے عام آدمی تک پہنچنا چاہیے چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ جاتی ہے، دولت کا یہ ارتکاز غربت کو جنم دیتا ہے اور جیسے جیسے مٹھی بھر ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز بڑھتا جاتا ہے غربت میں اضافہ ہوتا جا تا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے یہ انکشاف اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ پاکستان کے ''لوگوں'' کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں اور اس سے بہت زیادہ دولت دنیا کے مختلف ملکوں کے محفوظ بینکوں میں جمع ہے۔ 200 ارب ڈالر کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر نے امریکی ڈالر کی قیمت میں لگ بھگ 7-8 روپے کی کمی کر دی اور کہا جا رہا ہے کہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہماری گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اگر ڈیڑھ ارب ڈالر کی آمد سے ڈالر کے ریٹ گر جاتے ہیں اور معیشت کو سہارا ملتا ہے تو 200 ارب ڈالر سے ہماری معیشت کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا بااختیار ادارہ موجود ہے جو یہ 200 ارب ڈالر باہر سے واپس لائے؟ یہ 200 ارب ڈالر کسی مزدور، کسان، ہاری، مڈل یا لوئر مڈل کلاس کے نہیں ہیں بلکہ اسی کرپٹ مافیا کے ہیں جو ہمارے حکمران طبقات کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ تو انکشاف کیا کہ جنوبی ایشیا دنیا کا بدترین کرپٹ علاقہ ہے لیکن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور اس کے بھائی بندوں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں کہ کرپشن سے جو اربوں ڈالر اکٹھے کیے جاتے ہیں انھیں سرمایہ دارانہ نظام کے بری قذاقوں کی گرفت سے نکال کر عوام کی غربت دور کرنے کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اس کا مایوسانہ جواب خود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں موجود ہے کہ ''جنوبی ایشیا کی حکومتیں انسداد کرپشن کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی راہ میں خود ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔'' سیاسی مداخلت اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ ادارے عضو معطل بنے ہوئے ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ غربت نے دنیا کے چھ ارب سے زیادہ انسانوں کو بے بس اور مجبور کرد یا ہے، یہ دنیا کا ایک ایسا المیہ ہے کہ دولت پیدا کرنے والے دولت سے محروم ہیں اور مٹھی بھر اشرافیہ غریبوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت سے اپنی دنیا کو جنت بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے لکھاریوں کی بڑی تعداد نان ایشوز پر اپنے قلم کی جولانیاں تو دکھاتی ہے لیکن دنیا کے اہم اور سب سے بڑے ایشو پر ان کے قلموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ قلم اور اہل قلم کی سب سے بڑی ذمے داری اور فرض ہے کہ وہ پاکستان کے 18 کروڑ اور دنیا کے چھ ارب سے زیادہ انسانوں پر ہونے والے معاشی ناانصافی کے ظلم کے خلاف تلوار بنا لیں اور دنیا کے غریب انسانوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ غربت اور امارت تقدیر کا لکھا یا خدا کی مرضی نہیں بلکہ اس استحصالی معاشی نظام کی عطیات ہیں ۔

دنیا میں آج تک کوئی ایسی جمہوریت متعارف نہیں کی جا سکی جو محنت کشوں کی محنت کا احترام کرے اور انھیں ان کی محنت کے تناسب سے قومی دولت میں حصہ دلا دے۔ اگر اس ظالمانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے دس انقلاب فرانس کی ضرورت ہو تو کیا ان سے اجتناب کرنا چاہیے؟ انقلاب فرانس فرانسیسی غریب عوام کی استحصالی طبقات کے ظلم کی انتہا کا وہ جواب تھا جو دنیا کے انقلابوں کی تاریخ میں سرفہرست بن گیا۔ اگر جنوبی ایشیا کے حکمران طبقات کرپشن کے ذریعے عوام کی دولت کی لوٹ مار سے باز نہ آئے تو پھر فرانس جیسے انقلاب کی زد سے نہیں بچ پائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں