کب بنیں گے آشنا
صدیق سالک کی طرح ڈھاکا کو ڈوبتے ہوئے تو بہت ساری آنکھوں نے دیکھا،
صدیق سالک کی طرح ڈھاکا کو ڈوبتے ہوئے تو بہت ساری آنکھوں نے دیکھا، مگر اس دلخراش مناظر کو جس طرح شاعر کی نظر نے دیکھا تھا اس کا ایک بھرپور اظہار فیض احمد فیض کی اس غزل میں آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے ''ڈھاکا سے واپسی پر'' کے عنوان سے لکھی تھی، جس میں انھوں نے سیاستدانوں، جرنیلوں اور اقتداری ایجنٹوں سے کوئی شکایت کرنے کے بجائے تاریخ سے یہ گلہ کیا تھا کہ:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
درد کے اس اظہار کو نیرہ نور نے اپنے سروں میں جس انداز سے سجایا ہے وہ انداز پھر سے ہماری ٹوٹی پھوٹی سماعتوں سے اس وقت ٹکرانے لگا ہے جس وقت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھارت کے نو منتخب وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اس دلی کی طرف روانگی کے سفر کی تیاری شروع کی ہے جس دلی میں ابھی تک وہ درد موجود ہے جس درد کو میر تقی میر سے لے کر مرزا غالب تک اردو کے عظیم شعرا نے اپنے کلام میں سجایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک بھارت تعلقات صرف تین بڑی جنگوں اور بہت ساری چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی تاریخ نہیں رہی، بلکہ اس تاریخ میں کچھ اعمال ایسے بھی ہیں جنھیں امن کی طرف جانے والے راستے پر پڑنے والے اقدام کے حوالے سے سوچا جاسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے شملہ معاہدے سے لے کر جنرل ضیا کی مینگو ڈپلومیسی اور بینظیر بھٹو کی جانب سے راجیو گاندھی کی طرف بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ سے لے کر اٹل بہاری واجپائی کی بس یاترا اور نہر والی حویلی میں پیدا ہونے والے جنرل مشرف کی جانب سے بھارت کے فلمی اداکاروںکے ساتھ مل کر امن کو تلاش کرنے کی کوشش بظاہر تو بیکار گئی لیکن تاریخ میں کوئی بھی عمل ضایع نہیں ہوتا۔
آج بھی ہم اپنے شکستہ کشتیوں کے پرزے اکٹھے کرکے ایک ایسی نائو بنا سکتے ہیں جو ہمیں اس امن کے کنارے پہنچا سکے جس امن کا خواب صرف ہمارے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے نہیں بلکہ سرحد کے دونوں جانب بسنے والے ان غریب لوگوں نے بھی دیکھا ہے جو اچانک ہونے والی گولہ باری کے نتیجے میں کبھی مرجاتے ہیں تو کبھی اپاہج ہوکر پوری زندگی مرنے کی طرف آہستہ آہستہ چلتے نظر آتے ہیں۔ امن کے قیام کے حوالے سے جب بھی کوئی کوشش عمل میں آئی ہے تو اس کو دونوں ملکوں کے عوام نے محبت کی نظر سے دیکھا ہے، مگر یہ سیاست ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم فیض احمد فیض کا یہ شعر ہی لکھ سکتے ہیں کہ:
ہم سادہ لوح ایسے تھے کہ یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی
لیکن بہاروں کے خواب دیکھنے والوں کے مقدر میں خزاں کب تک رہے گی؟ کبھی تو وہ پھول کھلیں گے جن کے بارے میں شیخ ایاز نے لکھا تھا کہ:
بارشیں ہوں گی
رہ ہستی پہ تھم جائے گی دھول
اور دونوں طرف گہرے سرخ پھول
جب کھلیں گے
تب ملیں گے
مگر تاریخ کی وہ بارش ابھی تک نہیں برسی جو ان پھولوں کو پیدا کر پائے جو پھول سیاسی تقریبوں میں نچھاور نہیں کیے جاتے بلکہ جن پھولوں کے سائے میں محبت کرنے والے ملتے ہیں۔ امن کوئی ناقابل حاصل منزل نہیں ہے۔ امن ایک ایسا خواب نہیں ہوسکتا جو خواب کبھی تعبیر کی مٹھی میں نہ سما سکے۔ مگر امن کے لیے سیاست سے زیادہ محبت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ سیاست نے ہمیشہ جنگوں کو جنم دیا ہے۔ سیاست جب امن کی بات کرتی ہے تو اس میں بھی ایک جنگ چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے عالمی تاریخ میں سیاست نے کبھی امن کی منزل کو پانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ جب شملہ میں ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی ملے تب دونوں نے سیاسی باتیں کیںاور مذاکرات ناکام ہوگئے۔
جب پاکستانی وفد اپنا رخت سفر باندھ رہا تھا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے اندرا گاندھی کو ٹیلیفون کیا اور ان سے کہا کہ میں موئن جو دڑو کی تہذیب سے تعلق رکھتا ہوں اور تم اجنتا کی وارث ہو، تاریخ ہمارے بارے میں کیا کہے گی کہ ہم دونوں ملے لیکن ہم کسی بہتر نتیجے پر نہ پہنچ پائے؟ اس اظہار کے بعد اندرا گاندھی نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھر مذاکرات کے لیے بلایا اور ہم سب نے دیکھا کہ وہ مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس وقت بھی ہمیں اسی سوچ اور اسی احساس کی ضرورت ہے۔
ہمیں بھارت کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے جمہوری اور انسانی کردار کو بہتر بنائے کیوں کہ کشمیر کی برفاب وادیوں میں ہر دن سرخ خون کے چھینٹے گزرتے ہوئے وقت پر فریاد کرتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمراں جب ملتے ہیں تو آپس میں انسانی حقوق، غربت اور نسل نو کو پرامن ممالک دینے پر گفتگو کرنے کے بجائے وہ معاشی مفادات کے حوالے سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ معاشی مفادات امن کے حوالے سے اہم کردار ادا نہیں کرسکتا۔
معاشیات تو بذات خود ایک ایسی جنگ ہے جو انسانوں کو یکجا کرنے کے بجائے الگ کرتی ہے۔ ہمارے حکمران اگر اس بات پر اصرار کریں گے کہ دونوں ملکوں کے درمیاں بیوپار بہتر ہوگا تو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے، تو ایک دوسرے کو استعمال کرنے کی سوچ سے باہر نہیں آسکیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف بنیادی طور پر سرمایہ دار ہیں اور بھارت کے نومنتخب وزیراعظم نریندر مودی کے لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کو ایک معاشی طاقت بنانے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ آپس میں معاشی ترقی کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ہم معاشیات کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے لیکن صرف معاشی مفادات سے تاریخ کی تخلیق نہیں ہوتی۔
جب برصغیر میں امن کے قیام کے حوالے سے ایک تصور شیخ ایاز کے فکری آسمان پر فاختہ کی طرح محو پرواز ہوا تو ایاز نے لکھا تھا کہ:
بادلوں کی طرح
طوفاں کے زد میں ہیں ابھی
ردو کد میں ہے ابھی
خطہ برصغیر
اور میری شاعری
دہن عیسیٰ پہ ہو جیسے
شیر مریم کی لکیر
ہاں یقیناً ایسا دن بھی آئے گا
جب جاگ اٹھے گا
نسل نو کا ضمیر
میں ہی ہوں گا
شاعر اول
اس کے حسن کا
یہ ایک ایسی سوچ ہے جس سوچ پر ہم امن کی ایک ایسی تاریخ رقم کرسکتے ہیں اس کے لیے مورخ گزشتہ 66 برسوں سے منتظر رہتے آئے ہیں۔ ہم اس امن کا حصول صرف اس حوالے سے ممکن بنا سکتے ہیں کہ اگر امن کو کسی مفاد کے لیے استعمال کرنے والی چیز سمجھنے کے بجائے اسے بذات خود ایک منزل سمجھا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیاں اس وقت امن کے بغیر اور کوئی چارا بھی نہیں کیوں کہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی اسلحہ اتنی مقدار میں موجود ہے کہ ایک بھیانک جنگ کی صورت دونوں ممالک اپنے وجود سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں ہمارے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم نفرت کی آگ کو مزید بھڑکانے کے بجائے محبت کی ان بارشوں کو بلائیں جس کے بادل بلندی سے سرحدوں کو نہیں دیکھا کرتے۔ وہ محبت کی بارش صرف امن کے پھول نہیں کھلا سکتی بلکہ ان داغوں کو بھی دھوسکتی ہے جن داغوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا تھا کہ:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد