فیض احمد فیض
فیض کو کیا معلوم تھا کہ 75 سال گزرنے کے بعد بھی یہی صورت حال رہے گی کہ بولنے اور سچ لکھنے کی سزا موت ہے
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر جھکا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
فیض کو کیا معلوم تھا کہ 75 سال گزرنے کے بعد بھی یہی صورت حال رہے گی کہ بولنے اور سچ لکھنے کی سزا موت ہے۔
یوں لگتا ہے ہم سب اسی کیفیت میں جی رہے ہیں۔ ملک میں جو انتشار پھیلا ہوا ہے اس سے آج ایک رکشے والا بھی واقف ہے اگر آج فیض زندہ ہوتے تو یقینا جیل میں ہوتے۔
فیض 13 فروری 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 20 نومبر 1984 کو لاہور میں وفات پائی۔ فیض تیسری دنیا کے عظیم شاعر تھے، وہ ان خوش قسمت شاعروں میں شامل ہیں جن کے کلام کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا۔
انھیں اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی، ان کا سب سے پہلا شعری مجموعہ ''نقش فریادی'' تھا جو بہت مقبول ہوا۔ یہ کتاب 1941 میں شایع ہوئی۔
کیوں میرا دل شاد نہیں ہے
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگین ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری
نقش فریادی میں زیادہ تر نظمیں رومانی ہیں لیکن رومان اور محبت کے ساتھ دنیا کے غریب انسانوں کا دکھ بھی شامل ہے مثلاً ''رقیب سے، تنہائی،کتے۔ سب سے زیادہ مقبول نظم:
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اور ''بول'':
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک میری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول۔۔۔۔جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض اگر آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ''بولنے'' کی سزا کیا ہے۔ فیض بیسویں صدی کے نمایندہ شاعر ہیں۔
ان کے ساتھ مجاز، فراق، ن۔م راشد، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی اور علی سردار جعفری نظر آتے ہیں اور سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم، لیکن جو قبولیت فیض کو ملی وہ کسی دوسرے شاعر کو نہ ملی۔ وہ اپنے لب و لہجے اور انسان دوستی کی بنا پر مقبول ہوئے۔
فیض بھی ایک رجحان ساز شاعر ہیں، جنھوں نے نہ صرف اپنے دور کے شعرا کو متاثر کیا بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی راہ دکھائی۔ فیض کے دل میں ایک جوالا مکھی موجود ہے۔ ذرا یہ نظم دیکھیے جس کا عنوان ''کتے'' ہے:
جو بگڑے تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا کھلا دو
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
''کتے'' ایک علامتی نظم ہے، فیض نے اپنی شاعری کی ابتدا ایک رومان اور جمال پرست شاعر کی حیثیت سے کی تھی لیکن ''نقش فریادی'' کی بیشتر نظمیں جن کا ذکر میںنے اوپر کیا ہے ان میں فیض کا لب و لہجہ اور ان کا کلاسیکی آہنگ انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
''کتے'' تو صرف ایک سمبل ہے، وہ مجبور اور بے کس انسان جنھیں اہل ثروت نے صرف ''روٹی'' میں الجھا رکھا ہے۔
انھیں اگر غصہ آ جائے اور اپنی تنہائی کا احساس ہو جائے تو یہ بے وقعت مخلوق محلات شاہی کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔ فیض ایک باغی شاعر بھی تھے، لیکن ان کی شاعری پر ''محبت'' کا رنگ غالب ہے۔
1951 میں پنڈی سازش کیس میں فیض اور سجاد ظہیر کو قید کردیا گیا، فیض نے تقریباً چار سال قید کاٹی، جب رہا ہوئے تو لندن چلے گئے، وہاں ایک انگریز خاتون ایلس جارج سے شادی کر لی۔ یہ نکاح مہاراجہ کشمیر کے محل میں ہوا، خاندان میں بہت بڑا ہنگامہ ہوا، لیکن جلدی انھوں نے اس نکاح کو قبول کر لیا، فیض کے والد سلطان محمد خاں نے اپنی بہو کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کا نام کلثوم رکھا۔
فیض صاحب کے 25 مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں شاعری اور نثر دونوں شامل ہیں۔ فیض کو نوبل انعام کے لیے بھی ان کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا تھا، لیکن یاسر عرفات کی دوستی اور اشتراک و کمیونسٹ پارٹی کی وجہ سے انعام نہیں دیا گیا۔
فیض کو زندگی میں بڑی شہرت ملی۔ متعدد انعامات ان کو دیے گئے۔ 1968 میں مرزا ظفر الحسن اور فیض نے مل کر ادارہ یادگار غالب قائم کیا جو آج بھی کراچی میں علم و ادب کے شائقین کی پیاس بجھا رہا ہے۔ فیض کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ''نشان امتیاز'' بھی دیا گیا۔
فیض اپنی زندگی میں پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز،ادب لطیف اور '' لیل و نہار'' کے ایڈیٹر بھی رہے۔ '' لیل و نہار'' اشتراکی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ یاسر عرفات نے انھیں لوٹس (Loutus) کا ایڈیٹر بھی مقررکیا تھا۔
ان کی مشہور نظم ''ہم دیکھیں گے'' انڈیا کے طلبا نے پڑھی تو وہاں بڑا ہنگامہ ہوگیا، دراصل اقبال کی طرح فیض بھی برصغیر کے شاعر ہیں کیونکہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ غالب اور اقبال کے بعد فیض نے جس طرح معاشرے کو متاثر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر جھکا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
فیض کو کیا معلوم تھا کہ 75 سال گزرنے کے بعد بھی یہی صورت حال رہے گی کہ بولنے اور سچ لکھنے کی سزا موت ہے۔
یوں لگتا ہے ہم سب اسی کیفیت میں جی رہے ہیں۔ ملک میں جو انتشار پھیلا ہوا ہے اس سے آج ایک رکشے والا بھی واقف ہے اگر آج فیض زندہ ہوتے تو یقینا جیل میں ہوتے۔
فیض 13 فروری 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 20 نومبر 1984 کو لاہور میں وفات پائی۔ فیض تیسری دنیا کے عظیم شاعر تھے، وہ ان خوش قسمت شاعروں میں شامل ہیں جن کے کلام کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہوا۔
انھیں اپنی زندگی ہی میں شہرت مل گئی تھی، ان کا سب سے پہلا شعری مجموعہ ''نقش فریادی'' تھا جو بہت مقبول ہوا۔ یہ کتاب 1941 میں شایع ہوئی۔
کیوں میرا دل شاد نہیں ہے
کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
چھوڑو میری رام کہانی
میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں
میرا دل غمگین ہے تو کیا
غمگیں یہ دنیا ہے ساری
نقش فریادی میں زیادہ تر نظمیں رومانی ہیں لیکن رومان اور محبت کے ساتھ دنیا کے غریب انسانوں کا دکھ بھی شامل ہے مثلاً ''رقیب سے، تنہائی،کتے۔ سب سے زیادہ مقبول نظم:
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
اور ''بول'':
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک میری ہے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول۔۔۔۔جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
فیض اگر آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ''بولنے'' کی سزا کیا ہے۔ فیض بیسویں صدی کے نمایندہ شاعر ہیں۔
ان کے ساتھ مجاز، فراق، ن۔م راشد، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی اور علی سردار جعفری نظر آتے ہیں اور سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم، لیکن جو قبولیت فیض کو ملی وہ کسی دوسرے شاعر کو نہ ملی۔ وہ اپنے لب و لہجے اور انسان دوستی کی بنا پر مقبول ہوئے۔
فیض بھی ایک رجحان ساز شاعر ہیں، جنھوں نے نہ صرف اپنے دور کے شعرا کو متاثر کیا بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی راہ دکھائی۔ فیض کے دل میں ایک جوالا مکھی موجود ہے۔ ذرا یہ نظم دیکھیے جس کا عنوان ''کتے'' ہے:
جو بگڑے تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا کھلا دو
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
''کتے'' ایک علامتی نظم ہے، فیض نے اپنی شاعری کی ابتدا ایک رومان اور جمال پرست شاعر کی حیثیت سے کی تھی لیکن ''نقش فریادی'' کی بیشتر نظمیں جن کا ذکر میںنے اوپر کیا ہے ان میں فیض کا لب و لہجہ اور ان کا کلاسیکی آہنگ انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
''کتے'' تو صرف ایک سمبل ہے، وہ مجبور اور بے کس انسان جنھیں اہل ثروت نے صرف ''روٹی'' میں الجھا رکھا ہے۔
انھیں اگر غصہ آ جائے اور اپنی تنہائی کا احساس ہو جائے تو یہ بے وقعت مخلوق محلات شاہی کی اینٹ سے اینٹ بجا دے۔ فیض ایک باغی شاعر بھی تھے، لیکن ان کی شاعری پر ''محبت'' کا رنگ غالب ہے۔
1951 میں پنڈی سازش کیس میں فیض اور سجاد ظہیر کو قید کردیا گیا، فیض نے تقریباً چار سال قید کاٹی، جب رہا ہوئے تو لندن چلے گئے، وہاں ایک انگریز خاتون ایلس جارج سے شادی کر لی۔ یہ نکاح مہاراجہ کشمیر کے محل میں ہوا، خاندان میں بہت بڑا ہنگامہ ہوا، لیکن جلدی انھوں نے اس نکاح کو قبول کر لیا، فیض کے والد سلطان محمد خاں نے اپنی بہو کے مسلمان ہو جانے کے بعد ان کا نام کلثوم رکھا۔
فیض صاحب کے 25 مجموعے شایع ہو چکے ہیں جن میں شاعری اور نثر دونوں شامل ہیں۔ فیض کو نوبل انعام کے لیے بھی ان کی وفات کے بعد منتخب کیا گیا تھا، لیکن یاسر عرفات کی دوستی اور اشتراک و کمیونسٹ پارٹی کی وجہ سے انعام نہیں دیا گیا۔
فیض کو زندگی میں بڑی شہرت ملی۔ متعدد انعامات ان کو دیے گئے۔ 1968 میں مرزا ظفر الحسن اور فیض نے مل کر ادارہ یادگار غالب قائم کیا جو آج بھی کراچی میں علم و ادب کے شائقین کی پیاس بجھا رہا ہے۔ فیض کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ''نشان امتیاز'' بھی دیا گیا۔
فیض اپنی زندگی میں پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز،ادب لطیف اور '' لیل و نہار'' کے ایڈیٹر بھی رہے۔ '' لیل و نہار'' اشتراکی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ یاسر عرفات نے انھیں لوٹس (Loutus) کا ایڈیٹر بھی مقررکیا تھا۔
ان کی مشہور نظم ''ہم دیکھیں گے'' انڈیا کے طلبا نے پڑھی تو وہاں بڑا ہنگامہ ہوگیا، دراصل اقبال کی طرح فیض بھی برصغیر کے شاعر ہیں کیونکہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ غالب اور اقبال کے بعد فیض نے جس طرح معاشرے کو متاثر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔