کانٹے
سیاستدانوں کو حکومت دلانے کے لیے کون ان کی راہ سے کانٹے ہٹاتا ہے
پاکستان کی قومی سیاسی زندگی نے گزشتہ دہائیوں کے دوران بے شمارکروٹیں بدلیں۔
اقتدار کے ایوانوں میں براجمان سیاست دانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم کے گہرے فقدان، دوطرفہ رنجشوں، تلخیوں کی خلیج اور عدم برداشت کے بودے رویوں کے باعث عوامی مسائل سے لے کر قومی مفادات تک اور سیاسی معاملات سے لے کر آئینی تضادات تک حکومت اور اپوزیشن ہر دوفریق نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک و قوم اور آئین و قانون کے ساتھ ایسے ایسے کھلواڑکیے کہ جمہوریت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی اور غیر جمہوری طاقتیں مضبوط سے مضبوط ہو کر اپنی حاکمیت و برتری کا سکہ بٹھانے کے لیے عوام کی منتخب حکومتوں پر شب خون مارنے میں مشاق ہوتی چلی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام، آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب تشنہ تعبیر ہے۔ یہ ایک طے شدہ اور مسلمہ امر ہے کہ آئین و قانون کے اس کی روح کے مطابق عملی نفاذ ہی سے ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین اور ان کے فرائض، ذمے داریوں اور جملہ امورکی انجام دہی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
آپ دیکھیے کہ دنیا کے باوقار، مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔
جہاں طاقت، ضد، اناپرستی، اختیارات کے ناجائز استعمال، آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے، رہنما آئینی و قانونی اصولوں کو پامال کرنے اور خود کو ہر صورت درست ثابت کرنے اور دوسروں کو غلط قرار دینے کی بودی روایات پڑ جائیں تو پھر وہاں باوقار جمہوری نظام، عادلانہ سماجی و معاشرتی ماحول کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں ریاست کے تمام اہم ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اپنی حاکمیت و برتری ثابت کرنے کی دوڑ میں ہر دوسرے فریق سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً جمہوریت کمزور سے کمزور تر، سیاست داں مفادات کے غلام اور طاقت ور ادارے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
درجنوں ترامیم کے باوجود 1973 کا آئین آج بھی ملک میں نافذ العمل ہے اور امور سلطنت چلانے کا ضامن بھی ہے۔ یہی وہ آئین ہے جسے ایک آمر مطلق نے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔ یہی وہ آئین ہے کہ جس میں ایوان عدل نے ایک آمر کو ترامیم کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اسی آئین میں درج ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانا لازمی امر ہے۔
اسی آئین کے تحت حکومتوں پر یہ واجب ہے کہ وہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کریں۔ یہی وہ آئین ہے جس میں ہر ریاستی ادارے کے دائرہ کار کا تعین کر دیا گیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی 1973 کا آئین اپنی بقا اور حقیقی معنوں میں اپنی روح کے مطابق عملی نفاذ کی تلاش میں ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ ہر ریاستی ادارہ اور اس کے اکابرین اسی ایک آئین سے اپنی اپنی مرضی کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ آئینی موشگافیوں کی دوڑ میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کے باعث آئین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران تین تین مرتبہ اقتدار حاصل کیا لیکن ان جماعتوں کا کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ پھر تیسری قوت کے طور پر تحریک انصاف کو موقع دیا گیا لیکن افسوس کہ تحریک انصاف بھی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکی اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
ان پر سو سے زائد مقدمات درج ہیں اور آج کل وہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ادھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عدالت سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد جیل میں سے بغرض علاج چار ہفتوں کے لیے لندن گئے اور وہ چار سال بعد وطن لوٹے اور مینار پاکستان لاہور پر جلسہ کرنے گئے۔
آپ مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کے اکابر رہنماؤں آصف زرداری سے لے کر بلاول بھٹو تک اور نواز شریف سے لے کر شہباز شریف تک کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں جن میں یہ لوگ ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور معاشی و سیاسی استحکام اور عوام کے جملہ مسائل بالخصوص مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرتے نظر آئیں گے، لیکن انھی دو جماعتوں کے ادوار حکومت میں وطن عزیز ہر حوالے سے بلندی کی بجائے پستی کی سمت گامزن ہوتا گیا۔
آج یہ حالت ہے کہ معیشت روبہ زوال ہے، روپے کی قدر بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، ڈالرکی اڑان اونچی سے اونچی ہو رہی ہے، مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچوں کے لیے نان شبینہ کا بند و بست کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے لوگ خودکشی جیسا انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس فیصد کے لگ بھگ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک پر قرضوں کے بار میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 1947 سے 2008 تک ملک پر 16127 ارب قرضہ تھا اور اب 2008سے 2023 تک واجب الادا قرضے کی رقم 162000 ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو پھر سے اقتدار میں لانے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے سوال اٹھایا ہے کہ جہاں آئے دن وزیر اعظم بدلتے ہوں وہاں ملک کیسے چل سکتا ہے۔ انھوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ اگر کوئی غلطی کرے گا تو پکڑنا بھی آپ ہی کو ہے۔ '' غلطی'' کا سہرا بھی سیاستدانوں کے سر ہی جاتا ہے کہ وہ طاقتور حلقوں سے گٹھ جوڑ کرکے مخالف حکومتوں کے خاتمے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
سیاستدانوں کے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ طاقتور حلقوں کی حمایت اور مدد کے بغیر کسی بھی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا اسے سیاسی جلسے جلسوں اور دھرنوں کے ذریعے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری سیاسی قیادت خود ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف اور طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔
سیاستدانوں کو حکومت دلانے کے لیے کون ان کی راہ سے کانٹے ہٹاتا ہے اور اقتدار پر براجمان شخص کی راہ میں کون کانٹے بچھا کر اسے مسند اقتدار سے محروم کرتا ہے سب جانتے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاستدان اقتدار کے حصول کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ وہ طاقتور قوتوں کی حمایت حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے دھرنوں میں چیئرمین پی ٹی آئی بار بار ایمپائر سے انگلی اٹھانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ جمہوری طریقوں سے ہٹ کر غیر جمہوری طریقے سے اقتدار کا حصول سیاستدانوں کا سیاست کا بنیادی حصہ رہا ہے۔آخر چیئرمین پی ٹی آئی نے غیر جمہوری طریقے سے ایک جمہوری حکومت کو ہٹانے کا گھناؤنا کھیل کیوں کھیلا۔دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھاتے بچھاتے آج خود ان کی اپنی راہ میں کانٹے بچھ چکے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں میں براجمان سیاست دانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم کے گہرے فقدان، دوطرفہ رنجشوں، تلخیوں کی خلیج اور عدم برداشت کے بودے رویوں کے باعث عوامی مسائل سے لے کر قومی مفادات تک اور سیاسی معاملات سے لے کر آئینی تضادات تک حکومت اور اپوزیشن ہر دوفریق نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک و قوم اور آئین و قانون کے ساتھ ایسے ایسے کھلواڑکیے کہ جمہوریت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی اور غیر جمہوری طاقتیں مضبوط سے مضبوط ہو کر اپنی حاکمیت و برتری کا سکہ بٹھانے کے لیے عوام کی منتخب حکومتوں پر شب خون مارنے میں مشاق ہوتی چلی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی ملک میں جمہوریت کے استحکام، آئین و قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب تشنہ تعبیر ہے۔ یہ ایک طے شدہ اور مسلمہ امر ہے کہ آئین و قانون کے اس کی روح کے مطابق عملی نفاذ ہی سے ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین اور ان کے فرائض، ذمے داریوں اور جملہ امورکی انجام دہی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔
آپ دیکھیے کہ دنیا کے باوقار، مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی حکمرانی اور پاسداری سب سے پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔
جہاں طاقت، ضد، اناپرستی، اختیارات کے ناجائز استعمال، آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے، رہنما آئینی و قانونی اصولوں کو پامال کرنے اور خود کو ہر صورت درست ثابت کرنے اور دوسروں کو غلط قرار دینے کی بودی روایات پڑ جائیں تو پھر وہاں باوقار جمہوری نظام، عادلانہ سماجی و معاشرتی ماحول کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر بڑے بڑے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں ریاست کے تمام اہم ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اپنی حاکمیت و برتری ثابت کرنے کی دوڑ میں ہر دوسرے فریق سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً جمہوریت کمزور سے کمزور تر، سیاست داں مفادات کے غلام اور طاقت ور ادارے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
درجنوں ترامیم کے باوجود 1973 کا آئین آج بھی ملک میں نافذ العمل ہے اور امور سلطنت چلانے کا ضامن بھی ہے۔ یہی وہ آئین ہے جسے ایک آمر مطلق نے کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔ یہی وہ آئین ہے کہ جس میں ایوان عدل نے ایک آمر کو ترامیم کرنے کا اختیار دیا تھا۔ اسی آئین میں درج ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانا لازمی امر ہے۔
اسی آئین کے تحت حکومتوں پر یہ واجب ہے کہ وہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کریں۔ یہی وہ آئین ہے جس میں ہر ریاستی ادارے کے دائرہ کار کا تعین کر دیا گیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی 1973 کا آئین اپنی بقا اور حقیقی معنوں میں اپنی روح کے مطابق عملی نفاذ کی تلاش میں ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ ہر ریاستی ادارہ اور اس کے اکابرین اسی ایک آئین سے اپنی اپنی مرضی کی تشریح کرتے نظر آتے ہیں۔ آئینی موشگافیوں کی دوڑ میں ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے کے باعث آئین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران تین تین مرتبہ اقتدار حاصل کیا لیکن ان جماعتوں کا کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔ پھر تیسری قوت کے طور پر تحریک انصاف کو موقع دیا گیا لیکن افسوس کہ تحریک انصاف بھی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکی اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
ان پر سو سے زائد مقدمات درج ہیں اور آج کل وہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ادھر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عدالت سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد جیل میں سے بغرض علاج چار ہفتوں کے لیے لندن گئے اور وہ چار سال بعد وطن لوٹے اور مینار پاکستان لاہور پر جلسہ کرنے گئے۔
آپ مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کے اکابر رہنماؤں آصف زرداری سے لے کر بلاول بھٹو تک اور نواز شریف سے لے کر شہباز شریف تک کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں جن میں یہ لوگ ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی اور معاشی و سیاسی استحکام اور عوام کے جملہ مسائل بالخصوص مہنگائی، غربت اور بے روزگاری ختم کرنے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرتے نظر آئیں گے، لیکن انھی دو جماعتوں کے ادوار حکومت میں وطن عزیز ہر حوالے سے بلندی کی بجائے پستی کی سمت گامزن ہوتا گیا۔
آج یہ حالت ہے کہ معیشت روبہ زوال ہے، روپے کی قدر بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، ڈالرکی اڑان اونچی سے اونچی ہو رہی ہے، مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، غربت اور بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچوں کے لیے نان شبینہ کا بند و بست کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے لوگ خودکشی جیسا انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس فیصد کے لگ بھگ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ملک پر قرضوں کے بار میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 1947 سے 2008 تک ملک پر 16127 ارب قرضہ تھا اور اب 2008سے 2023 تک واجب الادا قرضے کی رقم 162000 ارب سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کو پھر سے اقتدار میں لانے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے سوال اٹھایا ہے کہ جہاں آئے دن وزیر اعظم بدلتے ہوں وہاں ملک کیسے چل سکتا ہے۔ انھوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ اگر کوئی غلطی کرے گا تو پکڑنا بھی آپ ہی کو ہے۔ '' غلطی'' کا سہرا بھی سیاستدانوں کے سر ہی جاتا ہے کہ وہ طاقتور حلقوں سے گٹھ جوڑ کرکے مخالف حکومتوں کے خاتمے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
سیاستدانوں کے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ طاقتور حلقوں کی حمایت اور مدد کے بغیر کسی بھی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا اسے سیاسی جلسے جلسوں اور دھرنوں کے ذریعے ہٹانے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہماری سیاسی قیادت خود ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف اور طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتی ہے۔
سیاستدانوں کو حکومت دلانے کے لیے کون ان کی راہ سے کانٹے ہٹاتا ہے اور اقتدار پر براجمان شخص کی راہ میں کون کانٹے بچھا کر اسے مسند اقتدار سے محروم کرتا ہے سب جانتے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سیاستدان اقتدار کے حصول کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جاتے ہیں کہ وہ طاقتور قوتوں کی حمایت حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے دھرنوں میں چیئرمین پی ٹی آئی بار بار ایمپائر سے انگلی اٹھانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ جمہوری طریقوں سے ہٹ کر غیر جمہوری طریقے سے اقتدار کا حصول سیاستدانوں کا سیاست کا بنیادی حصہ رہا ہے۔آخر چیئرمین پی ٹی آئی نے غیر جمہوری طریقے سے ایک جمہوری حکومت کو ہٹانے کا گھناؤنا کھیل کیوں کھیلا۔دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھاتے بچھاتے آج خود ان کی اپنی راہ میں کانٹے بچھ چکے ہیں۔