غصّے کے نقصانات اور تدارک

غضب ناک آدمی شیطان کے ہاتھ میں یوں ہوتا ہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں کھلونا


غصیل شخص کو چاہیے کہ صبر و تحمل سے کام لے تاکہ شیطان کے ہاتھوں اسیر نہ ہو۔ فوٹو : فائل

غصہ حد سے بڑھ جائے تو باعث ندامت بن جاتا ہے۔ غصہ کے ہمیشہ انسان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ندامت و شرمندگی کا اس کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے معاشرے میں نفر ت جنم لیتی ہے۔ جب کہ صبر و حلم اور غصہ کو پی جانا عزت، اچھی شہرت اور نیک نامی کا باعث بنتا ہے۔ آج کل معاشرہ میں غصہ عروج پر ہے اور ہر کوئی چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی شخص غصے سے بھرا پڑا ہے۔

معاف کرنا، درگزر کرنا اور غصے کا پی جانا جیسے ہمارے معاشرے سے اٹھالیا گیا ہو۔ انہی سخت حالات کے پیش نظر فقہیہ ابواللیث سمرقندیؒ کی مایہ ناز تصنیف ''تنبیہ الغافلین'' سے اکتساب فیض کر کے نذر قارئین یہ مضمون کیا جاتا ہے۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''غصہ آگ کی چنگاری ہے، تم میں سے جو شخص اسے محسوس کرے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔''

حضرت ابوسعید خدریؓ رسول اﷲ ﷺ کا یہ ارشاد مبارک بھی نقل کرتے ہیں: ''غصہ سے بہت بچتے رہو کہ وہ ابن آدم کے دل میں آگ پیدا کرتا ہے۔''

اﷲ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مدح میں صفت حلم کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ''واقعی ابراہیم بڑے حلیم الطبع، رحیم المزاج اور رقیق القلب تھے۔''

حلیم، درگزر کرنے والے کو کہتے ہیں اور منیب وہ شخص ہے جو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت پر لگا رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کو بھی صبر اور حلم کی تلقین فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ انبیاء سابقین بھی اسی صفت پر قائم تھے آپؐ بھی اسی پر چلیں:

مفہوم: ''کفار کی ایذا اور تکذیب پر اسی طرح سے صبر اختیار کیجیے جیسا کہ ان انبیاء کرام نے صبر کیا جنہیں کفار کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔'' (القرآن)

غضب ناک آدمی شیطان کے ہاتھ میں یوں ہوتا ہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں کھلونا، لہٰذا غصہ والے شخص کو چاہیے کہ صبر و تحمل سے کام لے تاکہ شیطان کے ہاتھوں اسیر نہ ہو اور وہ اس کے اعمال کو ضایع کر کے رکھ دے۔

جناب لقمان حکیم سے منقول ہے، مفہوم: ''اے بیٹے! تین شخص تین موقعوں پر پرکھے جاتے ہیں۔ حلیم و بردبار آدمی غصہ کے وقت، بہادر آدمی لڑائی کے وقت اور بھائی احتیاج کے وقت۔'' روایات میں ہے کہ ایک تابعی کی ایک آدمی نے ان کے سامنے تعریف کی، تو وہ کہنے لگے: اے اﷲ کے بندے! تُونے میری تعریف کس وجہ سے کی ہے ؟ کیا تُونے مجھے غصہ کی حالت میں بردبار پایا ہے ؟ وہ کہنے لگا نہیں۔ کہا: تو کیا تونے کسی سفر میں میرا تجربہ کیا ہے اور مجھے اچھے اخلاق والا دیکھا ہے ؟ وہ بولا نہیں۔ کہنے لگے: تو کیا پھر کوئی امانت رکھ کر میرا تجربہ کیا ہے اور مجھے امین پایا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا نہیں۔ فرمانے لگے: پھر تو بہت افسوس کی بات ہے، کسی شخص کو دوسرے کی تعریف اس وقت تک زیبا نہیں جب تک ان تین باتوں میں اس کو پرکھ نہ لے۔

تین باتیں اہل جنت کے اخلاق میں سے ہیں اور کسی عظیم انسان میں ہی پائی جاتی ہیں۔ کسی کے ظلم پر اس سے درگزر کرنا۔ جو محروم رکھے اس کو عطا کرنا۔ جو برائی کرے اس سے بھلائی کرنا۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد پاک کا مفہوم ہے: ''سرسری برتاؤ قبول کر لیا کیجیے اور نیک کام کی تعلیم کر دیا کیجیے اور جاہلوں سے کنارے ہو جایا کیجیے۔'' (القرآن) حدیث شریف میں ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے اس کی تفسیر پوچھی۔ وہ کہنے لگے: پوچھ کر بتاؤں گا۔ چناں چہ کچھ وقفہ کے بعد آئے اور کہا: اے محمد ﷺ! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ جو قطع تعلق کرے اس سے جوڑ پیدا کرو، جو تجھے محروم کرے اسے عطا کرو، جو ظلم کرے اس سے درگزر کرو۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں بالکل بر حق ہیں، مفہوم:

جس بندے پر کوئی ظلم ہوتا ہے اور محض اﷲ کی رضا کے لیے معاف کر دیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے باعث اس کی عزت بڑھا دیتا ہے۔ اور جو بندہ مال اکٹھا کرنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے اور زیادہ احتیاج میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جو بندہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کوئی عطیہ دیتا ہے تو اﷲ اس کی برکت سے اسے کثرت (فراخی) عطا فرماتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کیا میں تمہیں بدترین لوگوں کی نشان دہی نہ کردوں؟ صحابہ کرام علیم الرضوان نے عرض کیا: ضرور کریں۔

آپؐ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اکیلا کھائے اور اپنی نفع رسانی کو روک لے اور اپنے غلام پر کوڑے برسائے۔ پھر ارشاد فرمایا: کیا ان میں سے بھی بد ترین شخص بتاؤں؟ عرض کیا گیا ارشاد فرمائیے۔ فرمایا: وہ شخص جو لوگوں سے بغض رکھتا ہے اور لوگ اس سے بغض رکھتے ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا اس سے بھی بد ترین آدمی بتلاؤں؟ عرض کیا گیا بتلائیے۔ ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کی لغزش کو معاف نہیں کرتا اور کوئی معذرت قبول نہیں کرتا اور کسی کو کوئی جرم نہیں بخشتا۔ پھر فرمایا: اس سے بھی بد ترین آدمی بتاؤں عرض کیا گیا بتائیے۔ ارشاد فرمایا: جس شخص سے کسی خیر کی امید نہ ہو اور اس کے شر سے کسی کو امن نہ ہو۔ (تنبیہ الغافلین)

کسی دانا کا قول ہے کہ دنیا سے بے رغبتی کی چار صورتیں ہیں: ''اول: اﷲ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کے بارے میں جو وعدے فرمائے ہیں۔ ان پر اعتماد و یقین پیدا کرنا۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کی تعریف و تحسین اور مذمت و برائی یک ساں محسوس ہونے لگے۔ تیسرے یہ کہ اپنے عمل میں اخلاص پیدا ہو جائے۔ اور چوتھے یہ کہ ظلم کرنے والوں سے درگزر کرنے لگے ، اپنے مملوک غلاموں پر غضب ناک نہ ہو اور صبر و حلم اختیار کرے۔''

حضرت ابُودردائؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے انہیں کہا: مجھے ایسے کلمات سکھائیے جن سے اﷲ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے۔ ابودردائؓ فرمانے لگے: ''میں تجھے ایسے کلمات سکھاؤں گا کہ جو بھی ان پر عمل کرے گا اﷲ تعالیٰ ان کی برکت سے اس کے درجات بلند فرمائے گا: ہمیشہ پاکیزہ مال کھائیں۔ اﷲ تعالیٰ سے یومیہ رزق کی درخواست کرتے رہیں۔

اور اپنے آپ کو مردہ لوگوں میں شمار کریں۔ اپنی عزت اﷲ تعالیٰ کے لیے وقف کردو۔ جو بُرا بھلا کہے یا ایذا پہنچائے تو اس سے کہہ لوکہ میں اپنی عزت اﷲ تعالیٰ کے لیے وقف کر چکا ہوں۔ اور جب کبھی کوئی برائی ہو جائے تو اﷲ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرو۔''

فقیہہ ابوللیث سمرقندیؒ لکھتے ہیں کہ جنگ احد میں جب رسول اﷲ ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوا تو صحابہ کرام کو از حد شاق گزرا۔

بعض نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! آپ ان لوگوں کے لیے بد دعا کیجیے جنہوں نے آپؐ سے یہ معاملہ کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں لعنت کرنے کو نہیں آیا، میں تو رحمت بن کر آیا ہوں اور ان کے حق میں دعا کی: اے اﷲ! میری قوم کو ہدایت فرما کہ وہ میری نبوت و رسالت سے ناآشنا ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی زبان کو لوگوں کی بے عزتی سے محفوظ رکھے گا، اﷲ تعالیٰ قیامت کے روز اس سے اپنے غٖضب کو روک لے گا۔

یحییٰ بن معاذؒ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے ظالم پر بد دعا کی اس نے حضرت محمد ﷺ کو انبیاء کی جماعت میں غمگین کیا اور ابلیس لعین کو شیاطین اور کفار کے مجمع میں خوش کیا اور جس نے ظالم سے درگزر کی تو اس نے کفار اور شیاطین کے مجمع میں ابلیس ملعون کو غمگین کیا اور حضرت محمد ﷺ کو انبیاء اور صلحاء کے مجمع میں مسرت پہنچائی۔

رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی پکارے گا: وہ لوگ کہاں ہیں جن کے اجر اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھے ہیں؟ اس پر لوگوں کو معاف کر دینے والے اٹھیں گے اور جنت میں داخل ہو جائیں گے۔

احنف بن قیسؒ سے کسی نے پوچھا: انسانیت کیا ہے ؟ فرمایا: سرداری میں تواضع اختیار کرنا، قدرت کے باوجود معاف کر دینا اور احسان جتائے بغیر بھلائی کرنا۔

حضرت عطیہؒ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن کو سلیم الطبع اور نرم خُو ہونا چاہیے جیسے نکیل والا اونٹ لے کر چلیں تو ساتھ چل دیتا ہے، اگر بٹھا دیا جائے تو بیٹھ جاتا ہے ۔

فقیہؒ فرماتے ہیں کہ غضب کے وقت حتیٰ الوسع صبر سے کام لو اور جلد بازی سے بہت بچو۔ جلد بازی اور صبر کا نتیجہ تین چیزوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جلد بازی کی صورت میں انجام پر ندامت ہوتی ہے۔ لوگوں میں ملامت ہونے لگتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ کے ہاں سزا ہوتی ہے اور صبر کی صورت میں طبیعت از خود مسرت محسوس کرتی ہے۔ لوگوں میں تعریف ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کے ہاں ثواب ملتا ہے۔ یقیناً حلم اور بردباری ابتداء میں کڑوی ہے مگر انجام میٹھا ہے جیسا کہ ایک شخص نے بھی کہا ہے کہ حلم کا ذائقہ گو شروع میں کڑوا ہے مگر آخر میں شہد سے بھی میٹھا ہے۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں غصہ پینے اور صبر کرنے کی توفیق دے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں