سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے

واقعۂ معراج کو ہر دور میں علماء اور خطباء اپنے اپنے انداز سے بیان کرتے اور مختلف زاویوں سے اِس کی تعبیر و تشریح


عالمِ انسانیت کی خلائی فتوحات اور تسخیرِ ماہتاب کا ذکر چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ فوٹو؛فائل

واقعۂ معراج کو ہر دور میں علماء اور خطباء اپنے اپنے انداز سے بیان کرتے اور مختلف زاویوں سے اِس کی تعبیر و تشریح فرماتے آئے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال نے ایک نئے انداز میں اِس واقعے کو تعبیر فرمایا، اُن کے نزدیک یہ سفر انسانی زندگی کے ارتقاء کی پہلی منزل بنا، اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا

سبق ملا ہے یہ، معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالَم بشریت کی زَد میں ہے گردوں

واقعہء معراج ہی انسان کو فضاؤں کی بسیط وُسعتوں اور خلاؤں کے دور اُفتادہ مقامات کو زیر کرنے کا حوصلہ و ہمت بخشتا ہے، اُسے یہ احساس دلاتا ہے کہ بے شک یہ سچ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی قادرِ مطلق اور زبردست قوت و حکمت والا ہے اور انسانی مادّی طاقت اور عقل اُس کی وسعتوں کو چھونے اور پار کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: ''اے جنات اور انسان کے گروہو! اگر تم یہ طاقت رکھتے ہوکہ آسمانوں اور زمینوں کے کناروں سے نکل جاؤ، تو نکل جاؤ! تم جہاں بھی جاؤ گے، وہاں اُسی کی سلطنت ہے (رحمن:33)''۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بخشی ہوئی طاقت و قدرت کے سہارے ہی انسان آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے قابل ہوا۔ سمندروں کی گہرائی کو ماپا، فضاؤں کی حدوں کو چھونے کے قابل بنا۔ اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے صحیح مصرف کو سمجھنے کے قابل ہوا، اس نے معدنی ذخائر کو زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے کھینچ نکالا۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت و قوت اور اُس کے کرم کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ہنوز انسانیت کے ارتقا کا یہ سفر جاری ہے، اور جاری رہے گا۔

جدید سائنسی علوم کائنات کی جن سچائیوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں، قدم قدم پر انکشافات کی نئی، نئی دنیاؤں کے ظہور کی تصدیق کررہے ہیں، اس سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی آفاقی تعلیمات کی سائنسی توجیہہ خود بخود ہوتی جارہی ہیں۔ زمین سے فضا کا سفر کروڑوں نوری سال کا ہوتا ہے۔

تسخیرِ ماہتاب : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے جولائی1969 میں اپالو مشن کے تحت چاند کا پہلا کام یاب سفر کیا، نیل آرمسٹرانگ، ایڈون بز اور کولون تین افراد پر مشتمل یہ قافلہ دو روز چاند پر رہنے کے بعد واپس لوٹا، اِس دوران ان کا زمینی مرکز سے مسلسل رابطہ رہا۔ عالمِ انسانیت کی اِن خلائی فتوحات اور تسخیرِ ماہتاب کا ذکر چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمہ: '' قسم ہے چاند کی، جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے، تم یقیناً طبق در طبق ضرور سوار ی کرتے ہوئے جاؤ گے، تو اُنہیں کیا ہوگیا ہے کہ (قرآنی پیشن گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لاتے، (انشقاق:18-20)''۔

آج سے چند سو برس قبل انسان جن باتوں کو فطرت کے قوانین کے خلاف اور عقلی اعتبار سے محال تصور کرتا تھا، آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انسانی علم اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے ہوائی جہاز فضاؤں میں محو پرواز ہیں، ہزاروں سیٹلائٹ خلا میں مُعلّق ہیں، انسانی ساختہ راکٹ کی طاقت سے خلائی شٹل چاند پر پہنچی اور واپس صحیح سالم اُتر آئی، اپنی تمام تر مادی ترقیوں کے باوجود انسان ابھی تک روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکا۔

عادت اور قدرت کا فرق:

ممتاز سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن نے 1908میں '' نظریہ اضافتِ مخصوصہ ''(Special Theory of Relativity) بیان کیا۔ آئن اسٹائن کی تحقیق نے ثابت کیا کہ مادہ(Matter)توانائی (Energy) کشش (Gravity) زمان (Time) اور مکان(Space) میں ایک خاص ربط اور نسبت ہے۔ اِس نظریے میں یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لیے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتار سے حرکت کرتا ہے، تو اُس کا حجم بھی اُسی تناسب سے گھٹتا بڑھتا ہے۔ چناںچہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دو گنا ہو جاتی ہے۔ جب کہ اُس کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور وقت کی رفتار بھی اُس پر نصف رہ جاتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی راکٹ 1,67,000میل فی سیکنڈ یعنی روشنی کی رفتار کا90% دس سال سفر کرے ، تو اُس میں موجود خلانورد کی عمر میں صرف پانچ سال کا اضافہ ہوگا، جب کہ اگر زمین پر اُس کا کوئی ہم عمر ہو، تو پورے دس سال گزرنے کی وجہ سے وہ زمین پر موجود شخص دس سال بڑا ہو جائے گا۔ آئن اسٹائن کے نظریے کے مطابق روشنی کی رفتار کا90%حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے، وہاں جسم کا حجم بھی سکڑ کر نصف رہ جاتاہے۔ اِس نظریے کی بنیاد پر آئن اسٹائن نے نتیجہ اخذ کیا کہ کسی بھی مادی جسم کے لیے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔

اِس قانون کی روشنی میں اگر سفرِ معراج کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ''اﷲ کی عادت '' کا یہ نظام ِ فطرت اُس کی '' قدرت '' کے مظہر کے طور پر بدل گیا، وقت بھی تھم گیا۔ جسم کی کمیّت بھی لامحدود نہ ہوئی اور فنا ہونے سے بچا رہا۔ حجم بھی جوں کا توں برقرار رہا۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ براق پر سوار ہوکر ہزارہا روشنیوں کی رفتار سے سفرِ معراج پر گئے۔ براق، برق (روشنی) کی جمع ہے۔ جدید سائنس اپنی تحقیقات کی بنیاد پر اِس سچائی تک پہنچ چکی ہے کہ رفتار کی کمی بیشی کے مطابق کسی جسم پر وقت کا پھیلنا، سکڑنا، جسم کے حجم اور فاصلوں کا سکڑنا، پھیلنا، قوانین فطرت اور منشائے ایزدی کے عین موافق ہے ۔

سفرِ معراج سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں یعنی مکانی اور زمانی سفر طے کرنا۔ قرآن مجید میں ان دونوں کو ساتویں صدی عیسوی کے اوائل واقعات کی نسبت سے اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان فرما دیا ہے۔ سفرِ معراج مکانی اور زمانی کی جامعیت کا مظہر ہے، سفر کا ایک رخ زمانی کا مظہر ہے، تو دوسرا رخ مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔

طیٔ مکانی: لاکھوں کروڑوں کلومیٹرز کی دوری اور مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سمٹنے کو اصطلاحاً ''طیٔ مکانی '' کہتے ہیں۔ ملکۂ سبا بلقیس جو حضرت سلیمانؑ سے900 میل کے فاصلے پر ہے، حضرت سلیمانؑ سے ملنے آتی ہے۔ حضرت سلیمان ؑ چاہتے ہیں کہ اُس ملکہ کا تخت اُس سے آنے سے پہلے دربار میں پیش کردیا جائے۔ آپ نے اپنے درباریوں سے یوں کہا: ترجمہ: '' اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرماں بردار ہوکر میرے پاس آئیں۔ ایک قوی ہیکل جن نے کہا میںآپ کے اٹھنے سے پہلے اُسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں اور میں اُس کے لانے پر طاقت ور اور امانت دار ہوں۔



اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طیٔ مکانی پر دست رس حاصل تھی کہ دربار ختم ہونے سے پہلے 900 میل کے فاصلے سے تختِ بلقیس اٹھا کر لے آئے، حضرت سلیمانؑ کو اتنی تاخیر بھی گوارانہ تھی، آپ نے کہا: اِس سے زیادہ جلدی کون لاسکتا ہے؟ آپ کے ایک صحابی حضرت آصف بن برخیا جو کتاب کا علم رکھتے تھے ، اٹھے اور کہا :ترجمہ:'' میں آپ کی نگاہ چھپکنے سے پہلے وہ تخت آپ کے پاس لا سکتا ہوں، پس حضرت سلیمان نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا دیکھا اور کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے، (النمل:38تا40)''۔

صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو ''طیٔ زمانی'' کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں دو ایسی اہم مثالیں ہیں۔ اصحابِ کہف جو تین سو نو سال ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو یہ گمان گزرا کہ ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ قرآن مجید میں ہے: ترجمہ:'' اُن میں سے ایک نے کہا: تم یہاں کتنا عرصہ ٹھہرے ہو ؟، اُنہوں نے کہا : ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں''، (الکہف:17) ۔

309سال گزرنے کے باوجود اُنہیں محض ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ محسوس ہوا، اُن کے اجسام تر و تازہ رہے۔309 قمری سال300 شمسی سالوں کے مساوی ہوتے ہیں یعنی کرۂ ارض کے 300 سالوں کے شمسی موسم اُن پر گزرگئے، یہ اﷲ تعالیٰ کی خاص نشانی اور ''قدرتِ الٰہیہ '' کا ظہور تھا، جس سے ''عادتِ الٰہیہ'' کے پیمانے سمٹ گئے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :ترجمہ: ''اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے، تو اُن کے غار سے دائیں طرف ہٹ جاتاہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے، تو بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں ہیں، (الکہف:17)''۔

قیامت کا دن بھی کی صورت میں ہوگا۔ پچاس ہزار سال کا دن جو مومنین پر عصر کی چار رکعات کی ادائیگی جیسے وقت میں گزر جائے گا، جب کہ دیگر لوگوں پر طویل، ناقابلِ بیان کرب و اذیت ہوگا۔

قرآن مجید میں اﷲ کے ایک نبی حضرت عزیرؑ کا واقعہ موجود ہے، وہ جب ایک وادی سے گزرے اور حق الیقین کے لیے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا، تو اﷲ تعالیٰ نے اُن پر سو سال کے لیے موت طاری کردی۔ قرآن مجید میں ہے : ترجمہ:'' پس (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لیے حضرت عزیز ) کو سو برس تک مردہ رکھا، پھر زندہ کیا اور پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا؟، جواب دیا : میں ایک دن یا اُس کا کچھ حصہ ٹھہرا رہا ہوں، فرمایا: نہیں بلکہ تو سو برس یہاں رہا۔ پس اب تو اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کو دیکھ وہ باسی نہیں ہوئیں اور اپنی سواری (گدھے) کو دیکھ (جس کی ہڈیاں تک سالم نہ رہیں) اور ہم تجھے لوگوں کے لیے اپنی قدرت کا نشان بنائیں اور ان ہڈیوں کو دیکھ جنہیں ہم کس طرح ہلا کر جوڑتے ہیں، پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں، (البقرہ:259)''۔

حضرت عزیرؑ کا جسم سو سال گزرنے کے باوجود، موسموں کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہا، کھانے پینے کی اشیاء کی تر و تازگی میں فرق نہیں آیا، لیکن یہی ایک صدی اُن کی سواری پر ایسے گزری کہ اُس کا نام و نشان مٹ گیا، ہڈیاں بکھر گئیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُس گدھے کو زندہ کیا اور طیٔ زمانی اور احیائے ٰ کے منظر دکھلا دیے۔

سفرِ معراج کے تین مدارج ہیں : مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ ، مسجدِ اقصیٰ سے آسمانوں تک اور آسمانوں سے عرشِ اعظم تک۔ تفصیل صحیح مسلم کی حدیث:162میں طویل حدیث کی صورت میں امام مسلم نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت فرمائی۔ اِن تینوں مراحل کے ایک طرفٔ زمانی کا عُقدہ حل ہوتا ہے، تو دوسری جانب طیٔ مکانی کی جامعیت نظر آتی ہے اور روحانیت کی تکمیل اعلیٰ اَقدار پر ہوتی نظر آتی ہے۔ قرآن مجید میں واقعۂ معراج دو مختلف سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ اسراء میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی کا سفر بیان کیا گیا: ترجمہ:'' ہر عیب سے پاک ہے وہ جو اپنے (مکرم) بندہ کو رات کے ایک قلیل وقفہ میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا، جس کے اردگرد کو ہم نے برکتیں دیں ہیں تاکہ ہم اس (عبد ِمُکرم) کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے، (بنی اسرائیل:1)''۔

اللہ تعالیٰ نے اِس سفر کے ذکر کی ابتدا سبحان سے کی اور سبحان اﷲ تعالیٰ کی صفت اور اُس کا ذکر ہے، آیت کے آخر میں فرمایا: ''بے شک وہ سمیع اور بصیر ہے، سمیع و بصیر ہونا بھی اﷲ تعالیٰ کی صفت اور اُس کا ذکر ہے، تو سفرِ معراج کی ابتدا بھی اﷲ کے ذکر سے اور انتہا بھی اﷲ کے ذکر سے ہوئی اور سفرِ معراج میں رسول اﷲ ﷺ نماز کا تحفہ لے کر آئے، جو اﷲ کا ذکر ہے۔

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''مادی انسانوں نے ترقی کی اور اُن کی ترقی کی معراج یہ ہے کہ چاند پر پہنچے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ چاند پر بھی مٹی ہے، وہاں سے بطور سوغات مٹی کے ڈھیلے لائے، تو یہ مٹی سے چلے، مٹی تک پہنچے اور جو لے کر آئے وہ بھی مٹی تھی۔ حضور ﷺ اﷲ کے ذکر سے چلے، اﷲ کے ذکر تک پہنچے اور جو تحفہ لے کر آئے وہ بھی اﷲ کا ذکر ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ مادی معراج میں انسان مٹی سے آگے نہیں جاسکتا اور روحانی معراج میں مٹی سے بنا ہوا انسان خدا تک جا پہنچتا ہے۔

معراج کی ایک حکمت خود قرآن نے بیان فرما دی: ''اور ہم نے جو مشاہدہ (شبِ معراج) آپ کو دکھایا تھا، وہ لوگوں کے لیے ایک آزمائش تھا (کہ کون کسی تردد کے بغیر تصدیق کرتا ہے اور کون اسے عقل کی میزان پر پرکھ کر رَدّ کر دیتا ہے)، (بنی اسرائیل:60)''۔ معراج اہلِ صدق و اخلاص و وفا اور معاندین و منافقین کو چھانٹنے کا ذریعہ بنا ۔ کفار و منافقین عقلی دلائل و تا ویلات کے دام میں پھنسے رہے اور اہلِ اخلاص و وفا کسی دلیل و برہان کی جستجو میں پڑنے کے بجائے فوری تصدیق کرکے ''صدیق'' کا لقب پاگئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں