اوورسیز انویسٹرز چیمبر کی ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے نادرا اور بینک ریکارڈ استعمال کرنیکی تجویز

موجودہ ٹیکس گزاروں کو تکلیف دیے بغیر ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا ہے، اسد ایس جعفر

موجودہ ٹیکس گزاروں کو تکلیف دیے بغیر ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا ہے، اسد ایس جعفر۔ فوٹو: فائل

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس (او آئی سی سی آئی) نے قومی شناختی کارڈ نمبر اور بینکوں کے ریکارڈ کے ذریعے آمدن کے ساتھ اثاثوں کا کھوج لگاکر نئے ٹیکس گزاروں کی تعدادبڑھانے، زراعت، اسٹاک مارکیٹ، خدمات فراہم کرنے والے پروفیشنلز، ریسٹورانٹس، ڈریس ڈیزائنر، بیوٹی پارلرز سمیت آمدن کے ہر ذریعے پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔

او آئی سی سی آئی کے صدر اسد ایس جعفر نے ''ایکسپریس'' کو انٹرویو میں بتایا کہ آئندہ بجٹ کے لیے ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں جس میں نادرا اور بینکوں کے ریکارڈ کو استعمال کرنے کی تجاویزشامل ہیں۔ صرف فسکل اسپیس بڑھانے سبسڈی یا سپورٹ پروگرام سے عوام کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔ عوام کا معیار زندگی پائیدار بنیادوں پر بہتر بنانے کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنا ہوگا جس کے لیے امن و امان اور سیکیوریٹی کے مسائل کاخاتمہ، توانائی کے بحران کا حل اور پالیسیوں کا نفاذ اور تسلسل لازمی ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے ساتھ ٹیکسوں کی چوری اور عدم وصولیوں کا راستہ ختم کرنا ہوگا۔

پولیٹیکل ول بروئے کار لاتے ہوئے جرات مندانہ فیصلوں کے ذریعے مالی وسائل بڑھانے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے گنجائش میں بھرپور اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے ساتھ یہ بھی منصوبہ بندی کی جائے کہ ہدف پورا کرنے کے لیے پہلے سے موجود ٹیکس گزاروں پر کتنا بوجھ ڈالا جائے گا اور نئے ٹیکس گزاروں کو تلاش کرکے ان سے کتنا ٹیکس لیا جائے گا۔ اس ضمن میں ترکی کے ماڈل سے مدد لی جاسکتی ہے جس کے ذریعے ترکی نے چند سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو سنگل ڈیجٹ سے بڑھا کر 20فیصد کرلیا ہے۔ توانائی کے بحران کے حل کے لیے حکومت کی سمت درست ہے لیکن رفتار کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کی زیادہ توجہ توانائی کی پیداوار بڑھانے کے لیے نئے پراجیکٹس پر مرکوز ہے اس کے ساتھ توانائی کے کفایت بخش استعمال اور پاور سیکٹر کی استعداد کار کو بہتر بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو پاور سے متعلق تمام محکموں اور وزارتوں کو ضم کرکے توانائی کی وزارت قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ٹیکس ریفارمز اور موثر انفورسمنٹ کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھاتے ہوئے فسکل اسپیس پیدا کرنے کے لیے حکومت کی پوزیشن کافی مضبوط ہے چیمبر کی تجاویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے موجودہ ٹیکس گزاروں پر بوجھ بڑھانے کے بجائے نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔


اس مقصد کے لیے قومی شناختی کارڈ نمبر اور بینکوں کے ریکارڈ سے استفادہ کیا جائے تاہم چیمبر بینکوں کے ریکارڈ کی چھان بین ٹیکس آفیشلز سے کرانے کا مخالف ہے حکومت کو اختیار ہے کہ بینکوں سے ریکارڈ طلب کرسکتی ہے جسے نادرا کے ڈیٹا کے ذریعے نئے ٹیکس گزاروں کو نیٹ میں شامل کرنے کیلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکسوں کی شرح 9فیصد سے کم ہے ملک کی نصف معیشت غیردستاویزی ہے اس لیے رئیل ٹرم میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بھی 5فیصد سے زیادہ نہیں اس لیے ٹیکس نیٹ میں اضافے کے وسیع مواقع موجود ہیں موجودہ ٹیکس گزاروں کو تکلیف دیے بغیر ٹیکس نیٹ بڑھایا جاسکتا ہے حکومتیں دبائو میں آکر مختلف لابیز کو چھوڑتی رہی ہیں۔ بلڈرز کی لابیز، ایگری کلچر اور اسٹاک کے سرمایہ کاروں کی لابیز سمیت کسی لابی کے دبائو کو خاطر میں لائے بغیر ملک و قوم کے مفاد میں ہر ذرائع آمدن سے ٹیکس لیا جائے۔

جس شعبے کا جی ڈی پی میں جتنا حصہ ہے اس سے اتنا ہی ٹیکس وصول کرنا چاہیے جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ 22فیصد ہے لیکن یہ شعبہ 70فیصد ٹیکس ادا کررہا ہے، سروس سیکٹر جی ڈی پی میں 20فیصد کا حصہ دار ہے لیکن ٹیکسوں کا تناسب انتہائی کم ہے اسی طرح جی ڈی پی میں 20فیصد سے زائد کے حصہ دار ایگری کلچر سیکٹر سے ٹیکس وصولیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اوورسیز چیمبر ان تضادات کو ختم کرنے کیلیے کوشاں ہے کیونکہ ان تضادات کو دور کیے بغیر عام آدمی تک ریلیف نہیں پہنچایا جاسکتا ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے مرسڈیزچلانے والا بھی موٹرسائیکل والے کے برابرٹیکس دے رہا ہے تجویز ہے کہ براہ راست ٹیکس بڑھایا جائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکس کم کیے جائیں جس کے پاس انکم ہے وہ ٹیکس دے چاہے اس کا کسی بھی شعبے سے تعلق ہو۔ ایگری کلچر سیکٹر سے ٹیکس وصول کیا جائے۔

اگر ایگری کلچر سیکٹر ٹیکس نہیں دے رہا تو جس کے پاس 4لاکھ سے زائد کی انکم ہے اسے ریٹرن کے ساتھ ویلتھ اسٹیٹمنٹ فائل کرنے کا پابند بنایا جائے اور ویلتھ پر ایک فیصد ٹیکس وصول کیا جائے اگر ویلتھ پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا ہوتو اسے ایڈجسٹ کرانے کی سہولت دی جائے۔ پراپرٹی کے ریکارڈ سے بڑے بڑے مکانات اور جائیدادوں کے مالکان پر ایسٹ ٹیکس عائد کیا جائے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اگر پیسہ بنایا جارہا ہے آمدنی ہورہی ہے تو ٹیکس دینے میں کیا ہرج ہے اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں نے کیپیٹیل گین ٹیکس10فیصد سے بڑھا کر 17فیصد تک لانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم اب کیپیٹل گین ٹیکس نہ بڑھانے کیلیے دبائو ڈالا جارہا ہے اس معاملے میں چیمبر حکومت کو سپورٹ کریگی دنیا میں ہرجگہ آمدن کے ذرائع پر ٹیکس لیا جاتا ہے اسی طرح پیسہ کمانے والے پروفیشنلز ڈاکٹر، بیوٹیشنز، ڈریس ڈیزائنرز پر ٹیکس لاگو کیا جائے ان تمام شعبوں کی آمدن کا ریکارڈ بینکوں سے حاصل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں سیلز ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن سیلز ٹیکس کی چوری کی شرح بھی بہت ہے اس لیے ایفیکٹیو ریٹ 3سے 4فیصد ہے حکومت سیلز ٹیکس کو کم کرکے سیلز ٹیکس کی وصولیاں بڑھاسکتی ہے جس سے عام آدمی کو بھی ریلیف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ چیمبر ٹرن اوور ٹیکس کے حق میں نہیں ہے کیونکہ ٹرن اوور ٹیکس سے بڑے ٹیکس پیئرز پر دبائو بڑھا ہے۔ چیمبر نے کارپوریٹ ٹیکس میں بتدریج کمی کی تجویز دی ہے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی سرمایہ کاری کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ غیرملکی سرمایہ کار دیگر ملکوں کے کارپوریٹ ٹیکس اسٹڈی کرتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں پاکستان کے ہم عصر ملکوں میں یہ شرح کم ہے اس لیے اس ٹیکس کو بتدریج کم کرنے کی ضرورت ہے اور امید ہے کہ اس بجٹ میں بھی کارپوریٹ ٹیکس کم کیا جائے گا۔ چیمبر نے ایمنسٹی اسکیموں کی سختی سے مخالفت کی ہے کیونکہ اس طرح کی اسکیمیں ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنتی ہیں جس سے ملک میں ٹیکس کلچر کے فروغ کی کوششوں کو دھچکا پہنچتا ہے۔
Load Next Story