موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی
پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کا پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ترقی یافتہ ممالک کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمے دار نہیں ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے سندھ اور بلوچستان متاثر ہوئے، ہم سب کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ لاس اینڈ ڈی میج فنڈ کو ترقیاتی فنڈز اور بڑے مالیاتی اداروں کے قرضوں سے الگ ہونا چاہیے اور یہ سرمایہ میرٹ پر اور اضافی ہونا چاہیے۔
پاکستان کاربن کا کم اخراج کرنے والا ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہ دیگر ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کے نقصانات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دراصل فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے جب کہ آلودگی کے تمام بڑے عوامل آب و ہوا پر اثرانداز ہوتے ہیں، ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک میں سے ایک ملک کے طور پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔
ان خطرناک نتائج کے باعث ملک میں درجہ حرارت میں شدت، خشک سالی اور سیلاب جیسے متواتر منفی موسمی حالات درپیش ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیس ایمیشن جو کرہِ ارض پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہے۔
اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی کی وجہ سے انسان کی عمر 3 سال اور لاہور میں 7 سال کم ہو جاتی ہے۔
اسموگ ماحولیاتی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے۔ ٹھہرئی ہوئی ہوا میں موجود گیسیں مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن وغیرہ کے ذرات مل کر اسموگ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اسموگ فضائی آلودگی کی وہ قسم ہے جو انسانوں، جانوروں اور پودوں کے علاوہ پورے ماحول کو آلودہ کر دیتی ہے۔ اسموگ بننے کی وجوہات میں ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کے علاوہ فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا بھی شامل ہے۔
کراچی میں بھی فضائی آلودگی کے اثرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں کراچی اور لاہور کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کے اثرات انسانی صحت، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام پر ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی میں مضر صحت گیس اور کیمیائی مادوں کے ننھے منے ذرات شامل ہیں جو صرف خورد بین سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انھی میں ایک قسم کے ذرات بھی شامل ہیں جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) کہا جاتا ہے۔
پی ایم 2.5 کے ذرات بالخصوص صحت کے لیے بہت تباہ کن ہوتے ہیں، جو عام طور پر ٹریفک کے دھوئیں میں پائے جاتے ہیں اور دیگر آلودگیوں میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28 ہزار افراد کی ہلاکت ہوتی ہے، اگر ہم 2023 کا ڈیٹا نکالیں تو اموات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوگی کیوں کہ ہم نے دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کام نہیں چھوڑا، ہم نے اپنی حرکتوں سے اوزون لیول کو کم کردیا ہے اور ہم مسلسل درخت کاٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی پلاسٹک کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔
کراچی شہر کی غیر منظم آبادکاری اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے علاوہ ٹرانسپورٹ سے بڑی مقدار میں پیدا ہونے والی آلودگی کے باعث شہر میں ہوا کا معیار انتہائی خراب ہوچکا ہے، جس کے باعث فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ فضا میں شامل زہریلی گیس اور ذرات ناک، منہ اور کان کے ذریعے خون کی روانی میں شامل ہوکر انسان کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
جن میں سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، پھیپھڑوں کے امراض، فالج، امراض قلب اور کینسر وغیرہ سرفہرست ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی بہت سی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 سال سے کم عمر کے اڑھائی لاکھ بچے آلودہ پانی کے باعث لڑکپن سے پہلے موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔
آلودہ پانی سے سانس کی بیماریاں، آنتوں کی سوزش،اسہال، جلدی امراض، غدود کا بڑھنا، ٹی بی،ہیپاٹائٹس اے جیسے مہلک امراض بڑھتے جا رہے ہیں، جس کے علاج معالجے، ادویات کی بر آمد اور افرادی قوت کے متاثر ہونے کے باعث پاکستان کی معیشت کو ہر سال 1 ارب 30 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہر پانچ میں سے چار امراض پانی سے لگنے والی بیماریوں سے پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے اسہال بچوں میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔
پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کا پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اداروں کا کمزور انتظام، لیبارٹریز میں سازوسامان کی کمی اور اس حوالے سے کسی قانون کی عدم موجودگی سے بھی معاملہ بگڑ چکا ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگوں کا اس مسئلے کی سنگینی سے لا علم رہنا زیادہ تشویش ناک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 6کروڑ 30 لاکھ آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پانی کی کمی کو پورا کرنا آسان کام نہیں شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گندی، آلودہ ہوا غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
اس کے مہلک اثرات خاص طور پر خواتین، بچے اور بوڑھے شہریوں کو سب سے متاثر کرتے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ فضائی آلودگی کا شکار ہر 10 میں سے ایک شخص انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے۔
انڈسٹری پانی کی آلودگی کا بنیادی سبب ہے۔ بدقسمتی سے، ہزاروں کمپنیاں اب بھی نہیں جانتیں کہ اس وسائل کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، اور وہ اپنے صنعتی عمل سے بڑی مقدار میں آلودگی پیدا کرنے والی مصنوعات کو جاری کرتی ہیں۔
دریا اور نہریں ان خراب طریقوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایسا نہیں لگتا ہے، گلوبل وارمنگ پانی کی آلودگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب ماحولیاتی نظام کا درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہوتا ہے تو، پانی کا ذریعہ آکسیجن کے مواد کو کم کرتا ہے، جس سے پانی کی ساخت میں تبدیلی آتی ہے۔
ہمارے وقت کے زرعی عمل کی اکثریت پودے لگانے اور خوراک کی پیداوار کے لیے کھاد اور کیمیکل استعمال کرتی ہے۔ ٹھیک ہے، ان مصنوعات کو زیر زمین چینلز کے ذریعے فلٹر کیا جاتا ہے اور، زیادہ تر معاملات میں، یہ چینلز بالآخر ہمارے واٹر سپلائی نیٹ ورک میں استعمال کے لیے داخل ہوں گے۔ اس پانی کو قابل علاج نہیں کیا جاتا اور اسے استعمال کے لیے موزوں چینل پر واپس کر دیا جاتا ہے۔
ضرورت سے زیادہ لاگنگ دریاؤں، جھیلوں اور پانی کے دیگر ذرایع کو خشک کر سکتی ہے۔ مزید برآں، جنگلات کی کٹائی میں دریا کے کناروں سے درختوں کی جڑوں کو ہٹانا شامل نہیں ہے، جس کی وجہ سے تلچھٹ اور بیکٹیریا زمین کے نیچے نمودار ہو سکتے ہیں اور اس طرح اس قیمتی وسائل کو آلودہ کر سکتے ہیں۔کراچی میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی ذمے داری ٹرانسپورٹ پر عائد ہوتی ہے جس میں ٹرک سے لے کر موٹرسائیکل تک سب شامل ہیں۔
جن کا آلودگی میں حصہ 59 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں سے نکلنے والا دھواں 39 فیصد ہے، جب کہ پاور پلانٹس سمیت مختلف مقامات پر جلنے والے تیل کا کردار 23.3 فیصد ہے۔ آلودگی گاڑیوں میں جلنے والے پٹرول اور ڈیزل کے دھویں سے نکلنے والی گیس اور ذرات (پی ایم 2.5) کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ لاہور میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔
فضائی آلودگی کے نتیجے میں کچھ ذرات خون میں شامل ہوکر دماغ کے ساتھ اعصاب پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر اس کی مقدار بہت بڑھ جائے تو یہ آپ کے بون میرو پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔گاڑیوں اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے تیل میں سلفر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اگر ہماری فیکٹریاں اور آئل ریفائنریز زیرو سلفر فیول استعمال کرنا شروع کردیں تو امیشن کنٹرول ڈیوائس (آلودگی کے اخراج کو کنٹرول کرنے والے آلات) کے ذریعے ہم فضا میں موجود ان گیسوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت تعاون نہیں کرتی۔
آئل ریفائنریز کے لیے لو سلفر یا زیرو سلفر فیول بنانے کے لیے ہمیں اپنا سارا نظام تبدیل کرنا ہوگا اور نئی مشینری لانی ہوگی۔حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے لیکن مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہ سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرتی ہیں تو یہ لاہور، کراچی سمیت ملک دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے رہائشیوں کے قتلِ عام کے مترادف ہوگا۔
حکومت اس انسانی المیے سے متعلق صرف چند بناوٹی اور سطحی اقدامات لینے کا اعلان کرکے ہی کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔ ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔
امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمے دار نہیں ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے سندھ اور بلوچستان متاثر ہوئے، ہم سب کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ لاس اینڈ ڈی میج فنڈ کو ترقیاتی فنڈز اور بڑے مالیاتی اداروں کے قرضوں سے الگ ہونا چاہیے اور یہ سرمایہ میرٹ پر اور اضافی ہونا چاہیے۔
پاکستان کاربن کا کم اخراج کرنے والا ملک ہے لیکن اس کے باوجود یہ دیگر ممالک کی پیدا کردہ آلودگی کے نقصانات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ دراصل فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے جب کہ آلودگی کے تمام بڑے عوامل آب و ہوا پر اثرانداز ہوتے ہیں، ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک میں سے ایک ملک کے طور پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔
ان خطرناک نتائج کے باعث ملک میں درجہ حرارت میں شدت، خشک سالی اور سیلاب جیسے متواتر منفی موسمی حالات درپیش ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیس ایمیشن جو کرہِ ارض پر ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہے۔
اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی کی وجہ سے انسان کی عمر 3 سال اور لاہور میں 7 سال کم ہو جاتی ہے۔
اسموگ ماحولیاتی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے۔ ٹھہرئی ہوئی ہوا میں موجود گیسیں مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، میتھین، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن وغیرہ کے ذرات مل کر اسموگ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اسموگ فضائی آلودگی کی وہ قسم ہے جو انسانوں، جانوروں اور پودوں کے علاوہ پورے ماحول کو آلودہ کر دیتی ہے۔ اسموگ بننے کی وجوہات میں ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کے علاوہ فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا بھی شامل ہے۔
کراچی میں بھی فضائی آلودگی کے اثرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں کراچی اور لاہور کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے اور دوسرے نمبر پر ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کے اثرات انسانی صحت، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام پر ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی میں مضر صحت گیس اور کیمیائی مادوں کے ننھے منے ذرات شامل ہیں جو صرف خورد بین سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انھی میں ایک قسم کے ذرات بھی شامل ہیں جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) کہا جاتا ہے۔
پی ایم 2.5 کے ذرات بالخصوص صحت کے لیے بہت تباہ کن ہوتے ہیں، جو عام طور پر ٹریفک کے دھوئیں میں پائے جاتے ہیں اور دیگر آلودگیوں میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28 ہزار افراد کی ہلاکت ہوتی ہے، اگر ہم 2023 کا ڈیٹا نکالیں تو اموات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوگی کیوں کہ ہم نے دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کام نہیں چھوڑا، ہم نے اپنی حرکتوں سے اوزون لیول کو کم کردیا ہے اور ہم مسلسل درخت کاٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی پلاسٹک کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔
کراچی شہر کی غیر منظم آبادکاری اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے علاوہ ٹرانسپورٹ سے بڑی مقدار میں پیدا ہونے والی آلودگی کے باعث شہر میں ہوا کا معیار انتہائی خراب ہوچکا ہے، جس کے باعث فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ فضا میں شامل زہریلی گیس اور ذرات ناک، منہ اور کان کے ذریعے خون کی روانی میں شامل ہوکر انسان کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
جن میں سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، پھیپھڑوں کے امراض، فالج، امراض قلب اور کینسر وغیرہ سرفہرست ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی بہت سی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 سال سے کم عمر کے اڑھائی لاکھ بچے آلودہ پانی کے باعث لڑکپن سے پہلے موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔
آلودہ پانی سے سانس کی بیماریاں، آنتوں کی سوزش،اسہال، جلدی امراض، غدود کا بڑھنا، ٹی بی،ہیپاٹائٹس اے جیسے مہلک امراض بڑھتے جا رہے ہیں، جس کے علاج معالجے، ادویات کی بر آمد اور افرادی قوت کے متاثر ہونے کے باعث پاکستان کی معیشت کو ہر سال 1 ارب 30 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہر پانچ میں سے چار امراض پانی سے لگنے والی بیماریوں سے پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے اسہال بچوں میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہے۔
پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کا پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اداروں کا کمزور انتظام، لیبارٹریز میں سازوسامان کی کمی اور اس حوالے سے کسی قانون کی عدم موجودگی سے بھی معاملہ بگڑ چکا ہے۔ سب سے بڑھ کر لوگوں کا اس مسئلے کی سنگینی سے لا علم رہنا زیادہ تشویش ناک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 6کروڑ 30 لاکھ آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پانی کی کمی کو پورا کرنا آسان کام نہیں شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گندی، آلودہ ہوا غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
اس کے مہلک اثرات خاص طور پر خواتین، بچے اور بوڑھے شہریوں کو سب سے متاثر کرتے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ فضائی آلودگی کا شکار ہر 10 میں سے ایک شخص انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے۔
انڈسٹری پانی کی آلودگی کا بنیادی سبب ہے۔ بدقسمتی سے، ہزاروں کمپنیاں اب بھی نہیں جانتیں کہ اس وسائل کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، اور وہ اپنے صنعتی عمل سے بڑی مقدار میں آلودگی پیدا کرنے والی مصنوعات کو جاری کرتی ہیں۔
دریا اور نہریں ان خراب طریقوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ ایسا نہیں لگتا ہے، گلوبل وارمنگ پانی کی آلودگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔ جب ماحولیاتی نظام کا درجہ حرارت معمول سے زیادہ ہوتا ہے تو، پانی کا ذریعہ آکسیجن کے مواد کو کم کرتا ہے، جس سے پانی کی ساخت میں تبدیلی آتی ہے۔
ہمارے وقت کے زرعی عمل کی اکثریت پودے لگانے اور خوراک کی پیداوار کے لیے کھاد اور کیمیکل استعمال کرتی ہے۔ ٹھیک ہے، ان مصنوعات کو زیر زمین چینلز کے ذریعے فلٹر کیا جاتا ہے اور، زیادہ تر معاملات میں، یہ چینلز بالآخر ہمارے واٹر سپلائی نیٹ ورک میں استعمال کے لیے داخل ہوں گے۔ اس پانی کو قابل علاج نہیں کیا جاتا اور اسے استعمال کے لیے موزوں چینل پر واپس کر دیا جاتا ہے۔
ضرورت سے زیادہ لاگنگ دریاؤں، جھیلوں اور پانی کے دیگر ذرایع کو خشک کر سکتی ہے۔ مزید برآں، جنگلات کی کٹائی میں دریا کے کناروں سے درختوں کی جڑوں کو ہٹانا شامل نہیں ہے، جس کی وجہ سے تلچھٹ اور بیکٹیریا زمین کے نیچے نمودار ہو سکتے ہیں اور اس طرح اس قیمتی وسائل کو آلودہ کر سکتے ہیں۔کراچی میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی ذمے داری ٹرانسپورٹ پر عائد ہوتی ہے جس میں ٹرک سے لے کر موٹرسائیکل تک سب شامل ہیں۔
جن کا آلودگی میں حصہ 59 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں سے نکلنے والا دھواں 39 فیصد ہے، جب کہ پاور پلانٹس سمیت مختلف مقامات پر جلنے والے تیل کا کردار 23.3 فیصد ہے۔ آلودگی گاڑیوں میں جلنے والے پٹرول اور ڈیزل کے دھویں سے نکلنے والی گیس اور ذرات (پی ایم 2.5) کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ لاہور میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔
فضائی آلودگی کے نتیجے میں کچھ ذرات خون میں شامل ہوکر دماغ کے ساتھ اعصاب پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر اس کی مقدار بہت بڑھ جائے تو یہ آپ کے بون میرو پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔گاڑیوں اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے تیل میں سلفر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اگر ہماری فیکٹریاں اور آئل ریفائنریز زیرو سلفر فیول استعمال کرنا شروع کردیں تو امیشن کنٹرول ڈیوائس (آلودگی کے اخراج کو کنٹرول کرنے والے آلات) کے ذریعے ہم فضا میں موجود ان گیسوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت تعاون نہیں کرتی۔
آئل ریفائنریز کے لیے لو سلفر یا زیرو سلفر فیول بنانے کے لیے ہمیں اپنا سارا نظام تبدیل کرنا ہوگا اور نئی مشینری لانی ہوگی۔حکومت کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہے لیکن مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں یہ سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرتی ہیں تو یہ لاہور، کراچی سمیت ملک دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے رہائشیوں کے قتلِ عام کے مترادف ہوگا۔
حکومت اس انسانی المیے سے متعلق صرف چند بناوٹی اور سطحی اقدامات لینے کا اعلان کرکے ہی کافی مطمئن نظر آرہی ہے۔ ہمیں بڑے اور سنجیدہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔