اشومیدھ یگیہ
مہایگیہ بڑی قربانی اوراشومیدھ یگیہ عظیم قربانی ہوتی ہے جس میں پہلے سے پالا ہوا ایک خاص گھوڑا قربان کیاجاتاہے
یہ حکومتیں ان کے ادارے اورہرکارے بڑے بے مروت، بے وفا اور بیگانہ دل ہوتے ہیں، یہ طوطے سے زیادہ طوطا چشم ، کتے سے زیادہ ''خم دم'' اور بھینس سے زیادہ بدذوق ہوتے ہیں،کالے ہوکرسفید دودھ دیتے ہیں اورسفید کالے لباس پہنتے ہیں۔
اس چرسی کاقصہ تو سنا ہوگا جو اندھیرے میں کباب کھارہا تھا، کباب کا ایک ٹکڑا چارپائی کے نیچے گرا،اس نے ہاتھ سے ٹٹول کر اٹھانا چاہا توکباب کی جگہ کسی کتے بلی کا پسماندہ ہاتھ لگا، منہ میں ڈالا تو چباتے ہوئے بولا، کم بخت تم نے تو گرتے ہی ذائقہ بدل ڈالا۔
ایسا ہی کچھ اقتدار کے ایوانوں میں بھی ہوتا ہے، اگلے زمانوں میں تو باقاعدہ حریفوں کا سرقلم کرتے تھے، باپ بیٹوں کے ہاتھوں بیٹے بھائیوں کے ہاتھوں مرنا پسند کرتے تھے ۔ آج کل تھوڑی سی نرمی کرتے ہیں ، سر''قلم'' کرنے کے بجائے ''بال پن'' کرکے رگڑتے ہیں ، خیر یہ سب کو پتہ ہے لیکن یہ ہرگز اچھا نہیں کہ ''محسن'' بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہم تو ان کو محسن سمجھتے ہیں ، جناب ڈاکٹر عبدالقدیرخان جتنا نہ سہی لیکن ایٹم اورآئٹم میں اتنا زیادہ فرق بھی نہیں ''آئٹم'' کالفظ پڑوسی ملک کی ایجاد ہے مثلاً استاد نے طالب علم سے پوچھا ، تاج محل کیا ہے ، تو شاگرد نے کہا یہ ایک یادگار ہے جسے شاہ جہان نے اپنی ''آئٹم'' کے لیے تعمیر کیا تھا۔
حالاں کہ شاہ جہاں کی وہ آئٹم ممتازمحل جب پاسڈ اوے (passed away) ہوئی تو چودہ بچے جن چکی تھی ،مطلب یہ کہ ''آئٹم ''کے لیے عمر کی بھی کوئی حد نہیں ۔سب سے پہلا اعتراض تو ہمیں یہ ہے کہ اگر اس مردشریف نے قبرستان پر قبضہ کرکے دکانیں اورشادی ہال بنایا تو اس میں براکیا ہے ، ''مردوں '' کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے ۔برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے۔
جب کہ جناب مانیکا نے شادی ہال بنا کر ان کے انٹرٹینمنٹ کابندوبست کیا لیکن سرکاری ادارے اورہرکارے اس بیچارے کے پیچھے خواہ مخواہ پڑ گئے ہیں اوران کے اس احسان عظیم کو فراموش کردیا جو انھوں نے پاکستان پر کیاتھا ، احسان فراموش کہیں کے۔اب دیکھئیے کل کے مرد اول اورخاتون اول کے ساتھ کیاکیا کررہے ہیں۔
چلیے اسے تو چھوڑ دیتے ہیں کہ سیاست کے ایوانوں میں کبھی ماں کی باری کبھی باپ کی باری چلتی رہتی ہے اگر آج بجتی ہے شہنائی تو کل ماتم بھی ہوتا ہے ۔رہٹ کے ڈول جب بھرے ہوتے ہیں توان کامنہ اوپر کی طرف ہوتاہے اورجب خالی ہوجاتے ہیں تو منہ نیچے کو ہوجاتاہے ۔ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے ؎
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کا حسن وشباب
ہنس کے بولے وہ تو سب شان خدا تھی میں نہ تھا
لیکن ہمیں یہ بالکل بھی اچھا نہیں لگا کہ سابق خاتون اول کے سابق ''مرد اول'' اوراولاد اول کے ساتھ یہ سلوک ہو آخرکیوں، کیاہوا اگر ان سے چھوٹے موٹے کچھ ''گھپلے'' صادرہوگئے کہ یہ ملک ہی گھپلوں کاہے، گھپلے ہی اس ملک کی واحد پیداوار اورصنعت و حرفت بلکہ سیاست وتجارت ہیں ، ماحول ہی ایسا بناہے کہ جو گھپلے نہیں کرتے ان کو نکمانکھٹو سمجھا جاتاہے چنانچہ وہ بھی نہ چاہتے ہوئے گھپلے کرہی دیتے ہیں ۔
ول ڈیورانٹ نے ''تہذیب کی کہانی '' میں کہا ہے کہ کچھ پرانی تہذیبوں میں کسی عورت کاکنوارا پن اس کی ڈس کوالی فیکیشن سمجھی جاتی تھی اورکوئی اس سے شادی نہیں کرتا تھاکہ وہ اتنی گئی گزری ہے کہ کوئی اسے پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ لڑکی جوان ہوتے ہی شادی کی کوشش میں لگ جاتی ۔ہمارے ہاںبھی کچھ ایسی ہی صورت حال گھپلوں کے بارے میں ہے ۔
ایسے میں اگر جناب کسی سیاستدان اوران کی اولاد سے کچھ چھوٹے موٹے گھپلے صادرہوگئے ہوں تو اس میںبرا کیا ہے۔اس عظیم خاندان کی اس عظیم قربانی کوبھی دھیان میں رکھناچاہیے کہ جس کی مثال نہ تاریخ میں کہیں ملتی ہے نہ جغرافیے میں بلکہ جنرل نالج، معاشرتی علوم یاشہریت میں بھی موجود نہیں۔
اتنی بڑی قربانی جو اس خاندان نے قوم کے لیے ملک کے لیے اوروطن کے لیے دی ہوئی ہے یوں فراموش کرنا درجہ اول کی طوطا چشمی ہے ، اتنی بڑی قربانی آب زر۔بلکہ آب زن اورآب زمین سے لکھنے کی قابل ہے ۔
دراصل محترمہ معظمہ صوفیہ شیخہ مرشدنی نے جب محسوس کیاکہ اس کے اس مرید خاص کو نکاحوں اور طلاقوں کی لت پڑچکی ہے ، ان دنوں مرید خاص نے ایک خاتون کو نومہینے میں بھگتا کر دوبارہ کہیں پرنگاہیں اورکہیں پر نشانہ کا شغل شروع کیا تھا ، محترمہ نے زائچے کھینچے، کنڈلیاں ملائیں چلے اورمراقبے کیے تو معلوم ہوا کہ نوسال اورنومہینے کے بعد کہیں یہ نو ہفتوں نو دنوں نو گھنٹوں اورنومنٹوں پر نہ آجائے اوراس درد دل رکھنے والی خاتون نے اپنے خاندان سے مشورہ کرنے کے بعد یہ بڑا فیصلہ کیا کہ بہت بڑی قربانی کے بغیر اس کی یہ لت چھوٹنے والی نہیں جب کہ اس نے اپنے جوتش سے یہ بھی معلوم کیا کہ اس کامستقبل بھی خاصا روشن ہے ، یہ اس ملک کو ریاست مدینہ اور لوگوں کو صادق اورامین بھی بناسکتاہے چنانچہ اشومیدھ یگیہ کا فیصلہ جو پڑوسی ملک میں سب سے بڑی قربانی سمجھی جاتی ہے ۔''یگیہ'' عام قربانی ہوتی ہے، مہایگیہ بڑی قربانی اوراشومیدھ یگیہ عظیم قربانی ہوتی ہے جس میں پہلے سے پالا ہوا ایک خاص گھوڑا قربان کیاجاتاہے لیکن اس اشومیدھ یگیہ میں گھوڑی قربان کی گئی۔
محترمہ مرشدنی نے اسے اپنے سایہ عاطفت میں لے کر نکاحوں اورطلاقوں کی بری لت یوں چھڑوائی ۔
ازمہرتابہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو ہرطرف سے مقابل ہے آئینہ
اس چرسی کاقصہ تو سنا ہوگا جو اندھیرے میں کباب کھارہا تھا، کباب کا ایک ٹکڑا چارپائی کے نیچے گرا،اس نے ہاتھ سے ٹٹول کر اٹھانا چاہا توکباب کی جگہ کسی کتے بلی کا پسماندہ ہاتھ لگا، منہ میں ڈالا تو چباتے ہوئے بولا، کم بخت تم نے تو گرتے ہی ذائقہ بدل ڈالا۔
ایسا ہی کچھ اقتدار کے ایوانوں میں بھی ہوتا ہے، اگلے زمانوں میں تو باقاعدہ حریفوں کا سرقلم کرتے تھے، باپ بیٹوں کے ہاتھوں بیٹے بھائیوں کے ہاتھوں مرنا پسند کرتے تھے ۔ آج کل تھوڑی سی نرمی کرتے ہیں ، سر''قلم'' کرنے کے بجائے ''بال پن'' کرکے رگڑتے ہیں ، خیر یہ سب کو پتہ ہے لیکن یہ ہرگز اچھا نہیں کہ ''محسن'' بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں ۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہم تو ان کو محسن سمجھتے ہیں ، جناب ڈاکٹر عبدالقدیرخان جتنا نہ سہی لیکن ایٹم اورآئٹم میں اتنا زیادہ فرق بھی نہیں ''آئٹم'' کالفظ پڑوسی ملک کی ایجاد ہے مثلاً استاد نے طالب علم سے پوچھا ، تاج محل کیا ہے ، تو شاگرد نے کہا یہ ایک یادگار ہے جسے شاہ جہان نے اپنی ''آئٹم'' کے لیے تعمیر کیا تھا۔
حالاں کہ شاہ جہاں کی وہ آئٹم ممتازمحل جب پاسڈ اوے (passed away) ہوئی تو چودہ بچے جن چکی تھی ،مطلب یہ کہ ''آئٹم ''کے لیے عمر کی بھی کوئی حد نہیں ۔سب سے پہلا اعتراض تو ہمیں یہ ہے کہ اگر اس مردشریف نے قبرستان پر قبضہ کرکے دکانیں اورشادی ہال بنایا تو اس میں براکیا ہے ، ''مردوں '' کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے ۔برمزار ماغریباں نے چراغے نے گلے۔
جب کہ جناب مانیکا نے شادی ہال بنا کر ان کے انٹرٹینمنٹ کابندوبست کیا لیکن سرکاری ادارے اورہرکارے اس بیچارے کے پیچھے خواہ مخواہ پڑ گئے ہیں اوران کے اس احسان عظیم کو فراموش کردیا جو انھوں نے پاکستان پر کیاتھا ، احسان فراموش کہیں کے۔اب دیکھئیے کل کے مرد اول اورخاتون اول کے ساتھ کیاکیا کررہے ہیں۔
چلیے اسے تو چھوڑ دیتے ہیں کہ سیاست کے ایوانوں میں کبھی ماں کی باری کبھی باپ کی باری چلتی رہتی ہے اگر آج بجتی ہے شہنائی تو کل ماتم بھی ہوتا ہے ۔رہٹ کے ڈول جب بھرے ہوتے ہیں توان کامنہ اوپر کی طرف ہوتاہے اورجب خالی ہوجاتے ہیں تو منہ نیچے کو ہوجاتاہے ۔ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے ؎
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کا حسن وشباب
ہنس کے بولے وہ تو سب شان خدا تھی میں نہ تھا
لیکن ہمیں یہ بالکل بھی اچھا نہیں لگا کہ سابق خاتون اول کے سابق ''مرد اول'' اوراولاد اول کے ساتھ یہ سلوک ہو آخرکیوں، کیاہوا اگر ان سے چھوٹے موٹے کچھ ''گھپلے'' صادرہوگئے کہ یہ ملک ہی گھپلوں کاہے، گھپلے ہی اس ملک کی واحد پیداوار اورصنعت و حرفت بلکہ سیاست وتجارت ہیں ، ماحول ہی ایسا بناہے کہ جو گھپلے نہیں کرتے ان کو نکمانکھٹو سمجھا جاتاہے چنانچہ وہ بھی نہ چاہتے ہوئے گھپلے کرہی دیتے ہیں ۔
ول ڈیورانٹ نے ''تہذیب کی کہانی '' میں کہا ہے کہ کچھ پرانی تہذیبوں میں کسی عورت کاکنوارا پن اس کی ڈس کوالی فیکیشن سمجھی جاتی تھی اورکوئی اس سے شادی نہیں کرتا تھاکہ وہ اتنی گئی گزری ہے کہ کوئی اسے پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ لڑکی جوان ہوتے ہی شادی کی کوشش میں لگ جاتی ۔ہمارے ہاںبھی کچھ ایسی ہی صورت حال گھپلوں کے بارے میں ہے ۔
ایسے میں اگر جناب کسی سیاستدان اوران کی اولاد سے کچھ چھوٹے موٹے گھپلے صادرہوگئے ہوں تو اس میںبرا کیا ہے۔اس عظیم خاندان کی اس عظیم قربانی کوبھی دھیان میں رکھناچاہیے کہ جس کی مثال نہ تاریخ میں کہیں ملتی ہے نہ جغرافیے میں بلکہ جنرل نالج، معاشرتی علوم یاشہریت میں بھی موجود نہیں۔
اتنی بڑی قربانی جو اس خاندان نے قوم کے لیے ملک کے لیے اوروطن کے لیے دی ہوئی ہے یوں فراموش کرنا درجہ اول کی طوطا چشمی ہے ، اتنی بڑی قربانی آب زر۔بلکہ آب زن اورآب زمین سے لکھنے کی قابل ہے ۔
دراصل محترمہ معظمہ صوفیہ شیخہ مرشدنی نے جب محسوس کیاکہ اس کے اس مرید خاص کو نکاحوں اور طلاقوں کی لت پڑچکی ہے ، ان دنوں مرید خاص نے ایک خاتون کو نومہینے میں بھگتا کر دوبارہ کہیں پرنگاہیں اورکہیں پر نشانہ کا شغل شروع کیا تھا ، محترمہ نے زائچے کھینچے، کنڈلیاں ملائیں چلے اورمراقبے کیے تو معلوم ہوا کہ نوسال اورنومہینے کے بعد کہیں یہ نو ہفتوں نو دنوں نو گھنٹوں اورنومنٹوں پر نہ آجائے اوراس درد دل رکھنے والی خاتون نے اپنے خاندان سے مشورہ کرنے کے بعد یہ بڑا فیصلہ کیا کہ بہت بڑی قربانی کے بغیر اس کی یہ لت چھوٹنے والی نہیں جب کہ اس نے اپنے جوتش سے یہ بھی معلوم کیا کہ اس کامستقبل بھی خاصا روشن ہے ، یہ اس ملک کو ریاست مدینہ اور لوگوں کو صادق اورامین بھی بناسکتاہے چنانچہ اشومیدھ یگیہ کا فیصلہ جو پڑوسی ملک میں سب سے بڑی قربانی سمجھی جاتی ہے ۔''یگیہ'' عام قربانی ہوتی ہے، مہایگیہ بڑی قربانی اوراشومیدھ یگیہ عظیم قربانی ہوتی ہے جس میں پہلے سے پالا ہوا ایک خاص گھوڑا قربان کیاجاتاہے لیکن اس اشومیدھ یگیہ میں گھوڑی قربان کی گئی۔
محترمہ مرشدنی نے اسے اپنے سایہ عاطفت میں لے کر نکاحوں اورطلاقوں کی بری لت یوں چھڑوائی ۔
ازمہرتابہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو ہرطرف سے مقابل ہے آئینہ