ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کو توسیع دینے میں توانائی بحران حائل

جنوبی افریقہ، برازیل، موزمبیق، چلی اور میکسیکو نئی پاکستانی منڈیاں بن رہی ہیں، عمر قاسم


Business Reporter May 26, 2014
جنوبی افریقہ، برازیل، موزمبیق، چلی اور میکسیکو نئی پاکستانی منڈیاں بن رہی ہیں، عمر قاسم۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

پاکستان میں برانڈ سازی، ویلیوایڈیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دیتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پالیا جائے توویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کی تعداد میں فوری طور اضافہ ممکن ہے۔

یہ بات ''رنگ محل'' کے نام سے ٹیکسٹائل مصنوعات کے پہلے برانڈڈآئوٹ لیٹ کے ڈائریکٹرمحمد عمرقاسم نے ''ایکسپریس'' سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ، برازیل، موزمبیق ،چلی اورمیکسیکوپاکستانی کپڑے کی صنعت کیلیے نئی مارکیٹ کے طور پر ابھررہے ہیں، اگر ان غیرروایتی مارکیٹوں پر توجہ مرکوز کی جائے تو مستقبل قریب میں یہاں پاکستانی کپڑے، برانڈڈگارمنٹس کی وسیع پیمانے پر کھپت ہوسکتی ہے تاہم ان مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات کے فروغ کے لیے وہاں قائم پاکستانی سفارتخانوں کے کمرشل اتاشیوں کو قومی جذبے کے تحت اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان میں بھی اب برانڈز کی اہمیت سے آگہی بڑھتی جارہی ہے لیکن اس رحجان کو بڑھانے کیلیے برانڈز کے مالکان کو اپنی مصنوعات معیارکو مستحکم رکھنا ہوگا۔ کراچی میں رنگ محل کا پہلا آئوٹ لیٹ قائم ہونے کے بعد حیدرآباد، لاہور، اسلام آبادکے علاوہ دبئی میں بھی آئوٹ لیٹس قائم کرنے کی حکمت عملی وضع کرلی گئی ہے جہاں جدید تخلیق پر مبنی خوبصورت ڈیزائنز کے حامل پاکستانی کپڑے اور تیار ملبوسات متعارف کرائی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی کاٹن کا شمار دنیا کی بہترین معیار کی کاٹن میں ہوتا ہے جس کی ویلیوایڈیشن کیلیے جرمنی اور جاپانی کمپنیوں کے ساتھ ویلیوایڈیشن ٹیکنالوجی کے جوائنٹ وینچرز کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح شعبہ ٹیکسٹائل کے لیے اسٹیٹ آف دی آرٹ لیبارٹری کے قیام کے علاوہ تحقیق وتخلیقی منصوبے بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے، اگر ٹیکسٹائل سیکٹر میں نجی وسرکاری شراکت داری کے ساتھ ویلیوایڈیشن پر توجہ دی جائے تو پاکستانی کپڑا اور تیار ملبوسات دنیا بھر میں اجارہ داری قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ رنگ محل نے مقامی سطح پر آن لائن ٹریڈنگ وڈلیوری کے ساتھ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی ابتدائی طور پر آن لائن ٹریڈنگ کا آغاز کر دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں