پاکستان سمیت دنیا بھر میں غلامی کے خلاف دن آج منایا جا رہا ہے
عالمی دن منانے کا مقصد جبری مشقت،انسانی اسمگلنگ، جبری شادیوں اور جبری مزدوری جیسے اقدامات کے خلاف شعور پیدا کرنا ہے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج 2 دسمبر کو غلامی کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد جبری مشقت،انسانی اسمگلنگ، جبری شادیوں اور قرض چکانے کے عوض جبری مزدوری جیسے اقدامات کے خلاف شعور پیدا کرنا ہے۔
غلامی کا لفظ سنتے ہی ذہن میں کسی پرانے دور کا تصور ابھر آتا ہے، جب انسانوں کو غلام بنا کر قید کیا جاتا اور پھر ان سے جبری مشقت لی جاتی تھی ، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج اکیسویں صدی میں بھی مختلف شکلوں میں انسانوں کو غلام بنایا جارہا ہے۔
عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، قرض چکانے کے لیے خدمت، جبری شادی اورکاروباری و جنسی استحصال کو جدید غلامی قرار دیتے ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق 2021ء میں دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد کا تخمینہ 5 کروڑ لگایا تھا جو غلامی میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔
سرچ فارجسٹس کے سربراہ اور انسانی حقوق کے کارکن افتخار مبارک کا کہنا ہے پاکستان کا آئین غلامی کی کسی بھی شکل کی اجازت نہیں دیتا۔ ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ 2018ء کے تحت کسی بھی شخص سے جبری مشقت ، جنسی ،جسمانی استحصال کرنے والوں کو 10 سال تک سزا اور بھاری جرمانہ ہوسکتا ہے۔
پنجاب میں فیکٹریوں اورکارخانوں میں تو جبری مشقت لینے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں لیکن اینٹوں کے بھٹوں اور ڈومیسٹک ورکرز خاص طور پر بچوں کو غلام بنا کران سےمشقت لینے والوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی جاتی۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود غلاموں کی آبادی کا 58 فیصد حصہ دنیا کے 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے اور غیر انسانی حالات کا شکار ہے۔ بھارت میں ایک کروڑ سے زائد، چین میں 33 لاکھ، پاکستان میں 21 لاکھ، بنگلا دیش میں 15 لاکھ جب کہ ازبکستان میں 12 لاکھ افراد غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔