اردو شاعری میں غزل کی اہمیت
اردو شاعری اور خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں
غزل کو ہمیشہ ہی سے اردو شاعری میں بلند مقام حاصل رہا ہے، ویسے تو غزل میں حسن و عشق کی داستانیں رقم کی جاتی رہی ہیں لیکن غزل کبھی بھی عشقیہ مضامین تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں زندگی کے تمام مسائل کو بہ خوبی بیان کرنے کی قدرت ہے۔
زمانے کی جہاں روش بدلی، وہاں غزل کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ سیاسی و سماجی اور معاشرتی حالات، اندرونی و خارجی واقعات اور مختلف نظریات و خیالات کو غزل میں سمویا جانے لگا۔ غزل کے حسن اس کی ہیئت میں ذرا سا بھی فرق نہ آیا بلکہ اس کی شان بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح غزل ایک ہمہ گیر صنف کی شکل اختیار کرگئی۔
اردو میں غزل، فارسی غزل کے زیر اثر آئی اور اس صنف میں شعرا نے طبع آزمائی کی اور جلد ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یوں تو اردو کا پہلا شاعر امیر خسرو کوکہا جاتا ہے لیکن غزل کی ابتدا شمالی ہند کے بجائے دکن سے ہوئی اور پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ولی دکنی کو اردو شاعری کا اولین معمار تصورکیا جاتا ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد کے مطابق ولیؔ اردو شاعری کا باوا آدم ہے اور یہ شک گزرتا ہے کہ اردو میں غزل کی ابتدا انھی سے ہوئی۔ ولیؔ کو یقینا اس بات میں اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو میں باقاعدہ غزل کی بنیاد ڈالی اور شمالی ہندوستان میں باقاعدہ اردو شاعری کی تحریک پیدا کی۔
اردو غزل کا جو مخصوص آہنگ ہے، اس کا تعین بھی ولیؔ نے کیا، غزل کے مزاج کی ترتیب میں انھیں بلاشبہ اول مقام حاصل ہے۔ ولیؔ دکنی کی ہی طرح ملا وجہیؔ کو بھی دکنی دور میں بے حد اہمیت اور مقبولیت حاصل رہی ہے۔ دکنی دور کا یہ شاعر محمد قلی قطب شاہ کا ہم عصر تھا۔ ملا وجہیؔ کی نمایاں خصوصیت اس کا سوز و گداز ہے۔ مثال کے طور پر یہی اشعار ۔
طاقت نہیں دوری کی اب تو بیگی آ مل رے پیا
تجھ بن منجے جیونا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کہتی ہوں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تجھ نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیسا سخت ہے دل رے پیا
ہر دم تو یاد آٹا منجے اب عیش نہیں بھاتا منجے
برہا یوں ستانا منجے شج باج تل تل رے پیا
جب ہم محمد قلی قطب شاہ کا ذکر کرتے ہیں، تب ذہن کے دریچوں میں بہت ہی اہم کتاب ''محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات'' جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر شکیل الرحمن ہیں جن کا جمالیات کے حوالے سے اردو ادب میں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ کا تصور کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ قلی قطب شاہ نے عورت کو کس انداز میں دیکھا ہے اور اس کے کون کون سے روپ اسے بھائے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے۔ ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ اس کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ وآہنگ اور خوشبوؤں کی جو دنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔
شاعر کی حسن پسندی نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے۔ عورت کا معبود ایک نغمہ ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی خاصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورتوں سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ مٹھاس اور شیرینی لیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ۔
چمن پھول سب باس خوشبو پائے
سگھڑ سندری جب اپس کیس کھولے
عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رومانی، جمالیاتی ذہن کو بڑی شدت سے نمایاں کرتے ہیں۔
پیا کے نین میں بہوت چھند ہے
او دو زلف میں جیو کا آنند ہے
سجن یوں مٹھانی سوں بولے بچن
کہ اس خوش بچن میں لذتِ قند ہے
قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورت کا حسن و جمال، ناز و انداز پنہاں ہے۔ انھوں نے عورت کو اسی انداز میں دیکھا،اس کے حسن و شباب کے گیت گائے ہیں۔مرزا محمد رفیع سوداؔ کی غزلیات عشقی جذبات سے مزین ہیں۔
ڈاکٹر شمس الدین صدیقی سوداؔ کی غزل گوئی پر بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں '' سودا کی غزلیات کا ایک حصہ جہاں خارجیت، معنی آفرینی، خیال بندی، تمثیل نگاری، سنگلاخ زمینوں میں سخن تراشی، قصیدے جیسے انداز اور بیان پر مشتمل ہے، وہاں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو تجربات اور پُرخلوص جذبات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
اردو شاعری اور خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں، جدائی کا کرب، محبوب کو کھو دینے کا غم، زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی شعرا کی شاعری میں یہ کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے، جس بھی شاعر کا کلام اٹھالیں غمِ جاناں سے پُر نظر آتا ہے۔ زندگی کے مسائل اپنی جگہ اور محبت کی تلخی اپنی جگہ۔۔۔۔
میر تقی میرؔ غزل کے میدان میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ ان کا مزاج غزل کے مزاج سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ غزل سے خصوصی رغبت کی وجہ سے انھیں دوسری اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
دوسرے شعرا سے ان کا انداز مختلف ضرور ہے لیکن احساسات و جذبات ہرگز مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے اندر ایک نازک و حساس دل رکھتے ہیں۔ جب کبھی کوئی انھیں تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بھی کرب سے چیخ اٹھتے ہیں اور یہ غم و تکلیف ان کی شاعری میں بے حد نفاست کے ساتھ جگہ بنا لیتی ہے۔ ویران دل کا حال اس طرح بیان کر رہے ہیں ۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کو محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں میں شراب کا نشہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کی نشیلی آنکھوں کے دیوانے ہیں اور اسی دیوانگی نے ہی ان سے یہ شعر کہلوایا ہے ۔
میر اُن کی نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
انھوں نے اپنے محبوب کی جدائی کے قصے کو اس طرح شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے
میرؔ کے پاس اتنا دل گردہ اور حوصلہ نہیں ہے کہ جب محبوب کا نام آئے تو وہ بے تعلق اور بے حسی کا مظاہرہ کریں۔ انھیں یہ کسی قیمت منظور نہیں ہے کہ انھوں نے اسے دل و جاں میں بسایا ہے۔ یقینی بات ہے اس کی یاد انھیں بے چین و بے کل کر دیتی ہے کہ محبت سچی ہے ۔
میرؔ جی رازِ عشق ہوگا فاش
چشم ہر لحظہ مت پُر آب کرو
میرؔ اپنے دوست کو، اپنے چاہنے والے کو یاد کر کے رونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا محبوب حسن وجمال میں یکتا ہے۔ اس کی خوبصورتی چاند جیسی ہے، مہتاب جیسا روشن چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے لیکن حسین تصور سے زیادہ تلخ حقیقت سے بھی وہ اسی لیے گریہ و زاری پر مجبور ہوئے ہیں لیکن بہت خاموشی کے ساتھ کہ محبوب کی رسوائی نہ ہو۔ ایک سچے عاشق کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار جو میرؔ کی حالتِ زار کو عیاں کر رہے ہیں۔
یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرہ مہتابی
آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں
ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں مگر ہاں
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
جب بات غزل کی ہوگی تو خواجہ میر دردؔ کا نام لبوں پر ضرور آئے گا کہ میر دردؔ غزل کی شان اور آن بان ہیں۔ خواجہ میر دردؔ کا خاص حوالہ تصوف ہے۔ وہ ایک صاحب عرفان بزرگ تھے لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں دنیاوی و مادی عشق کے تجربات بھی شامل ہیں۔ شاید اسی عشق کی گرمی و تپش کی وجہ سے ہی امیرؔ مینائی کو چھپی ہوئی بجلیوں کا گمان ہوتا ہے۔
خواجہ میر دردؔ کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا احساس بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہی جذبات اور احساسات موجود ہیں جو عام انسانی رشتوں کے ناتے وجود میں آئے ہیں۔ چند اشعار نمونے کے طور پر۔
قتلِ عشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر مرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
...٭...
شوخ تو اور بھی ہیں دنیا میں
پر تری شوخی کچھ عجیب ہے واہ
زمانے کی جہاں روش بدلی، وہاں غزل کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔ سیاسی و سماجی اور معاشرتی حالات، اندرونی و خارجی واقعات اور مختلف نظریات و خیالات کو غزل میں سمویا جانے لگا۔ غزل کے حسن اس کی ہیئت میں ذرا سا بھی فرق نہ آیا بلکہ اس کی شان بڑھتی چلی گئی۔ اس طرح غزل ایک ہمہ گیر صنف کی شکل اختیار کرگئی۔
اردو میں غزل، فارسی غزل کے زیر اثر آئی اور اس صنف میں شعرا نے طبع آزمائی کی اور جلد ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یوں تو اردو کا پہلا شاعر امیر خسرو کوکہا جاتا ہے لیکن غزل کی ابتدا شمالی ہند کے بجائے دکن سے ہوئی اور پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ولی دکنی کو اردو شاعری کا اولین معمار تصورکیا جاتا ہے۔
مولانا محمد حسین آزاد کے مطابق ولیؔ اردو شاعری کا باوا آدم ہے اور یہ شک گزرتا ہے کہ اردو میں غزل کی ابتدا انھی سے ہوئی۔ ولیؔ کو یقینا اس بات میں اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو میں باقاعدہ غزل کی بنیاد ڈالی اور شمالی ہندوستان میں باقاعدہ اردو شاعری کی تحریک پیدا کی۔
اردو غزل کا جو مخصوص آہنگ ہے، اس کا تعین بھی ولیؔ نے کیا، غزل کے مزاج کی ترتیب میں انھیں بلاشبہ اول مقام حاصل ہے۔ ولیؔ دکنی کی ہی طرح ملا وجہیؔ کو بھی دکنی دور میں بے حد اہمیت اور مقبولیت حاصل رہی ہے۔ دکنی دور کا یہ شاعر محمد قلی قطب شاہ کا ہم عصر تھا۔ ملا وجہیؔ کی نمایاں خصوصیت اس کا سوز و گداز ہے۔ مثال کے طور پر یہی اشعار ۔
طاقت نہیں دوری کی اب تو بیگی آ مل رے پیا
تجھ بن منجے جیونا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا
کھانا برہ کہتی ہوں پانی انجھو پیتی ہوں میں
تجھ نے بچھڑ جیتی ہوں میں کیسا سخت ہے دل رے پیا
ہر دم تو یاد آٹا منجے اب عیش نہیں بھاتا منجے
برہا یوں ستانا منجے شج باج تل تل رے پیا
جب ہم محمد قلی قطب شاہ کا ذکر کرتے ہیں، تب ذہن کے دریچوں میں بہت ہی اہم کتاب ''محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات'' جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر شکیل الرحمن ہیں جن کا جمالیات کے حوالے سے اردو ادب میں ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محمد قلی قطب شاہ کا تصور کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ قلی قطب شاہ نے عورت کو کس انداز میں دیکھا ہے اور اس کے کون کون سے روپ اسے بھائے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ اس کا جمال محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی جمالیات کا مرکز ہے۔ ایک بڑے حسن پسند اور حسن پرست اور ایک حیرت انگیز رومانی ذہن کے اس شاعر نے عورت اور اس کے جمال کو جیسے اپنے وجود میں جذب کر لیا تھا۔ اس کے کلام میں رنگ و نور، نغمہ وآہنگ اور خوشبوؤں کی جو دنیا ملتی ہے وہ اسی جذبی کیفیت کی دین ہے۔
شاعر کی حسن پسندی نے ماحول کے تمام حسن کو سمیٹ لیا ہے۔ عورت کا معبود ایک نغمہ ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کی خاصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورتوں سے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ مٹھاس اور شیرینی لیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ۔
چمن پھول سب باس خوشبو پائے
سگھڑ سندری جب اپس کیس کھولے
عورت کے تعلق سے یہ اشعار شاعر کے گہرے رومانی، جمالیاتی ذہن کو بڑی شدت سے نمایاں کرتے ہیں۔
پیا کے نین میں بہوت چھند ہے
او دو زلف میں جیو کا آنند ہے
سجن یوں مٹھانی سوں بولے بچن
کہ اس خوش بچن میں لذتِ قند ہے
قلی قطب شاہ کی شاعری میں عورت کا حسن و جمال، ناز و انداز پنہاں ہے۔ انھوں نے عورت کو اسی انداز میں دیکھا،اس کے حسن و شباب کے گیت گائے ہیں۔مرزا محمد رفیع سوداؔ کی غزلیات عشقی جذبات سے مزین ہیں۔
ڈاکٹر شمس الدین صدیقی سوداؔ کی غزل گوئی پر بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں '' سودا کی غزلیات کا ایک حصہ جہاں خارجیت، معنی آفرینی، خیال بندی، تمثیل نگاری، سنگلاخ زمینوں میں سخن تراشی، قصیدے جیسے انداز اور بیان پر مشتمل ہے، وہاں ایک حصہ ایسا بھی ہے جو تجربات اور پُرخلوص جذبات کا آئینہ دار معلوم ہوتا ہے۔
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
اردو شاعری اور خصوصاً غزل میں محبوب سے محبت، اس کی جدائی، ہجر و وصال کی داستانیں جنم لیتی ہیں، جدائی کا کرب، محبوب کو کھو دینے کا غم، زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ تقریباً تمام ہی شعرا کی شاعری میں یہ کیفیت بدرجہ اتم موجود ہے، جس بھی شاعر کا کلام اٹھالیں غمِ جاناں سے پُر نظر آتا ہے۔ زندگی کے مسائل اپنی جگہ اور محبت کی تلخی اپنی جگہ۔۔۔۔
میر تقی میرؔ غزل کے میدان میں سب سے زیادہ کامیاب ہیں۔ ان کا مزاج غزل کے مزاج سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ غزل سے خصوصی رغبت کی وجہ سے انھیں دوسری اصنافِ سخن کے مقابلے میں غزل میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔
دوسرے شعرا سے ان کا انداز مختلف ضرور ہے لیکن احساسات و جذبات ہرگز مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے اندر ایک نازک و حساس دل رکھتے ہیں۔ جب کبھی کوئی انھیں تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ بھی کرب سے چیخ اٹھتے ہیں اور یہ غم و تکلیف ان کی شاعری میں بے حد نفاست کے ساتھ جگہ بنا لیتی ہے۔ ویران دل کا حال اس طرح بیان کر رہے ہیں ۔
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کو محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں میں شراب کا نشہ نظر آتا ہے۔ وہ اس کی نشیلی آنکھوں کے دیوانے ہیں اور اسی دیوانگی نے ہی ان سے یہ شعر کہلوایا ہے ۔
میر اُن کی نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
انھوں نے اپنے محبوب کی جدائی کے قصے کو اس طرح شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے
میرؔ کے پاس اتنا دل گردہ اور حوصلہ نہیں ہے کہ جب محبوب کا نام آئے تو وہ بے تعلق اور بے حسی کا مظاہرہ کریں۔ انھیں یہ کسی قیمت منظور نہیں ہے کہ انھوں نے اسے دل و جاں میں بسایا ہے۔ یقینی بات ہے اس کی یاد انھیں بے چین و بے کل کر دیتی ہے کہ محبت سچی ہے ۔
میرؔ جی رازِ عشق ہوگا فاش
چشم ہر لحظہ مت پُر آب کرو
میرؔ اپنے دوست کو، اپنے چاہنے والے کو یاد کر کے رونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا محبوب حسن وجمال میں یکتا ہے۔ اس کی خوبصورتی چاند جیسی ہے، مہتاب جیسا روشن چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے لیکن حسین تصور سے زیادہ تلخ حقیقت سے بھی وہ اسی لیے گریہ و زاری پر مجبور ہوئے ہیں لیکن بہت خاموشی کے ساتھ کہ محبوب کی رسوائی نہ ہو۔ ایک سچے عاشق کا حال کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار جو میرؔ کی حالتِ زار کو عیاں کر رہے ہیں۔
یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرہ مہتابی
آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں
ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں مگر ہاں
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
جب بات غزل کی ہوگی تو خواجہ میر دردؔ کا نام لبوں پر ضرور آئے گا کہ میر دردؔ غزل کی شان اور آن بان ہیں۔ خواجہ میر دردؔ کا خاص حوالہ تصوف ہے۔ وہ ایک صاحب عرفان بزرگ تھے لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں دنیاوی و مادی عشق کے تجربات بھی شامل ہیں۔ شاید اسی عشق کی گرمی و تپش کی وجہ سے ہی امیرؔ مینائی کو چھپی ہوئی بجلیوں کا گمان ہوتا ہے۔
خواجہ میر دردؔ کی شاعری کے مطالعے کے بعد اس بات کا احساس بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں وہی جذبات اور احساسات موجود ہیں جو عام انسانی رشتوں کے ناتے وجود میں آئے ہیں۔ چند اشعار نمونے کے طور پر۔
قتلِ عشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر مرے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
...٭...
شوخ تو اور بھی ہیں دنیا میں
پر تری شوخی کچھ عجیب ہے واہ