جنگ ماحولیاتی تنزلی کا باعث
فاسفورس سے جلد جھلس جاتی ہے اور اس کا دھواں آنکھوں اور نظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے
دنیا مستقل جنگ کی حالت میں رہی ہے۔ افغانستان، مشرق وسطیٰ سے لے کر یوکرین تنازعات نے ماحولیات کو شدید متاثر کیا ہے۔
اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی جنگ ماحولیات کے حوالے سے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف دھکیلی جارہی ہے؟
اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ خطرات ماحولیاتی آلودگی سے ہیں، جس کے نتیجے میں شدید گرمی، جنگلات میں لگنے والی آگ، سیلاب، زلزلے، طوفان اور غیر متوقع بارشوں کے سلسلے جاری ہیں، جس سے لڑنے کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو جنگ، اپنی تباہ کن قوت کے ساتھ، ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات چھوڑ جاتی ہے، فطرت کے توازن میں خلل ڈالتی ہے، جس کا نتیجہ اکثر ماحولیاتی نظام کی تباہی کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، جس سے طویل مدت کے منفی ماحولیاتی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جنگ میں اسلحے کا استعمال ماحول میں آلودگی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ کیمیائی مواد، بھاری دھاتیں اور تابکاری مواد مٹی، پانی اور ہوا کو آلودہ کرتے ہیں، جس سے نباتات اور حیوانات دونوں کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
یہ آلودگی نہ صرف براہ راست جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ماحول میں بھی برقرار رہتی ہے، جس سے وقت کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر نقصان ہوتا ہے۔ فوجی کارروائیوں میں مدد کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں، جیسے لکڑی، کی ضرورت پڑتی ہے۔ جنگلات کا یہ نقصان قدرتی نکاسی آب میں خلل ڈالتا ہے اور سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران مشہور جرمن کیمسٹ Fritz Haber نے کلورین، فاسجین اور مسٹرڈ جیسی زہریلی گیس ایجادکیں۔ جنگوں میں زیادہ ترکلورین، فاسجین اور مسٹرڈ گیسز استعمال کی گئیں۔کیمیائی ہتھیار قدیم ادوار میں بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ پہلی و دوسری جنگ عظیم، خانہ جنگی اور تاحال ان کے اطلاق کے شواہد ملتے ہیں۔ خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے تشکیل دیے گئے گیس چیمبرز مہلک تھے، جن میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس استعمال کی جاتی تھی۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے نہ فقط انسانی جانیں متاثر ہوئیں بلکہ انفرا اسٹرکچر بھی تباہ ہوا۔ دھماکے سے خارج ہونے والا ملبہ، حرارت، دھواں، باقیات اور توانائی یقیناً ارد گرد کے ماحول، ماحولیاتی نظام اور پودوں کو متاثر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں جوہری دھماکوں میں شامل تابکاری کی وجہ سے ماحول پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افغانستان کی طویل جنگ نے نہ فقط خطے کے ماحول کو متاثرکیا بلکہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔ 1917 کے دوران فضائی آلودگی کی وجہ سے افغانستان میں چھبیس لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے۔ امریکی فضائیہ نے اس وقت انتہائی طاقتور بم GBUU-43B کو پہلی بار استعمال کیا جسے '' تمام بموں کی ماں '' (Mother of all bombs) کہا جاتا ہے، جس کے سنگین اثرات شہریوں پر دیکھے گئے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی نقل وحرکت اکثر میزبان علاقوں میں قدرتی وسائل کے زیادہ استحصال کا باعث بنی، کیونکہ لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ وسائل کا یہ حد سے زیادہ استعمال ماحولیاتی نظام پر دباؤ کو تیز کرتا ہے۔
سمندری ماحولیاتی نظام بھی جنگ کے دوران متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر ساحلی پٹی کے قریب تنازعات میں تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر سے تیل کا اخراج اور بحری جہازوں کے ڈوبنے سے زہریلے مادے نکلتے ہیں جو سمندری زندگی پر تباہ کن اثرات ڈالتے ہیں۔ انڈیا، عراق، جاپان، لیبیا، روس، شام، اسرائیل اور امریکا کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ روس کے پاس ان ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ مہلک مادے، جنگجوؤں اور عام شہریوں دونوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے، کیمیائی ہتھیاروں کے تباہ کن اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے، مختلف معاہدوں کے ذریعے ان کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔
خاص طور پر امریکا میں1997 میں قائم کردہ کیمیکل ویپن کنوینشن (CWC) نے واضح کیا کہ کیمیائی ہتھیار اپنی خطرناک نوعیت کی وجہ سے دنیا کی صحت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسٹرڈ گیس کا استعمال یا شام میں سارین گیس کے حملے، ان کے استعمال کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
CWC ادارہ ہے جو کیمیائی ہتھیاروں کی ترقی، پیداوار، حصول، ذخیرہ اندوزی، منتقلی یا استعمال پر پابندی لگاتا ہے، بڑے پیمانے پر تباہی کے ان آلات کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں، جو اس طرح کی پابندیوں کو نافذ کرنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ان اصولوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نہ صرف فوری طور پر ہلاکتیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے طویل مدتی نتائج بھی دکھائی دیتے ہیں، مشرق وسطیٰ مستقل جنگ کی زد میں رہا ہے، وہاں گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت، بارشیں، خشک سالی، ریت کے طوفان، سیلاب اور سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں غزہ میں فاسفورس کیمیکل شہریوں پر برسائے گئے۔
فاسفورس سے جلد جھلس جاتی ہے اور اس کا دھواں آنکھوں اور نظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ نہ پھٹنے والا اسلحہ اور بارودی سرنگیں، جنگ کی باقیات، انسانی اور جانوروں کی آبادی دونوں کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہیں۔کئی ممالک میں بارودی سرنگوں کے تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔
بارودی سرنگوں کو '' سماجی تباہی کے ہتھیار'' کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو طویل مدتی سماجی اور معاشی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ وہ تنازعات کے خاتمے کے بعد دہائیوں تک غربت کو برقرار رکھتے ہیں۔ دنیا میں بارودی سرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے پچاسی فیصد افغانستان، انگولا اورکمبوڈیا کے غربت زدہ ممالک میں ہوئی ہیں۔ عراق اور لاؤس بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں، 110 ملین سے زیادہ بارودی سرنگیں چھپی ہوئی ہیں، بارودی سرنگیں ہر روز ہرگھنٹے میں دو افراد کو ہلاک کرتی ہیں۔
بارودی سرنگ کا مسئلہ 1997 میں اس وقت بین الاقوامی سطح پر سامنے آیا جب شہزادی ڈیانا انگولا میں واقع کے ایک بارودی سرنگ سے گزر رہی تھیں۔ انھوں نے اس مسئلے کی سنگینی پر آواز بلند کی جس کے نتیجے میں، اس کے دورے کے فوراً بعد، اوٹاوا مائن بان ٹریٹی پر دستخط کیے گئے، جس میں دنیا کو بارودی سرنگوں سے نجات دلانے کے لیے تمام ممالک کو متحد ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔
اس وقت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہونے والی جنگ ماحولیات کے حوالے سے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف دھکیلی جارہی ہے؟
اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ خطرات ماحولیاتی آلودگی سے ہیں، جس کے نتیجے میں شدید گرمی، جنگلات میں لگنے والی آگ، سیلاب، زلزلے، طوفان اور غیر متوقع بارشوں کے سلسلے جاری ہیں، جس سے لڑنے کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت ہے۔
دیکھا جائے تو جنگ، اپنی تباہ کن قوت کے ساتھ، ماحولیاتی نظام پر منفی اثرات چھوڑ جاتی ہے، فطرت کے توازن میں خلل ڈالتی ہے، جس کا نتیجہ اکثر ماحولیاتی نظام کی تباہی کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے، جس سے طویل مدت کے منفی ماحولیاتی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جنگ میں اسلحے کا استعمال ماحول میں آلودگی پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ کیمیائی مواد، بھاری دھاتیں اور تابکاری مواد مٹی، پانی اور ہوا کو آلودہ کرتے ہیں، جس سے نباتات اور حیوانات دونوں کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
یہ آلودگی نہ صرف براہ راست جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ماحول میں بھی برقرار رہتی ہے، جس سے وقت کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر نقصان ہوتا ہے۔ فوجی کارروائیوں میں مدد کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں، جیسے لکڑی، کی ضرورت پڑتی ہے۔ جنگلات کا یہ نقصان قدرتی نکاسی آب میں خلل ڈالتا ہے اور سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران مشہور جرمن کیمسٹ Fritz Haber نے کلورین، فاسجین اور مسٹرڈ جیسی زہریلی گیس ایجادکیں۔ جنگوں میں زیادہ ترکلورین، فاسجین اور مسٹرڈ گیسز استعمال کی گئیں۔کیمیائی ہتھیار قدیم ادوار میں بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ پہلی و دوسری جنگ عظیم، خانہ جنگی اور تاحال ان کے اطلاق کے شواہد ملتے ہیں۔ خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے تشکیل دیے گئے گیس چیمبرز مہلک تھے، جن میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس استعمال کی جاتی تھی۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے نہ فقط انسانی جانیں متاثر ہوئیں بلکہ انفرا اسٹرکچر بھی تباہ ہوا۔ دھماکے سے خارج ہونے والا ملبہ، حرارت، دھواں، باقیات اور توانائی یقیناً ارد گرد کے ماحول، ماحولیاتی نظام اور پودوں کو متاثر کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں جوہری دھماکوں میں شامل تابکاری کی وجہ سے ماحول پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
افغانستان کی طویل جنگ نے نہ فقط خطے کے ماحول کو متاثرکیا بلکہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔ 1917 کے دوران فضائی آلودگی کی وجہ سے افغانستان میں چھبیس لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے۔ امریکی فضائیہ نے اس وقت انتہائی طاقتور بم GBUU-43B کو پہلی بار استعمال کیا جسے '' تمام بموں کی ماں '' (Mother of all bombs) کہا جاتا ہے، جس کے سنگین اثرات شہریوں پر دیکھے گئے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی نقل وحرکت اکثر میزبان علاقوں میں قدرتی وسائل کے زیادہ استحصال کا باعث بنی، کیونکہ لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ وسائل کا یہ حد سے زیادہ استعمال ماحولیاتی نظام پر دباؤ کو تیز کرتا ہے۔
سمندری ماحولیاتی نظام بھی جنگ کے دوران متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر ساحلی پٹی کے قریب تنازعات میں تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر سے تیل کا اخراج اور بحری جہازوں کے ڈوبنے سے زہریلے مادے نکلتے ہیں جو سمندری زندگی پر تباہ کن اثرات ڈالتے ہیں۔ انڈیا، عراق، جاپان، لیبیا، روس، شام، اسرائیل اور امریکا کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ روس کے پاس ان ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔
جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ مہلک مادے، جنگجوؤں اور عام شہریوں دونوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے، کیمیائی ہتھیاروں کے تباہ کن اثرات کو تسلیم کرتے ہوئے، مختلف معاہدوں کے ذریعے ان کے استعمال پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے۔
خاص طور پر امریکا میں1997 میں قائم کردہ کیمیکل ویپن کنوینشن (CWC) نے واضح کیا کہ کیمیائی ہتھیار اپنی خطرناک نوعیت کی وجہ سے دنیا کی صحت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران مسٹرڈ گیس کا استعمال یا شام میں سارین گیس کے حملے، ان کے استعمال کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
CWC ادارہ ہے جو کیمیائی ہتھیاروں کی ترقی، پیداوار، حصول، ذخیرہ اندوزی، منتقلی یا استعمال پر پابندی لگاتا ہے، بڑے پیمانے پر تباہی کے ان آلات کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مثالیں موجود ہیں، جو اس طرح کی پابندیوں کو نافذ کرنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ان اصولوں کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نہ صرف فوری طور پر ہلاکتیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے طویل مدتی نتائج بھی دکھائی دیتے ہیں، مشرق وسطیٰ مستقل جنگ کی زد میں رہا ہے، وہاں گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت، بارشیں، خشک سالی، ریت کے طوفان، سیلاب اور سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں غزہ میں فاسفورس کیمیکل شہریوں پر برسائے گئے۔
فاسفورس سے جلد جھلس جاتی ہے اور اس کا دھواں آنکھوں اور نظام تنفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ نہ پھٹنے والا اسلحہ اور بارودی سرنگیں، جنگ کی باقیات، انسانی اور جانوروں کی آبادی دونوں کے لیے مسلسل خطرات کا باعث ہیں۔کئی ممالک میں بارودی سرنگوں کے تباہ کن اثرات پڑے ہیں۔
بارودی سرنگوں کو '' سماجی تباہی کے ہتھیار'' کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو طویل مدتی سماجی اور معاشی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ وہ تنازعات کے خاتمے کے بعد دہائیوں تک غربت کو برقرار رکھتے ہیں۔ دنیا میں بارودی سرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں میں سے پچاسی فیصد افغانستان، انگولا اورکمبوڈیا کے غربت زدہ ممالک میں ہوئی ہیں۔ عراق اور لاؤس بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں، 110 ملین سے زیادہ بارودی سرنگیں چھپی ہوئی ہیں، بارودی سرنگیں ہر روز ہرگھنٹے میں دو افراد کو ہلاک کرتی ہیں۔
بارودی سرنگ کا مسئلہ 1997 میں اس وقت بین الاقوامی سطح پر سامنے آیا جب شہزادی ڈیانا انگولا میں واقع کے ایک بارودی سرنگ سے گزر رہی تھیں۔ انھوں نے اس مسئلے کی سنگینی پر آواز بلند کی جس کے نتیجے میں، اس کے دورے کے فوراً بعد، اوٹاوا مائن بان ٹریٹی پر دستخط کیے گئے، جس میں دنیا کو بارودی سرنگوں سے نجات دلانے کے لیے تمام ممالک کو متحد ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔