ایں خانہ ہمہ آفتاب است…
تعلیم کا، ادب کا، اپنے والدین کا، اپنے اساتذہ کا اور سب سے بڑھ کر ایک کلچر اور ایک تہذیب کا حق ادا کردیا ہے
انجینئر مسعود اصغرکمالی ایس ایم کالج کراچی میں میرے فلسفہ کے استاد عبد الحمید کمالی کے فرزند ارجمند ہیں۔ 1959سے 1961تک میں نے دو سال ان سے منطق ( لاجک ) کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد میں نے ایس ایم کالج چھوڑ کر اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔
اس وقت عبد الحمید کمالی لیکچرر تھے، بعد میں میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ اس زمانے میں ان کے والد اللہ بخش کمالی ڈی جے کالج میں پروفیسر تھے۔ حیدرآباد دکن کی علم و ادب اور تہذیب و تمدن کی مردم خیز زمین سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو'' ایں خانہ ہمہ آفتاب است '' کہا جائے تو بے جانہ ہوگا جس کے انجینئر مسعود اصغرکمالی بھی ایک رکن ہیں۔ ان کے والد نے بعد میں پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید کمالی کے نام سے بڑی شہرت پائی۔
ایک زمانے میں وہ اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے، وہ واحد شخصیت ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اس علمی اور تحقیقی ادارے کی دو دفعہ سربراہی سنبھا لی۔ انھوں نے اسلام اور اقبالیات پر اپنے مطالعہ و تحقیق سے زبردست علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، ان کے مقالات اور کتابوں نے دنیا بھر میں دھوم مچائی۔
فلسفے کی دنیا میں ان کا عظیم علمی سرمایہ محفوظ ہے لیکن مادہ پرستی کے اس دور میں یہ فکری علمی اور تحقیقی سرمایہ عام اہل علم سے اوجھل ہے مجھے یقین ہے کہ بہت جلد انسانی شعور ایک بار پھر فکر و فن کی حقیقی راہ پر گامزن ہوگا تو پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید کمالی کی انتھک کاوشوں کے نچوڑ سے کماحقہ استفادہ کیا جائے گا۔
اسی علمی خانوادے سے وابستہ انجینئر مسعود اصغر کمالی، اگرچہ اپنے اسلاف کی ڈگر سے قدرے ہٹ کر اور اپنی انجینئرنگ کی دنیا سے باہر نکل کر صحافت اور ابلاغ کی دنیا میں جا پہنچے ہیں۔ اس شعبے میں انھوں نے اپنی زبردست محنت اورکاوشوں سے یقینا کافی نام کما لیا ہے، لیکن یہاں مقابلہ اتنا سخت ہے کہ دام کمانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں سچے کھرے لوگ دوغلی جی حضوری نہیں کرسکتے اور ہر غلط بات کی تائید میں قلم کی حرمت کو پامال بھی نہیں کرسکتے چونکہ صحافت تو نام ہی حق و سچ کے فروغ کا ہی ہے۔
مسعود اصغر کمالی نے جامعہ سرسید اور جامعہ کراچی سے اسناد حاصل کی ہیں، تاہم ان کا ذوق و شوق انھیں مضمون نگاری اور کالم نویسی کی جانب کھنچ لایا۔ انھوں نے مختلف اخبارات سمیت ایکسپریس میں اہم ترین موضوعات پر بہت کچھ لکھا، جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر انور جہاں برنی کے خیال میں قارئین میں بے انتہا مقبول ہونے والے مسعود کمالی کے تجزیوں میں نہ صرف مادر وطن میں پیدا ہونے والے مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ ان کے حل کی خاطر مفید تجاویز بھی دی گئیں۔
ان تجاویز کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے۔ اس کے علاوہ مسعود کمالی کی توجہ کراچی کے تعلیمی میدان میں نبرد آزما خواتین کی کاوشوں پر بہت گہری ہے ان کا کالم بہ عنوان '' گولڈن گرلز''محض ایک اظہاریہ ہی نہیں بلکہ کراچی کی خواتین کی ان تمام کوششوں کی تاریخ ہے جو وجود پاکستان کے فورا بعد سے اب تک صحت، تعلیم اور بینکنک کے شعبے میں انجام دیتی رہی ہیں۔
اب تک ان کی تین کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں'' بیگم رضی حمید کمالی: ایک شخصیت، ایک دور۔ مقالات عبد الحمید کمالی؛دین مبین: رشدو ہدایت کا دائمی منشور، مومنوں کی فلاح کا نسخہ کیمیا اور دو کتابیں"Islam its Socio-Political Dynamics and Status Of Man" اور'' گوہر نایاب '' اشاعت کے مراحل میں ہیں اور ہمارا سماج (سماجیات) کمپوزنگ کے مرحلوں میں ہیں جو جلد دستیاب ہونگی۔
مسعود کمالی کی تالیف'' بیگم رضی حمید کمالی'' کے طائرانہ جائزے میں پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار مصطفیٰ اور پروفیسر آمنہ کمال لکھتے ہیں کہ ''مسعود کمالی نے جس طرح درپیش آنے والی تمام مشکلات کے باوجود اس کتاب کی اشاعت کی، اس کے لیے یہ اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے ایک بھر پور تاریخی کتاب بڑی ادبی ذوق اور دانشوری کے ساتھ تخلیق کی جو پاکستان کے ایک عہد کی یادگار تحریروں سے مزین ہے جو واقعی پورے ایک عہد کے ترجمان ہیں اور اس طرح کئی باتوں کا حق ادا کیا۔
تعلیم کا، ادب کا، اپنے والدین کا، اپنے اساتذہ کا اور سب سے بڑھ کر ایک کلچر اور ایک تہذیب کا حق ادا کردیا ہے اور اس تدوین میں قرآن فہمی کی جو جھلک نظر آتی ہے وہ یقینا اس نوع کی دیگر کتابوں میں کہیں نہیں ملتی۔
ڈاکٹر برہان عباس مسعود کمالی کی بعض تحریروں سے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ مسعود کمالی کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے کہ انھوں نے بعض مشہورکالم نگاروں کے کالموں میں بہت سی ہمالیائی غلطیوں ( تاریخی و واقعاتی) کی نشاندہی بھی اس وقت کی جب یہ کام کسی اور نے نہیں کیا، متعلقہ اخباروں نے ان کو بھی شامل اشاعت کیا۔ مسعود کمالی کی تالیفات اس بات کی مستحق ہیں۔ ایک علمی خزانے ہونے کے سبب جنھیں ہر لائبریری کی زینت بننا چاہیے۔ ''
مندرجہ بالا ادیبوں اور ماہر تعلیم ہستیوں کے خیالات کے بعد ہم جیسے ادنیٰ قلم کاروں کی رائے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ مسعود اصغرکمالی میرے استاد اور فلسفی عبد الحمید کمالی کے چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے میرے لیے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں۔ ان کی ہمشیرہ رعنا شاہین بھی بینکنک کے شعبے میں خدمات کے علاوہ یو ٹیوب چینل ' ٹیلنٹ' پر علم و ادب سے وابستہ نامور شخصیات کے افکار و خیالات کو بھی بہت خوبصورت انداز میں متعارف کرانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں جو اصحاب فکر و فن ہونے کے باوجود 'من ترا حاجی بگویم تو مرا ملابگو' کے مصداق کسی انجمن سائش باہمی سے وابستگی نہیں رکھتے۔ ان کی والدہ محترمہ بیگم رضی حمید کمالی کی شعبہ تعلیم میں گرانقدر خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
میں اپنی ذات سے اس کی مثال دے کر بات کو ختم کرتا ہوں کہ کم و بیش نصف صدی کے دوران اخباری ضروریات کے لیے میں نے بے شمار مختلف النوع مضامین اور کالم لکھے لیکن میں کوئی معروف مصنف نہیں، لہٰذا میری تحریریں کبھی یادگار نہیں قرار پائیں گی، سوائے دو تین کتابوں کے مثلا اجالے اور ہالے ( یہ کتاب شاید میری مغفرت کا ذریعہ بن جائے)، ایک عاصی کا حج، واردات قلمی ( خود نوشت سوانح عمری)،کالم پناہ، وہ اور میں(افسانوں کا مجموعہ)، یادیں باقی ہیں۔ مختلف موضوعات پر اس قسم کے مجموعے آیندہ نسلوں کو شاید کبھی متوجہ کرسکیں۔
اس وقت عبد الحمید کمالی لیکچرر تھے، بعد میں میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ اس زمانے میں ان کے والد اللہ بخش کمالی ڈی جے کالج میں پروفیسر تھے۔ حیدرآباد دکن کی علم و ادب اور تہذیب و تمدن کی مردم خیز زمین سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو'' ایں خانہ ہمہ آفتاب است '' کہا جائے تو بے جانہ ہوگا جس کے انجینئر مسعود اصغرکمالی بھی ایک رکن ہیں۔ ان کے والد نے بعد میں پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید کمالی کے نام سے بڑی شہرت پائی۔
ایک زمانے میں وہ اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے، وہ واحد شخصیت ہیں جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے اس علمی اور تحقیقی ادارے کی دو دفعہ سربراہی سنبھا لی۔ انھوں نے اسلام اور اقبالیات پر اپنے مطالعہ و تحقیق سے زبردست علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، ان کے مقالات اور کتابوں نے دنیا بھر میں دھوم مچائی۔
فلسفے کی دنیا میں ان کا عظیم علمی سرمایہ محفوظ ہے لیکن مادہ پرستی کے اس دور میں یہ فکری علمی اور تحقیقی سرمایہ عام اہل علم سے اوجھل ہے مجھے یقین ہے کہ بہت جلد انسانی شعور ایک بار پھر فکر و فن کی حقیقی راہ پر گامزن ہوگا تو پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمید کمالی کی انتھک کاوشوں کے نچوڑ سے کماحقہ استفادہ کیا جائے گا۔
اسی علمی خانوادے سے وابستہ انجینئر مسعود اصغر کمالی، اگرچہ اپنے اسلاف کی ڈگر سے قدرے ہٹ کر اور اپنی انجینئرنگ کی دنیا سے باہر نکل کر صحافت اور ابلاغ کی دنیا میں جا پہنچے ہیں۔ اس شعبے میں انھوں نے اپنی زبردست محنت اورکاوشوں سے یقینا کافی نام کما لیا ہے، لیکن یہاں مقابلہ اتنا سخت ہے کہ دام کمانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں سچے کھرے لوگ دوغلی جی حضوری نہیں کرسکتے اور ہر غلط بات کی تائید میں قلم کی حرمت کو پامال بھی نہیں کرسکتے چونکہ صحافت تو نام ہی حق و سچ کے فروغ کا ہی ہے۔
مسعود اصغر کمالی نے جامعہ سرسید اور جامعہ کراچی سے اسناد حاصل کی ہیں، تاہم ان کا ذوق و شوق انھیں مضمون نگاری اور کالم نویسی کی جانب کھنچ لایا۔ انھوں نے مختلف اخبارات سمیت ایکسپریس میں اہم ترین موضوعات پر بہت کچھ لکھا، جسے مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر انور جہاں برنی کے خیال میں قارئین میں بے انتہا مقبول ہونے والے مسعود کمالی کے تجزیوں میں نہ صرف مادر وطن میں پیدا ہونے والے مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ ان کے حل کی خاطر مفید تجاویز بھی دی گئیں۔
ان تجاویز کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے۔ اس کے علاوہ مسعود کمالی کی توجہ کراچی کے تعلیمی میدان میں نبرد آزما خواتین کی کاوشوں پر بہت گہری ہے ان کا کالم بہ عنوان '' گولڈن گرلز''محض ایک اظہاریہ ہی نہیں بلکہ کراچی کی خواتین کی ان تمام کوششوں کی تاریخ ہے جو وجود پاکستان کے فورا بعد سے اب تک صحت، تعلیم اور بینکنک کے شعبے میں انجام دیتی رہی ہیں۔
اب تک ان کی تین کتابیں شایع ہوچکی ہیں جن میں'' بیگم رضی حمید کمالی: ایک شخصیت، ایک دور۔ مقالات عبد الحمید کمالی؛دین مبین: رشدو ہدایت کا دائمی منشور، مومنوں کی فلاح کا نسخہ کیمیا اور دو کتابیں"Islam its Socio-Political Dynamics and Status Of Man" اور'' گوہر نایاب '' اشاعت کے مراحل میں ہیں اور ہمارا سماج (سماجیات) کمپوزنگ کے مرحلوں میں ہیں جو جلد دستیاب ہونگی۔
مسعود کمالی کی تالیف'' بیگم رضی حمید کمالی'' کے طائرانہ جائزے میں پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار مصطفیٰ اور پروفیسر آمنہ کمال لکھتے ہیں کہ ''مسعود کمالی نے جس طرح درپیش آنے والی تمام مشکلات کے باوجود اس کتاب کی اشاعت کی، اس کے لیے یہ اعتراف ضروری ہے کہ انھوں نے ایک بھر پور تاریخی کتاب بڑی ادبی ذوق اور دانشوری کے ساتھ تخلیق کی جو پاکستان کے ایک عہد کی یادگار تحریروں سے مزین ہے جو واقعی پورے ایک عہد کے ترجمان ہیں اور اس طرح کئی باتوں کا حق ادا کیا۔
تعلیم کا، ادب کا، اپنے والدین کا، اپنے اساتذہ کا اور سب سے بڑھ کر ایک کلچر اور ایک تہذیب کا حق ادا کردیا ہے اور اس تدوین میں قرآن فہمی کی جو جھلک نظر آتی ہے وہ یقینا اس نوع کی دیگر کتابوں میں کہیں نہیں ملتی۔
ڈاکٹر برہان عباس مسعود کمالی کی بعض تحریروں سے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ مسعود کمالی کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے کہ انھوں نے بعض مشہورکالم نگاروں کے کالموں میں بہت سی ہمالیائی غلطیوں ( تاریخی و واقعاتی) کی نشاندہی بھی اس وقت کی جب یہ کام کسی اور نے نہیں کیا، متعلقہ اخباروں نے ان کو بھی شامل اشاعت کیا۔ مسعود کمالی کی تالیفات اس بات کی مستحق ہیں۔ ایک علمی خزانے ہونے کے سبب جنھیں ہر لائبریری کی زینت بننا چاہیے۔ ''
مندرجہ بالا ادیبوں اور ماہر تعلیم ہستیوں کے خیالات کے بعد ہم جیسے ادنیٰ قلم کاروں کی رائے کیا اہمیت رکھتی ہے۔ مسعود اصغرکمالی میرے استاد اور فلسفی عبد الحمید کمالی کے چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے میرے لیے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں۔ ان کی ہمشیرہ رعنا شاہین بھی بینکنک کے شعبے میں خدمات کے علاوہ یو ٹیوب چینل ' ٹیلنٹ' پر علم و ادب سے وابستہ نامور شخصیات کے افکار و خیالات کو بھی بہت خوبصورت انداز میں متعارف کرانے کی خدمات انجام دے رہی ہیں جو اصحاب فکر و فن ہونے کے باوجود 'من ترا حاجی بگویم تو مرا ملابگو' کے مصداق کسی انجمن سائش باہمی سے وابستگی نہیں رکھتے۔ ان کی والدہ محترمہ بیگم رضی حمید کمالی کی شعبہ تعلیم میں گرانقدر خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
میں اپنی ذات سے اس کی مثال دے کر بات کو ختم کرتا ہوں کہ کم و بیش نصف صدی کے دوران اخباری ضروریات کے لیے میں نے بے شمار مختلف النوع مضامین اور کالم لکھے لیکن میں کوئی معروف مصنف نہیں، لہٰذا میری تحریریں کبھی یادگار نہیں قرار پائیں گی، سوائے دو تین کتابوں کے مثلا اجالے اور ہالے ( یہ کتاب شاید میری مغفرت کا ذریعہ بن جائے)، ایک عاصی کا حج، واردات قلمی ( خود نوشت سوانح عمری)،کالم پناہ، وہ اور میں(افسانوں کا مجموعہ)، یادیں باقی ہیں۔ مختلف موضوعات پر اس قسم کے مجموعے آیندہ نسلوں کو شاید کبھی متوجہ کرسکیں۔