اہلِ صحافت کے لیے مشعل راہ شخصیت مولانا ظفر علی خان
مولانا ظفر علی خان اپنی شخصیت اور قلمی کام کی بدولت بابائے صحافت کہلائے
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
فراق گورکھپوری کے اس خوبصورت خیال نے ایک ایسی کثیر الجہت شخصیت کی یاد کے پھول تازہ کردیے جنھیں ہم بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کے نام سے جانتے ہیں، جن کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں، وہ شاعر، مدیر، تحریک پاکستان کے سیاسی رہنما ، بے باک صحافی، ادیب، شعلہ بیاں مقرر، بے مثل نقاد اور آزادی کے لیے جدوجہدکرنے والے قلم کار تھے۔
وہ 19 جنوری 1873 کو مولوی سراج الدین احمد کے ہاں گوجرانوالہ کے ایک گائوں کوٹ میرٹھ ، وزیرآباد میں پیدا ہوئے، ان کے دادا کا نام کرم الٰہی تھا جنھوں نے ان کا نام ظفر علی خان رکھا، '' تفہیم صحافت'' کے اوراق بتاتے ہیں کہ ان کے دادا نے ایک نیا گائوں '' کرم آباد'' اپنے نام پر بسایا جس کے بعد وہ اپنے سارے خاندان کے ہمراہ وہاں مقیم ہوئے۔
مولانا ظفر علی خان نے ابتدائی تعلیم وزیر آباد کے مشن ہائی اسکول سے حاصل کی، جس کے بعد انھوں نے سرسید کی قائم کردہ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔ اسی جگہ انھیں علامہ شبلی نعمانی اور پروفیسرآرنلڈ جیسے بہترین اساتذہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہُوا۔ ان اساتذہ کے علاوہ دیگر ہستیوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد شوکت علی شامل تھے، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ان سے ایک سال سنیئر جب کہ بابائے اردو کہلائے جانے والے مولوی عبدالحق ان کے ہم جماعت تھے، مولانا حسرت موہانی ان کے جونیئر تھے۔
مولانا ظفر علی خان ایک نڈر صحافی تھے'وہ اپنی تقریروں میں انگریزوں کی مخالفت کیا کرتے،کئی دفعہ ان کے اخبار '' زمیندار'' کو بند کردیا گیا بعض اوقات مالی وسائل اور اشتہارات کی کمی بھی اخبارکی بندش کا باعث بنتی رہی۔ اُس وقت '' زمیندار'' اخبار پرکئی مقدمات درج ہوئے جس پرکئی بار اس کی اشاعت معطل ہوتی رہی۔
یاد رہے کہ ان کے والد کا شمار بھی اپنے دور کی علمی، ادبی و صحافتی شخصیات میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنے ہی آبائی گائوں کرم آباد سے '' زمیندار'' اخبار کو شایع کیا ، جو آغاز میں ہفت روزہ نکالا پھر کس ہی عرصے کے بعد اسے 15 اکتوبر1911 سے اسے ہفت روزہ سے روزنامہ بنادیا گیا۔ والد کی وفات کے بعد '' زمیندار'' اخبار کی مستقل ادارتی ذمے داری مولانا ظفر علی خان کو سونپ دی گئی۔ اسی دوران 1910 میں ایک اور اخبار شایع ہُوا جس کا نام '' پنجاب ریویو'' تھا۔
'' زمیندار '' اخبارکا مقصد زمینداروں، مزدوروں اورکسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ اس اخبار کی قدروقیمت کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس اخبارکو ایک فرد خریدتا توکئی لوگ اسے ایک ساتھ پڑھتے، جو لوگ خود نہیں پڑھ سکتے تھے، وہ کسی پڑھے لکھے کو معاوضہ دے کر اُس سے پڑھوا کر سنتے، اس کے تازہ شمارے کی آمد کے سبھی منتظر رہتے اور مولانا کے اداریہ پڑھنے کا انتظارکرتے۔
مولانا ظفر علی خان کا شمار مسلم لیگ کے بانیوں میں ہوتا ہے، انھیں ان کی بے باکی اور حق گوئی کے باعث اپنے عہد کے یزیدوں کو للکارنے، سلطنت برطانیہ کے خلاف لکھنے کے جرم کی پاداش میں کئی بار بندشوں کا سامنا کرتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی۔
یہ بات 1920کی ہے جب ان کی چودہ سالہ قید ختم ہوئی تو انھوں نے دوبارہ سے '' زمیندار'' اخبار کو شایع کرنے کا ارادہ کیا جس کی اشاعت کے لیے شب وروز انتھک محنت سے '' زمیندار '' کا نام ایسا روشن کیا کہ لاہور سے شایع ہونیوالے سبھی اخبارات میں سے کسی کا چراغ نہ جل سکا۔
یوں یہ سب اخبار آہستہ آہستہ بند ہوتے چلے گئے اور '' زمیندار'' اخبارکا چرچا ہر طرف ہونے لگا۔ دوبارہ اشاعت پر اس کی پیشانی پر جو اشعار چھپتے تھے اُن میں مولانا حالی کے تحریر کردہ اشعار بھی شامل ہوتے تھے۔ پھرکچھ ہی ماہ بعد '' زمیندار'' کی پیشانی پر مولانا ظفر علی خان کے خود کا شعر پڑھنے کو ملنے لگا۔
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
اس زبان زدِ عام شعرکو بہت سے اہلِ دانش علامہ اقبال اور مولانا الطاف حسین حالی سے بھی منسوب کرتے ہیں جب کہ اس شعر کے اصلی خالق مولانا ظفر علی خان ہی ہے۔ '' زمیندار'' کا پیمبر نمبر نکلا تو علی گڑھ کے ایک دوست کی تجویز پر ستارہ وہلال کے نشان کے نیچے علامہ اقبال کے ایک مشہور شعر کا اضافہ کیا گیا۔
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے، قومی نشاں ہمارا
اس کے بعد '' زمیندار'' اخبار پر حکومت کی طرف سے ظلم و ستم کے ڈھائے جانے لگے تو پھر ان اشعار کی جگہ مندرجہ ذیل شعر چھپنے لگا۔
نورِ خدا ہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
مولانا ظفر علی خان کی آج بھی درجنوں شاعری کی کتابوں میں ان کی نعتیں، غزلیں اور نظمیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان کی بے نظیر اور دل و دماغ پر نقش ہو جانے والی شاعری کو خواجہ حسن نظامی نے الہام کا نام دیا جب کہ مولانا سلیمان ندوی نے ظفر علی خان کو اردو کے صرف تین کامل شاعروں میں سے ایک تسلیم کیا ہے، داغ دہلوی جیسے استاد شاعر کی یہ رائے تھی کہ '' پنجاب نے ظفر علی خان اور اقبال کو پیدا کر کے اپنے ماضی کی تلافی کردی ہے۔''
اسی طرح سر سید ، علامہ شبلی اور الطاف حسین حالیؔ نے بھی اپنے اپنے انداز میں ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔صحافت اور شاعری میں اپنے استاد ظفر علی خان کی طرح تمام تر خوبیوں سے ماورا شاگرد شورش کاشمیری نے انھیں اقلیم انشاء کے شہنشاہ اور میدانِ شعر کے شہسوار کا خطاب دیا۔
مولانا ایک بلند پایہ شاعر تھے جنھیں اردو نظم و نثر پر عبور حاصل تھا۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اُس دورکی نسبت اگر آج ہم دیکھیں تو اخبارکی اشاعت میں کافی جدت اور آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں لیکن لکھنے، پڑھنے کا عمل آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جنتا کل تک تھا۔
مولانا ظفر علی خان اپنی شخصیت اور قلمی کام کی بدولت بابائے صحافت کہلائے۔ جنھوں نے اپنی بہادری ، اپنی بے باکی اور جراتِ اظہارکی بدولت مسلمانانِ برصغیر کی نمایندگی کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا۔ ۱۹۴۹ء میں ان کی صحت گرنے لگی،کافی کمزور ہونے کے باعث کمر جھک گئی اور ہاتھوں میں لمبی سی چھڑی تھام کر چلنے لگے، انھوں نے اپنی آخری مختصر تقریر پنجاب یونیورسٹی میں کی۔
بالآخر پچاس سال کی ہنگامہ خیز زندگی اور دس سال کی طویل علالت کے بعد 27 نومبر 1956کو گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد میں وفات پائی، ان کی نمازِ جنازہ مولانا عبدالغفور ہزاروی نے پڑھائی اور انھیں ان کی آبائی گائوں کرم آباد ، وزیرآباد میں دفن کیا گیا۔ حکومتی سطح پر ان کی برسی پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
وہیں خوش آیند بات یہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ان کی شخصیت و خدمات پر کام آج بھی جاری ہے۔ ان کا کردار آج کے صحافیوں اور شاعروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یاد رکھیں کہ تحریک پاکستان اور ادب و صحافت کا تذکرہ ان کے ذکر کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ ثاقب لکھنوی کے اس شعر کے مصداق۔
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہم ہی سوگئے داستاں کہتے کہتے