انتخابات اور جمہوری حکومت
سیاستدان بھی اب مطمئن ہیں اور وہ بھی 8 فروری کے معرکے کی تیاریوں میں مصروف ہیں
ملک میں الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی جلسے منعقد کررہی ہیں، سیاستدان کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں، کسی کو نئے لاڈلے کا لقب دیا جا رہا ہے تو کسی کو لاڈلے پن کی سزا کا مارا کہا جا رہا ہے۔
اب الیکشن کے دن میں مشکل سے ڈھائی مہینہ باقی بچا ہے۔ الیکشن کی یہ تاریخ بڑی مشکل سے ملی ہے۔ اسے خود صدر پاکستان کو دینا چاہیے تھا، شاید ان سے دیر ہوگئی، چنانچہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے جس کی تصدیق سپریم کورٹ نے بھی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ اچھا کیا کہ اپنے فیصلے میں اس کی تاریخ یعنی 8 فروری 2024کو ناقابل تنسیخ قرار دے دیا ہے یعنی کہ اس تاریخ کو اب نہیں بدلا جا سکتا خواہ کسی ادارے کو اس سے کسی بھی قسم کی تکلیف ہو اور وہ اس سے چھیڑ چھاڑکرنے کا خواہاں ہو تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
سیاستدان بھی اب مطمئن ہیں اور وہ بھی 8 فروری کے معرکے کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن انھیں خوف ہے کہ وہ دن پہلے کی طرح صبر آزما اور مشکلات سے گھرا نہ ہو۔ پچھلے الیکشن کے نتائج میں ہیرا پھیری سے وہ پہلے ہی گھبرائے ہوئے ہیں، اب نہیں چاہتے کہ ویسا ہو، وہ صاف ستھرے الیکشن کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ تو اپنی جگہ صحیح ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور عوام بے چینی سے نئے انتخابات کا انتظارکر رہے ہیں مگر یہ خبر پتا نہیں ان تک پہنچی کہ نہیں کہ الیکشن آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ شاید الیکشن میں چھ سے سات ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حالات ایسے ہیں کہ الیکشن غیر معینہ مدت تک کے لیے بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ الیکشن ملتوی ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ تاہم یہ بات ایک طرح سے صحیح بھی ہے کہ ملک اس وقت معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
خزانہ خالی ہے اسے بھرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ہاتھ پاؤں جوڑ کر اس سے مالی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے بڑی سخت شرائط پر فنڈز فراہم کر دیے ہیں مگر پورے نہیں ابھی آدھے باقی ہیں جس کے لیے اس کا ایک وفد چند دن قبل ملک میں ایک ماہ رہ کر تمام اہم مالی اداروں کو اپنی شرائط کا پابند کرکے چلا گیا ہے اس نے معاہدہ تو کر لیا ہے جس سے نگراں حکومت بہت خوش ہے کہ اس نے کمال کر دیا ہے کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت کو تو آئی ایم ایف کی پہلی قسط لینے کے لیے اس نے ناک سے لکیریں تک نکلوائی تھیں یعنی بہت مشکل کے بعد آئی ایم ایف اپنے فنڈز جاری کرنے کے لیے تیار ہوا تھا۔
اب نگراں حکومت کے دور میں بقیہ فنڈز کے اجرا کے لیے بغیر کسی مشکل کے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یہ بات تو واقعی عوام کے لیے بھی خوش آیند ہے کہ آئی ایم ایف سے اگلی قسط کے لیے معاہدہ ہو گیا ہے مگر اس وفد کے جانے کے بعد اب ایک نیا وفد پاکستان آگیا ہے، اب کیا ہوگا؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملک میں ٹیکسوں کے نظام کو ٹھیک کرے گا یعنی کہ اس سے پہلے کیا یہ نظام بگڑا ہوا تھا؟
آئی ایم ایف کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا ٹیکس نظام بالکل درست ہے، البتہ ہمارے اداروں کے بعض افسران کی کرپشن نے اسے مکمل ناکام بنا دیا ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کا نیا وفد ظاہر ہے ٹیکسوں کو مزید بڑھانے کی ہدایت کرے گا جس کو حکومت تو من و عن قبول کر لے گی کیونکہ اسے بہر صورت فنڈز چاہیے مگر عوام کا کیا بنے گا وہ تو پہلے ہی بھاری ٹیکسوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کی غربت کا جو حال ہے شاید آئی ایم ایف والے اس سے قطعی نابلد ہیں۔
لگتا ہے آئی ایم ایف کو عوام کی غربت اور مشکلات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ تو ٹیکسوں کے بڑھانے کی شرط پر ہی مطمئن ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت پہلے ہی ٹیکسوں کو اتنا بڑھا چکی ہے کہ غریب عوام ہی نہیں بڑوں بڑوں کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے نے کتنے ہی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے ہیں پھر ابھی تو بجلی اور گیس کے بلوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے اس لیے کہ آئی ایم ایف کا یہی نیا حکم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کو کرپشن کی لعنت نے کھوکھلا کر دیا ہے مگر کیا ملک سے کرپشن کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہے؟ یہ لعنت تو غیر جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بھی ختم نہیں ہو سکی تو پھر جمہوری دور میں تو اسے کسی طرح بھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے اکثر سیاستدانوں کوکرپٹ کہا جاتا ہے ان پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں اگر یہی صورت حال رہی تو پھر ملک کیسے آگے بڑھے گا اور دنیا میں اپنا مقام کیسے پیدا کرے گا۔
لگتا ہے غریب عوام کے حالات کو سدھارنے کا کسی سیاستدان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں نگراں حکومت قائم ہے۔ اسے یقیناً بگڑی ہوئی معیشت ملی ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے وہ اقدامات کر رہی ہے۔ اس حکومت کو ہمارے عسکری ادارے کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ عسکری ادارے بھی ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے خلیجی ممالک سے ملک میں خطیر سرمایہ کاری کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔
خوش قسمتی سے متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے گزشتہ دنوں کئی ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں۔ اس موقع پر نگراں وزیر اعظم کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، یہ فنڈز ملک کے مختلف شعبوں میں خرچ کیے جائیں گے۔
اسی طرح کویت اور سعودی عرب سے بھی ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہونے والی ہے۔ یہ ملک کی اس وقت کی کمزور معاشی حالت کو سدھارنے میں بڑی حد تک معاون ثابت ہوگی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ملک میں ریکوڈک جیسا نہری منصوبہ موجود ہے مگر اس سے اب تک فائدہ اٹھانے کے بجائے نقصان ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔ یہاں قدرت نے پاکستان کو ایسے بیش بہا سونے چاندی اور تانبے کے ذخائر سے نوازا ہے جن سے ملک کے سارے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ایک سابقہ حکومت نے باہر کی کمپنی کو ٹھیکہ دیا ۔ جب اس کمپنی کو کام بند کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے عالمی عدالت میں پاکستان پر مقدمہ دائر کر دیا کہ اسے نقصان پہنچایا گیا ہے چنانچہ پاکستان اربوں ڈالر کا اسے ہرجانہ ادا کرے۔ بدقسمتی سے عالمی عدالت نے بھی اس کی تو سنی مگر پاکستان کی نہ سنی چنانچہ بعد میں بڑی مشکل سے اس ہرجانے کا معاملہ ہلکا کرایا گیا۔
اب اس منصوبے میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب اور کویت سرمایہ کاری کریں گے جس سے ضرور اچھے نتائج نکلیں گے ساتھ ہی سی پیک پر بھی بھرپور توجہ دینے سے ملکی معاشی جمود ٹوٹے گا اور ملک و قوم کے حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ اب جہاں تک انتخابات کا معاملہ ہے تو انھیں ضرور وقت پر کرا دینا چاہیے تاکہ ملک میں پائیدار جمہوری حکومت قائم ہو پھر وہ خود معاشی معاملات کو درست کرنے پر توجہ دے گی اور معاملات ضرور بہتر ہو جائیں گے۔