اسلامی دنیا کی خاموشی
ایک اور آواز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے آئی ہے وہ اس تماشے کے خاموش تماشائی نہیں رہے ہیں
اسرائیل غزہ میں جو نسل کشی کر رہا ہے اور جسے اخباری دنیا میں غزہ و اسرائیلی جنگ قرار دیا جا رہا ہے اس پر اسلامی دنیا کی خاموشی پر اہل عالم حیران ہیں۔
ان کی حیرانی اپنی جگہ، اسلامی دنیا کے رد عمل کو چند لمحوں کے لیے نظرانداز کر لیجیے اور دیکھیے کہ اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر مذاہب اور ممالک کیا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ جو '' انسانیت'' کے علم بردار ہیں مہر بہ لب ہیں، اب کسی کے منہ سے غزہ کی حمایت میں کچھ نہیں نکل رہا ہے۔
انسانی اقدار کے بڑے وکیل امریکا نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی پر بڑا ''عمدہ'' تبصرہ کیا ہے۔ یک طرفہ سول آبادی پر بم باری کی حمایت کرتے ہوئے انسانیت کے اس وکیل نے کہا تو یہ کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
فرض کرلیتے ہیں کہ یہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ ہے تو کیا اسرائیل کسی فوجی قافلے پر فوجی ٹھکانے پر یا فوجی کاررواں پر حملہ کر رہا ہے، جناب وہ اپنا دفاع ہوائی حملوں کے ذریعے شہری آبادیوں، بے گھروں کے کیمپوں اور اسپتالوں پر حملے کر کے اپنا دفاع کررہا ہے۔
اس نے ان چند دنوں میں جتنے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے اور جس طرح بہایا ہے وہ جنگی جرائم کی تعریف میں آتا ہے، جس پر اس کے خلاف جنگی جرائم کرنے کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور امریکا اس سے بے خبر نہیں ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کر رہا ہے مگر خود امریکا، عراق اور شام میں ماضی میں یہی جرائم کر کے اپنے سینے پر بہادری کا تمغہ سجائے اتراتا رہا ہے۔
مسلم ممالک کے رد عمل کو فی الوقت بالائے طاق رکھیے یہ جو عالمی امن، انسان دوستی اور امن پسندی کے دعوے دار ہیں یا ان میں سے کسی نے غزہ میں اس ہولناک خون ریزی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ دنیا کی عالمی لیڈر شپ کے دعویدار ممالک اس تماشے کو خاموش تماشائی کے طور پر دیکھتے رہے ہیں اور کوئی حرف ملامت ان کی زبان سے نہیں نکلا ہے۔
ادھر اسرائیلی ٹینک جو امریکی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہیں اور جن کا روایتی ہتھیار کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ ٹہلتے ہوئے آتے ہیں الشفا اسپتال میں پناہ گزیں معصوم شہریوں پر گولیاں برساتے ہیں، ڈاکٹروں کی جان لیتے ہیں اور انتہائی نگہداشت میں پڑے بیماروں کو موت سے ہم کنار کر کے بہادرانہ واپس چلے جاتے ہیں اور امریکی قیادت اس عمل کو اسرائیل کا دفاع قرار دے رہی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ 57 اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک ملت کے حکمران اس صورتحال پر خاموش ہیں خصوصاً غزہ کے پڑوسی بھی اپنی سانسیں روکے بیٹھے ہیں اب اسلامی ممالک کی انجمن فرصت ملنے پر اپنا اجلاس طلب کرے گی پھر ایک ریزولوشن پاس کیا جائے گا اور بس۔کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھی ہے البتہ پاکستان کی طرف سے ردعمل آیا ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے سچی بات کہہ دی ہے کہ اسرائیل فرعون کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ اسے ای سی او کے رکن ممالک قابل مواخذہ بنائیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی میڈیا اسرائیلی مظالم کا دفاع کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کا کوئی جواز نہیں۔
صیہونی ریاست کے مظالم کی مثال قرون وسطیٰ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ کسی قدر گرج دار آواز ایک ایسے حکمران کی ہے جو چند ماہ کا حکمران ہے اور اسے اپنی حکمرانی کے جاتے رہنے کا کوئی خطرہ ہے نہ افسوس۔ اس لیے اس نے جرأت رندانہ کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے اصل موقف کی وضاحت بھی کردی ہے۔اب رہا اسلامی دنیا کا رویہ تو یہ رویہ رسول مقبولؐ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔
حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا '' قریب ہے کہ دیگر اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانیوالے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔'' دریافت کیا گیا کہ اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا '' نہیں بلکہ اس وقت تم بہت زیادہ ہو گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں دہن ڈال دے گا۔''
پوچھا گیا ''اللہ کے رسولؐ! دہن کیا ہے؟'' آپؐ نے فرمایا '' یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔''
ایک اور آواز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے آئی ہے وہ اس تماشے کے خاموش تماشائی نہیں رہے ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت میں بیان تو دے رہے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے، یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امریکا سمیت تمام ممالک خاموش کیوں ہیں نیتن یاہو جتنے ایٹم بم چاہے بنا لے انجام کا وقت آ پہنچا ہے ہم عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کریں گے۔
ان کی حیرانی اپنی جگہ، اسلامی دنیا کے رد عمل کو چند لمحوں کے لیے نظرانداز کر لیجیے اور دیکھیے کہ اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے دیگر مذاہب اور ممالک کیا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ جو '' انسانیت'' کے علم بردار ہیں مہر بہ لب ہیں، اب کسی کے منہ سے غزہ کی حمایت میں کچھ نہیں نکل رہا ہے۔
انسانی اقدار کے بڑے وکیل امریکا نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی پر بڑا ''عمدہ'' تبصرہ کیا ہے۔ یک طرفہ سول آبادی پر بم باری کی حمایت کرتے ہوئے انسانیت کے اس وکیل نے کہا تو یہ کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
فرض کرلیتے ہیں کہ یہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ ہے تو کیا اسرائیل کسی فوجی قافلے پر فوجی ٹھکانے پر یا فوجی کاررواں پر حملہ کر رہا ہے، جناب وہ اپنا دفاع ہوائی حملوں کے ذریعے شہری آبادیوں، بے گھروں کے کیمپوں اور اسپتالوں پر حملے کر کے اپنا دفاع کررہا ہے۔
اس نے ان چند دنوں میں جتنے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا ہے اور جس طرح بہایا ہے وہ جنگی جرائم کی تعریف میں آتا ہے، جس پر اس کے خلاف جنگی جرائم کرنے کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور امریکا اس سے بے خبر نہیں ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کر رہا ہے مگر خود امریکا، عراق اور شام میں ماضی میں یہی جرائم کر کے اپنے سینے پر بہادری کا تمغہ سجائے اتراتا رہا ہے۔
مسلم ممالک کے رد عمل کو فی الوقت بالائے طاق رکھیے یہ جو عالمی امن، انسان دوستی اور امن پسندی کے دعوے دار ہیں یا ان میں سے کسی نے غزہ میں اس ہولناک خون ریزی پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ دنیا کی عالمی لیڈر شپ کے دعویدار ممالک اس تماشے کو خاموش تماشائی کے طور پر دیکھتے رہے ہیں اور کوئی حرف ملامت ان کی زبان سے نہیں نکلا ہے۔
ادھر اسرائیلی ٹینک جو امریکی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہیں اور جن کا روایتی ہتھیار کچھ نہیں بگاڑ سکتے، وہ ٹہلتے ہوئے آتے ہیں الشفا اسپتال میں پناہ گزیں معصوم شہریوں پر گولیاں برساتے ہیں، ڈاکٹروں کی جان لیتے ہیں اور انتہائی نگہداشت میں پڑے بیماروں کو موت سے ہم کنار کر کے بہادرانہ واپس چلے جاتے ہیں اور امریکی قیادت اس عمل کو اسرائیل کا دفاع قرار دے رہی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ 57 اسلامی ملکوں پر مشتمل ایک ملت کے حکمران اس صورتحال پر خاموش ہیں خصوصاً غزہ کے پڑوسی بھی اپنی سانسیں روکے بیٹھے ہیں اب اسلامی ممالک کی انجمن فرصت ملنے پر اپنا اجلاس طلب کرے گی پھر ایک ریزولوشن پاس کیا جائے گا اور بس۔کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھی ہے البتہ پاکستان کی طرف سے ردعمل آیا ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے سچی بات کہہ دی ہے کہ اسرائیل فرعون کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ اسے ای سی او کے رکن ممالک قابل مواخذہ بنائیں، انھوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی میڈیا اسرائیلی مظالم کا دفاع کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کا کوئی جواز نہیں۔
صیہونی ریاست کے مظالم کی مثال قرون وسطیٰ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ کسی قدر گرج دار آواز ایک ایسے حکمران کی ہے جو چند ماہ کا حکمران ہے اور اسے اپنی حکمرانی کے جاتے رہنے کا کوئی خطرہ ہے نہ افسوس۔ اس لیے اس نے جرأت رندانہ کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے اصل موقف کی وضاحت بھی کردی ہے۔اب رہا اسلامی دنیا کا رویہ تو یہ رویہ رسول مقبولؐ کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔
حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا '' قریب ہے کہ دیگر اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے کھانیوالے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔'' دریافت کیا گیا کہ اس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا '' نہیں بلکہ اس وقت تم بہت زیادہ ہو گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی مانند ہو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں دہن ڈال دے گا۔''
پوچھا گیا ''اللہ کے رسولؐ! دہن کیا ہے؟'' آپؐ نے فرمایا '' یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔''
ایک اور آواز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے آئی ہے وہ اس تماشے کے خاموش تماشائی نہیں رہے ہیں اور مسلسل اس کی مخالفت میں بیان تو دے رہے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیا جائے، یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امریکا سمیت تمام ممالک خاموش کیوں ہیں نیتن یاہو جتنے ایٹم بم چاہے بنا لے انجام کا وقت آ پہنچا ہے ہم عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کریں گے۔