انتخابات کی سیاست اور تبدیلی کا عمل
الیکشن سے پہلے ہمیں سیاسی محاذ پر ایک بڑی گہری تقسیم نظر آتی ہے
سیاست اور جمہوریت کی گاڑی کو آگے بڑھانے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیے انتخابات کی حیثیت ایک کنجی کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔ الیکشن ووٹرز کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اورسوچ کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کرسکیں۔ الیکشن کا عمل جتنا شفاف ہوگا سیاسی نظام اتنا ہی مستحکم ہوتا ہے۔
یہ ہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی نظام کی بڑی خرابی ہی یہ ہے کہ جہاں ووٹرز بھی عدم اعتماد کا شکار ہے اور خود کو وہ کنجی سمجھنے کے بجائے بڑی طاقت ور قوتوں کو ہی تبدیلی کا اصل مہرہ سمجھتا ہے۔اسی بنیاد پر ہمارے سیاسی، جمہوری اور انتخابی نظام پر سوالات اٹھتے ہیں اور لوگ سوا ل اٹھاتے ہیں کہ ہماری جمہوری بساط کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
موجودہ انتخابات جو 8فروری 2024کو ہونے ہیں ۔ اگرچہ آج بھی انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر ابہام پایا جاتا ہے مگر ا س ابہام کو ہم دور کرلیں اور سمجھ لیں کہ اب انتخابات ہر صورت میں مقررکردہ تاریخ یعنی 8فروری 2024کو ہی ہوں گے۔ لیکن انتخابی پراسس اور نتائج کے بعد ہارنے والے کیا موقف اختیار کریں گے ، یہ سوال زیر بحث ہے۔
الیکشن سے پہلے ہمیں سیاسی محاذ پر ایک بڑی گہری تقسیم نظر آتی ہے۔ اسی تقسیم کی بنیاد پر بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اس بار انتخابات کی سیاست روائتی طرز پر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ بہت سے لوگ ان انتخابات کو غیر معمولی طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کے بقول غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی انتخابات کا کھیل نمایاں نظر آتا ہے۔
انتخابی سیاست کو دیکھیں تو اس میں پانچ پہلو نمایاں ہیں۔ اول انتخابات سے پہلے انتخابی نتائج کی بحث یا حکومت کس کی بننی ہے اس پر پہلے سے اتفاق رائے کی سیاست کا غلبہ بالادست نظر آتا ہے۔ دوئم وہی پرانی سیاست کے کھلاڑی، پرانی سیاسی حکمت عملیوں کے تحت سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں۔ طاقت ور امیدوار اقتدار میں دکھائی دینے والی جماعت مسلم لیگ ن میں شمولیت کررہے ہیں۔
شہری سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کا نمایاں نظر آنا، سوئم لاڈلے کی بنیاد پر سیاسی بحث اور ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کی سیاسی بحث کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔چہارم یہ کھیل ماضی کے اس کھیل کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے جہاں طاقت کا مرکز سیاسی قوتیں یا ووٹرز نہیں بلکہ طاقت کی اصل مراکز ہیں او ران ہی کی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی کا عمل ممکن ہوگا۔
ووٹرز اور انتخابات بنیادی طو رپر کسی کی عملی طور پر حمایت او ر مخالفت کی بنیاد پر غالب نظر آئے گی۔ پنجم سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایشوز کی بنیاد پر یا انتخابی منشور کی بنیاد پر انتخابی مہم کے مقابلے میں وہی پرانا روائتی اور فرسودہ کھیل عروج پر نظر آبھی رہا ہے اور مزید دیکھنے کو ملے گا۔
بدقسمتی سے ریاستی محاذ پر جو بڑے سنگین نوعیت کے مسائل جن میں سیاست ، معیشت، یا وہ مسائل جو عام آدمی کی زندگی سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں جن میں مہنگائی ,بے روزگاری اور دیگر بنیادی مسائل شامل ہیں اہمیت سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر وہ بحث اور مباحثوں کا فقدان پہلے بھی تھا اور آج بھی نمایاں ہے۔ سیاسی جلسے ہوں، جلوس ہوں، ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر چلنے والی انتخابی مہم یا اس سے جڑے پروگرام سب پر الزامات کی سیاست کا غلبہ ہے۔
ہمارے مسائل کیسے حل ہوںگے او رکون حل کرے گا یا اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کیا ہوںگی اس پر محض سوالیہ نشانوں کا غلبہ ہے۔کوئی سنجید ہ سیاسی بحث انتخابی سیاست کا نہ پہلے کبھی حصہ تھی اور نہ آج یہ بحث نظر آتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے اصل مسائل کے مقابلے میں جذباتیت کو پیدا کرنا ، سیاسی مخالفین کے خلاف منفی مہم اور ووٹرز کو سیاسی طور پر گمراہ کرنے یا دولت و پیسے کی ریل پیل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
الیکشن کمیشن ہویا انتخابات کے انعقاد سے جڑے ادارے سب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں اور یہ ادارے اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد وضوابظ اور فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت سے یا تو محروم ہیں یا ان پر بھی سیاسی سمجھوتوں کی سیاست کا غلبہ ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ مضبوط، مربوط اور مستحکم سیاسی نظام یا انتخابی نظام ہماری ریاستی ترجیحات میں بہت پیچھے کھڑا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں میں اگر تبدیلی کی کوئی خواہش بھی ہو تو طاقت ور افراد یا ادارے مداخلت کرتے ہیں تو سیاسی و انتخابی نظام اپنی افادیت یا ساکھ کو قائم نہ کرسکے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں بلکہ ایک بڑے انتشار کی سیاست کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
انتشار، محاز آرائی اورٹکراؤ کی سیاست کا عملی نتیجہ معیشت کی بدحالی یا اداروں کی کمزوری کی صورت میں آتا ہے۔ اسی طرح تبدیلی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرکے ہم سیاسی وجمہوری نظام کو بھی عملا کمزور کرتے ہیں اور لوگوں کا اس نظام پر موجود اعتماد اور زیادہ کمزور بھی ہوتا ہے او رلوگ سیاسی نظام سے لاتعلقی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں سیاست، جمہوریت یا انتخابات کی صورت میںشفافیت یا اصلاحات پر توجہ دی جاتی ہے تو اس کی اہم وجہ لوگوں کا ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم کسی کی حمایت اور مخالفت میں سیاسی اتحاد مصنوعی انداز میں تشکیل دیں، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کریں، نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کریں یا ووٹ کی بنیاد پر حکومت کی تبدیلی کی سوچ سے گریز کیا جائے یا کسی کے اقتدار اورکسی کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کو ترتیب دیا جائے تو مجموعی انتخابی نظام کی شفافیت اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔
اگر واقعی ہم نے سیاست اور جمہوریت یا انتخابات کو بنیاد بنا کر حقیقی تبدیلی کی جنگ لڑنی ہے تو اس لڑائی میں ابھی بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ یہ مشکلات کا خاتمہ ایک بڑی جدوجہد مانگتا ہے مگر اس جدوجہد کے لیے پہلے ایک بڑے روڈمیپ پر مبنی اتفاق رائے درکار ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہم شفاف انتخابی نظام اور تبدیلی کے حقیقی عمل کو بذریعہ انتخابات پورا کرسکتے ہیں ۔
یہ ہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی نظام کی بڑی خرابی ہی یہ ہے کہ جہاں ووٹرز بھی عدم اعتماد کا شکار ہے اور خود کو وہ کنجی سمجھنے کے بجائے بڑی طاقت ور قوتوں کو ہی تبدیلی کا اصل مہرہ سمجھتا ہے۔اسی بنیاد پر ہمارے سیاسی، جمہوری اور انتخابی نظام پر سوالات اٹھتے ہیں اور لوگ سوا ل اٹھاتے ہیں کہ ہماری جمہوری بساط کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
موجودہ انتخابات جو 8فروری 2024کو ہونے ہیں ۔ اگرچہ آج بھی انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر ابہام پایا جاتا ہے مگر ا س ابہام کو ہم دور کرلیں اور سمجھ لیں کہ اب انتخابات ہر صورت میں مقررکردہ تاریخ یعنی 8فروری 2024کو ہی ہوں گے۔ لیکن انتخابی پراسس اور نتائج کے بعد ہارنے والے کیا موقف اختیار کریں گے ، یہ سوال زیر بحث ہے۔
الیکشن سے پہلے ہمیں سیاسی محاذ پر ایک بڑی گہری تقسیم نظر آتی ہے۔ اسی تقسیم کی بنیاد پر بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اس بار انتخابات کی سیاست روائتی طرز پر آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ بہت سے لوگ ان انتخابات کو غیر معمولی طور پر دیکھ رہے ہیں اور ان کے بقول غیر معمولی حالات میں غیرمعمولی انتخابات کا کھیل نمایاں نظر آتا ہے۔
انتخابی سیاست کو دیکھیں تو اس میں پانچ پہلو نمایاں ہیں۔ اول انتخابات سے پہلے انتخابی نتائج کی بحث یا حکومت کس کی بننی ہے اس پر پہلے سے اتفاق رائے کی سیاست کا غلبہ بالادست نظر آتا ہے۔ دوئم وہی پرانی سیاست کے کھلاڑی، پرانی سیاسی حکمت عملیوں کے تحت سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں۔ طاقت ور امیدوار اقتدار میں دکھائی دینے والی جماعت مسلم لیگ ن میں شمولیت کررہے ہیں۔
شہری سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کا نمایاں نظر آنا، سوئم لاڈلے کی بنیاد پر سیاسی بحث اور ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کی سیاسی بحث کو نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔چہارم یہ کھیل ماضی کے اس کھیل کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے جہاں طاقت کا مرکز سیاسی قوتیں یا ووٹرز نہیں بلکہ طاقت کی اصل مراکز ہیں او ران ہی کی حکمت عملی کی بنیاد پر سیاسی تبدیلی کا عمل ممکن ہوگا۔
ووٹرز اور انتخابات بنیادی طو رپر کسی کی عملی طور پر حمایت او ر مخالفت کی بنیاد پر غالب نظر آئے گی۔ پنجم سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایشوز کی بنیاد پر یا انتخابی منشور کی بنیاد پر انتخابی مہم کے مقابلے میں وہی پرانا روائتی اور فرسودہ کھیل عروج پر نظر آبھی رہا ہے اور مزید دیکھنے کو ملے گا۔
بدقسمتی سے ریاستی محاذ پر جو بڑے سنگین نوعیت کے مسائل جن میں سیاست ، معیشت، یا وہ مسائل جو عام آدمی کی زندگی سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں جن میں مہنگائی ,بے روزگاری اور دیگر بنیادی مسائل شامل ہیں اہمیت سے بہت دور کھڑے نظر آتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر وہ بحث اور مباحثوں کا فقدان پہلے بھی تھا اور آج بھی نمایاں ہے۔ سیاسی جلسے ہوں، جلوس ہوں، ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر چلنے والی انتخابی مہم یا اس سے جڑے پروگرام سب پر الزامات کی سیاست کا غلبہ ہے۔
ہمارے مسائل کیسے حل ہوںگے او رکون حل کرے گا یا اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کیا ہوںگی اس پر محض سوالیہ نشانوں کا غلبہ ہے۔کوئی سنجید ہ سیاسی بحث انتخابی سیاست کا نہ پہلے کبھی حصہ تھی اور نہ آج یہ بحث نظر آتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے اصل مسائل کے مقابلے میں جذباتیت کو پیدا کرنا ، سیاسی مخالفین کے خلاف منفی مہم اور ووٹرز کو سیاسی طور پر گمراہ کرنے یا دولت و پیسے کی ریل پیل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
الیکشن کمیشن ہویا انتخابات کے انعقاد سے جڑے ادارے سب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں اور یہ ادارے اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد وضوابظ اور فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی صلاحیت سے یا تو محروم ہیں یا ان پر بھی سیاسی سمجھوتوں کی سیاست کا غلبہ ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ مضبوط، مربوط اور مستحکم سیاسی نظام یا انتخابی نظام ہماری ریاستی ترجیحات میں بہت پیچھے کھڑا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں میں اگر تبدیلی کی کوئی خواہش بھی ہو تو طاقت ور افراد یا ادارے مداخلت کرتے ہیں تو سیاسی و انتخابی نظام اپنی افادیت یا ساکھ کو قائم نہ کرسکے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی و معاشی استحکام نہیں بلکہ ایک بڑے انتشار کی سیاست کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
انتشار، محاز آرائی اورٹکراؤ کی سیاست کا عملی نتیجہ معیشت کی بدحالی یا اداروں کی کمزوری کی صورت میں آتا ہے۔ اسی طرح تبدیلی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرکے ہم سیاسی وجمہوری نظام کو بھی عملا کمزور کرتے ہیں اور لوگوں کا اس نظام پر موجود اعتماد اور زیادہ کمزور بھی ہوتا ہے او رلوگ سیاسی نظام سے لاتعلقی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی معاشرے میں سیاست، جمہوریت یا انتخابات کی صورت میںشفافیت یا اصلاحات پر توجہ دی جاتی ہے تو اس کی اہم وجہ لوگوں کا ریاستی و حکومتی نظام پر اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم کسی کی حمایت اور مخالفت میں سیاسی اتحاد مصنوعی انداز میں تشکیل دیں، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کریں، نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کریں یا ووٹ کی بنیاد پر حکومت کی تبدیلی کی سوچ سے گریز کیا جائے یا کسی کے اقتدار اورکسی کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی کو ترتیب دیا جائے تو مجموعی انتخابی نظام کی شفافیت اپنی افادیت کھو دیتی ہے۔
اگر واقعی ہم نے سیاست اور جمہوریت یا انتخابات کو بنیاد بنا کر حقیقی تبدیلی کی جنگ لڑنی ہے تو اس لڑائی میں ابھی بہت سی مشکلات موجود ہیں۔ یہ مشکلات کا خاتمہ ایک بڑی جدوجہد مانگتا ہے مگر اس جدوجہد کے لیے پہلے ایک بڑے روڈمیپ پر مبنی اتفاق رائے درکار ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہم شفاف انتخابی نظام اور تبدیلی کے حقیقی عمل کو بذریعہ انتخابات پورا کرسکتے ہیں ۔