ایوان صدر کا تاریخی دن
میں تاریخ کا ایک تلخ اور حیران کن باب رقم ہوتے دیکھ رہا تھا
یہ بات جولائی1993کی ہے۔ ایوان صدر میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان، وزیر اعظم نواز شریف،چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ ایک ہی کمرے میں خاموش بیٹھے تھے۔
ایک فائل میں صدر مملکت غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے لیے تحریر کردہ استعفے موجود تھے لیکن دستخط کا انتظار تھا۔ پی ٹی وی کے چیف رپورٹر کے طور پر میں اپنے کیمرہ مین کے ساتھ اس کمرے کے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد سرتاج عزیز کے ہمراہ شیروانی پہنے ایک دبلا پتلا شخص ایوان صدر کی لفٹ سے نکل کر اس کمرے کی جانب بڑھا۔ دروازے پر سب سے آگے میں کھڑا تھا ،اس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو سرتاج عزیز صاحب نے کہا، یہ ہیں معین قریشی صاحب ۔ کیمرہ مین فوراً فلمبندی کرنے لگا، صدر 'وزیر اعظم اور آرمی چیف کھڑے ہوئے اور مصافحہ شروع ہوا۔
میں تاریخ کا ایک تلخ اور حیران کن باب رقم ہوتے دیکھ رہا تھا۔ نواز شریف صاحب، جنرل کاکڑ اور وسیم سجاد صاحب کے چہرے بتا رہے تھے کہ انھوں نے زندگی میں پہلی بار معین قریشی کو دیکھا ہے۔ البتہ غلام اسحاق خان ان کے شناسا لگ رہے تھے۔پھر استعفیٰ کی فائل نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے سامنے رکھ دی گئی، دستخط ہو رہے تھے، میں نے کیمرہ مین کے کان میں کہا کہ یہ ایک تاریخی دستاویز ہے، کوئی شارٹ رہ نہ جائے، صدر اور وزیر اعظم کے بعد یہ فائل جنرل کاکڑ کی جانب بڑھائی گئی، فلمبندی جاری تھی، جیسے ہی فلم بندی مکمل ہوئی۔
ایوان صدر کے ایک اہم ترین افسرنے کہا یہ فلم مجھے دیدیں،اسے نشر نہیں کرنا۔ افسوس کہ ہمارے سیاسی نظام کی یہ اہم وڈیو دستاویز پی ٹی وی کے آرکائیو کا حصہ نہ بن سکی۔ ابھی یہ مرحلہ جاری تھا کہ صدر کے ملٹری سیکریٹری نے مجھے کہا کہ غلام اسحاق خان ایوان صدر سے براہ راست قوم سے خطاب کرنا چاہتے ہیں، میں نے بتایا کہ ہمارے پاس صرف ایک چھوٹا کیمرہ ہے جب کہ ریکارڈنگ کے لیے پورا سامان ہونا چاہیے، اس کے لیے صدر صاحب کو ٹی وی اسٹوڈیو جانا ہوگا یا پھر پورا سامان یہاں منگوانا ہوگا۔
ملٹری سیکریٹری یہ باتیں سن کر چلا گیا،کچھ ہی دیر بعد وہ آئے اور کہنے لگے کہ کسی خصوصی انتظام کی ضرورت نہیں ،آپ اپنے نیوز کیمرے کے ذریعے صدر کا خطاب ریکارڈ کر لیں اور پھر اسے ٹی وی اسٹیشن لے جا کر فوراً نشر کرا دیں۔ ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ صدر غلام اسحاق خان آگئے اور کرسی پر بیٹھ گئے، یوں ریکارڈنگ شروع ہوئی۔
صدر مملکت کی ریکارڈنگ کے دوران ایوان صدر کے عملے کا کوئی فرد موجود نہ تھا حتی کہ ملٹری سیکٹری بھی صدر کو کمرے میں چھوڑ کر جا چکے تھے جو میرے لیے انتہائی حیران کن بات تھی۔
ریکارڈنگ کی ٹیپ لے کر میں پی ٹی وی سینٹر پہنچا، میں نے یہ ٹیپ ڈائریکٹر نیوز شکور طاہر کے حوالے کی اور ایوان صدر کی ہدایت بھی بتائی کہ اسے فورا نشر کیا جائے، اس وقت وہاں پر چیئرمین پی ٹی وی شاہد رفیع بھی موجود تھے۔ٹیپ ان کے حوالے کر کے میں ایوان صدر واپس پہنچا تو ملٹری سیکریٹری کے ساتھ بریگیڈیر عجائب کھڑے تھے،انھوں نے پوچھا کہ صدر کا خطاب ابھی تک کیوں نہیں نشر ہوا، ٹی وی والے کہتے ہیں کہ انھیں ٹیپ ابھی تک نہیں ملی، آپ نے ٹیپ کس کو دی ہے۔ میں نے انھیں جب تفصیل بتائی تو وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اسی کمرے میں چلے گئے جہاں سب وی آئی پی بیٹھے ہوئے تھے۔ (اس عرصے میں نواز شریف ایوان صدر سے جا چکے تھے)۔
بریگیڈیر عجائب نے انھیں بتایا کہ یہ صاحب بتا رہے ہیں کہ انھوں نے ٹیپ شاہد رفیع اور ڈائریکٹر نیوز کے حوالے کی ہے (اس وقت شاہد رفیع کے پاس سیکریٹری انفارمیشن اور چیئرمین پی ٹی وی ،کا چارچ تھا اور انھیں نواز شریف کا خاص آدمی تصور کیا جاتا تھا)۔یہ تفصیل سن کر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف کے درمیان آنکھوں کے اشارے ہوئے اور مجھے کہا گیا کہ آپ جا سکتے ہیں، اسی اثنا میں جنرل کاکڑ نے فوجی افسر کو کہا کہ کمانڈر 10 کور کو کہو کہ صدر کا خطاب فورا نشر کروایا جائے۔کچھ ہی دیر بعد صدر کا خطاب پاکستان ٹیلی ویڑن سے نشر کر دیا گیا۔
خطاب کے بعد غلام اسحاق خان ایوان صدر کی لفٹ کی جانب بڑھے اس موقع پر کوئی پروٹوکول نہ تھا سبھی لوگ نئے صدر وسیم سجاد اور وزیر اعظم معین قریشی کے گرد تھے۔ ہم نے لفٹ کا دروازہ بند ہونے کا منظرفلمبند کیا، جو غالباًآج بھی پی ٹی وی آرکائیو میں محفوظ ہو گا۔ اب وسیم سجاد، معین قریشی اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی صاحب وہاں رہ گئے، وسیم سجاد صاحب کا حلف ہوا پھر انھوں نے معین قریشی صاحب سے حلف لیا اور یوں یہ تاریخی لمحات ختم ہوئے ، اس منظر نامے کی تفصیل پھر کبھی سہی۔