سوشل سیکیورٹی کی نادہندگان کیخلاف کارروائیاں 50 کروڑ روپے کے واجبات وصول
بینیفٹ موبائل اپیلی کیشن سے رجسٹرڈ ورکرز کو دفاتر کے غیر ضروری چکروں سے چھٹکارا مل گیا ہے
پنجاب سوشل سیکیورٹی نے نادہندگان سے واجبات وصولی کی مہم شروع کر دی ہے اور ابتک 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی گئی ہے۔
سوشل سیکیورٹی نے رجسٹریشن نہ کروانے والے صنعتی یونٹوں، ہاؤسنگ اسکیموں، تعلیمی اداروں، کارخانوں اور فیکٹریوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کمشنر سوشل سیکیورٹی نادیہ ثاقب نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ایسے تمام نجی ادارے جہاں پانچ یا پانچ سے زائد افراد ملازم ہوں، پنجاب ایمپلائز سوشل سیکیورٹی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور اُنھیں قانونی طور پر خود کو اِس ادارے کے پاس رجسٹر کروانا ضروری ہے۔ صنعتی اور تجارتی اداروں کے مالکان اپنے ورکرز کی تنخواہ کا 6 فیصد سوشل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرواتے ہیں، جس سے ورکرز کو مالی مراعات کے ساتھ، علاج معالجے کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی ادارہ رجسٹریشن نہیں کرواتا تو اُس پر جرمانہ کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل سیکیورٹی سے رجسٹرڈ اداروں کے کارکنان کی فیملی اور والدین کو سوشل سیکیورٹی کی جانب سے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، سوشل سیکیورٹی پنجاب کے زیر انتظام صوبے بھر میں 24بڑے، 3چھوٹے اسپتال، 50میڈیکل سینٹرز، 131 ڈسپینسریز اور 76 ایمرجینسی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ ادارہ رجسٹرڈ کارکنان کو بوقتِ ضرورت بیرونِ مُلک علاج کی سہولت بھی مہیا کر رہا ہے۔
نادیہ ثاقب نے مزید بتایا کہ کسی کارکن کی وفات کی صورت میں تجہیز و تکفین، ایامِ عدّت کے دَوران مالی معاونت، دَورانِ علاج روزانہ کی بنیاد پر خوراک کی فراہمی کا خرچہ، مریضوں کو اسپتال آنے جانے کا کرایہ، خواتین کارکنان کے لیے زچگی کے اخراجات، حادثے کی صُورت میں علاج معالجہ اور تاحیات پینشن کے علاوہ بھی مختلف مَد میں مالی معاونت کی جاتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب سوشل سیکیورٹی کی طرف سے 11لاکھ سے زائد مزدوروں کو پنجاب مزدور کارڈ دیے جا رہے ہیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں۔ اس کارڈ سے مزدوروں کو 11 اقسام کی سہولتیں میّسر ہیں، اسے بطور اے ٹی ایم کارڈ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، ورکرز کو دُکانوں اور اسٹورز پر نہ صرف کارڈ سوائپ کرنے کی سہولت میّسر ہے بلکہ وہ 150 سے زائد تجارتی/کمرشل پوائنٹس پر 5 سے 30 فی صد تک رعایت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ، پنجاب بھر میں بینیفٹ موبائل اپیلی کیشن کا نفاذ کیا گیا ہے، موبائل اپیلی کیشن سے رجسٹرڈ ورکرز کو دفاتر کے غیر ضروری چکروں سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ وہ اپنی درخواستیں مکمل کوائف کے ساتھ ایپ پر اَپ لوڈ کریں گے، جس کے 10 دن کے اندر اُنھیں بذریعہ بینک اکاؤنٹ رقوم مل جائے گی۔
ان سہولیات کے باوجود آج بھی سیکڑوں ادارے خاص طور پر نجی اسکول، کارخانے، فیکٹریاں، اسٹور ایسے ہیں جہاں پانچ سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں لیکن وہ سوشل سیکیورٹی کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں جبکہ ایسے رجسٹرڈ اداروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جو رجسٹرڈ ہیں لیکن گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ملازمین کا کنٹری بیوشن فنڈ جمع نہیں کروا رہے ہیں جس سے ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو سہولیات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سوشل سیکیورٹی حکام کے مطابق تاریخ میں پہلی بار سوشل سکیورٹی سے رجسٹرڈ عر صہ دراز سے نادہندہ صنعتی و کمرشل اداروں سے واجبات کی وصولی کیلئے مزدور خوشحال مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب بھر میں واجبات کی وصولی کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئیں ہیں۔ پنجاب بھر میں قائم سوشل سکیورٹی کے 22 ڈائریکٹوریٹس میں قائم خصوصی ٹیمیں واجبات کی وصولی کیلئے کاروائیاں کر رہی ہیں اور اب تک نادہندگان یونٹس سے 500 ملین (50کروڑ روپے) سے زائد کی تاریخ ساز ریکوری کی گئی ہے۔
کمشنر سوشل سیکیورٹی نادیہ ثاقب ریکوری کیلئے قائم خصوصی ٹیموں کو خود مانیٹر کر رہی ہیں۔ پنجاب سوشل سکیورٹی کی تاریخ میں پہلی بار نادہندگان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ کارروائیوں پر فیلڈ ڈائریکٹرز سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ حاصل کی جا رہی ہے۔
نادیہ ثاقب کا کہنا ہے کہ نادہندگان کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں جاری ہیں اور ڈائریکٹرز کو ماہانہ سوشل سیکیورٹی کنٹری بیوشن ٹارگٹس کو بھی ہر صورت پورا کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ پنجاب بھر میں ہر ایریا آفیسر کے ایریا سے 50 بڑے نادہندگان سے واجبات کی وصولی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ انڈسٹریل یونٹس، ہاوسنگ سوسائٹی، پرائیویٹ اسکول، ہوٹل و دیگر کمرشل یونٹس سے واجبات کی وصولی کی جا رہی ہے۔