کوچۂ سخن
غزل
یہ سہولت بھی وسائل میں نہیں آ سکتی
ہر غزل میرے فضائل میں نہیں آ سکتی
تیری دوری نے پریشان کیا ہے لیکن
تو مرے ذاتی مسائل میں نہیں آ سکتی
آپ کی بات کو لائیں بھی تو کس زمرے میں
سب سے پہلے تو دلائل میں نہیں آ سکتی
میرے کچھ کام کسی اور توسط سے ہوئے
یوں بھی ہر چیز خصائل میں نہیں آ سکتی
یہ سخن سازی حقیقت میں صدا کاری ہے
اور صدا کاری اوائل میں نہیں آ سکتی
وہ نفاست سے الگ کر کے گیا ہے سب کو
کوئی تبدیلی قبائل میں نہیں آ سکتی
(دانیال زمان۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
ایسے غفلت میں مت گنواؤ مجھے
بار ہا سوچ کر بتاؤ مجھے
خشک سالی سے تھک گیا ہوں میں
اپنے اندر کہیں بہاؤ مجھے
ٹھنڈ میں اُس کے لمس کی نعمت
کافی بہتر ہے یہ الاؤ مجھے
ڈھیل وابستگی مٹا دے گی
جلدی آکر گلے لگاؤ مجھے
جیسے نصرت کے راگ بہلائیں
ایسے لہجے میں گنگناؤ مجھے
جنگ میں موت زندگی ہے مری
گہرا لگتا نہیں یہ گھاؤ مجھے
(عظیم کامل۔ جام پور)
۔۔۔
غزل
گلاب چہرہ ،شراب آنکھیں
محبتوں کا نصاب آنکھیں
کسی کا دیدار ہو گیا ہے
سو ہو گئیں باریاب آنکھیں
یہ بزمِ عالم چمک اُٹھے گی
جوتُونے کیں بے حجاب آنکھیں
ابھی فلک پہ ہوئی ہیں روشن
مثالِ انجم شہاب آنکھیں
خزاں میں بھٹکیں چمن چمن میں
لیے تلاش ِ گلاب آنکھیں
مِرے خیالوں کے دشت وبن پر
برس رہی ہیں سحاب آنکھیں
(اقبال جعفر۔دُرگ، ضلع موسی خیل ،بلوچستان)
۔۔۔
غزل
بیٹھا ہوں راہ میں اب جسم کا ملبہ رکھے
سوچتا ہوں کہاں انسان یہ لاشہ رکھے
جان کی بات، دل و جان سے پیاری ہے مجھے
التجا اس کی نہ کیوں حکم کا درجہ رکھے
تھک چکا ہوں میں محبت کے دلاسے دے کر
کون اب خواہشوں کی قبر پہ کتبہ رکھے
اُس سے کہنا کہ سرِ بزم ، تماشا نہ کرے
اپنے حصے میں ذرا سامرا حصہ رکھے
کل تلک جس کو امیری کا نشہ تھا نجمیؔ
آج وہ بیٹھا ہے فٹ پاتھ پہ کاسہ رکھے
(رمضان نجمی۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
یونہی نہیں وہاں پہ دوبارا گیا ہوں میں
اس سمت سے ملا تھا،اشارا، گیا ہوں میں
ہر سنگ آ کے ٹھیک نشانے پہ ہے لگا
کس کی گلی سے آج گزارا گیا ہوں میں
اب کون میری تشنہ لبی کا یقیں کرے
ساحل پہ اک فرات کے مارا گیا ہوں میں
دیکھو مجھے بھی صورتِ تنزیلِ قدسیہ
اک آدمی کے دل پہ اتارا گیا ہوں میں
مجھ پر بہار تھی تو خریدا نہ جا سکا
اب رت نہیں رہی تو ادھارا گیا ہوں میں
اعجاز لاکھ ضعفِ جسامت کے با وجود
جس وقت مجھ کو اس نے پکارا، گیا ہوں میں
(احسن اعجاز۔میاں چنوں)
۔۔۔
غزل
اتنی بھی یار سخاوت نہیں کرنے والا
عشق میں کوئی شراکت نہیں کرنے والا
لوگ آئیں گے بہت زیست میں دیکھو لیکن
میں ترے بعد محبت نہیں کرنے والا
تو مجھے دیکھ یا نہ دیکھ مگر میری جاں
میں ترے گاؤں سے ہجرت نہیں کرنے والا
میں طرف دار اجالوں کا ہمیشہ سے رہا
ظلمتِ شب کی حمایت نہیں کرنے والا
میری قیمت ہے فقط تیری محبت طیب
اپنی قیمت میں رعایت نہیں کرنے والا
(طیب حسن طیب۔بھلوال)
۔۔۔
غزل
گھروں کو چھوٹا دلوں کو کشادہ تر رکھا
یوں شاخِ نخلِ تمنا کو بے ثمر رکھا
گزید گی سے میں ڈرتا تھا اس لیے میں نے
کتابِ عمر کا ہر باب مختصر رکھا
مجھے یوں جانبِ پندار زندگی لائی
مرے زیاں سے مری ماں کو بے خبر رکھا
کھلا نہیں ابھی دستِ بریدہ تجھ پہ اگر
تو اس فقیر کے کاسے میں کیوں یہ زر رکھا
چراغ زیست تھا روشن ہوا کی زد میں احد
زیاں کدے میں تھا تو خود کو بے سپر رکھا
(زبیر احد۔فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
دور سے دیکھو، ملاقات نہیں ہو سکتی
یہ بھی کیا بات ہوئی، بات نہیں ہوسکتی
چاند تاروں کی نمائش تو دکھاوا ہے میاں
ہو نہ محبوب، حسیں رات نہیں ہو سکتی
تجھ کو کھونے کا میں تو حوصلہ بھی رکھتا ہوں
اِس کا مطلب ہے مجھے مات نہیں ہو سکتی
چوں کہ ہر چیز کی حد بندی مقرر ہے میاں
اس قدر غم کی بھی بہتات نہیں ہو سکتی
آپ کا مسئلہ ہے ذات و نسب، ہو سو ہو
مجھ سے درویش کی تو ذات نہیں ہو سکتی
دید کے خالی کٹوروں کو لیے گھر جاؤ
مفلسو! جاؤ کہ خیرات نہیں ہو سکتی
آؤ چپکے سے ذرا آنکھوں پہ تم ہاتھ رکھو
کیا شرارت یہ مرے ساتھ نہیں ہو سکتی؟
(ثمرؔ جمال۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
لگیں گے زخم بہت! چارہ گر نہیں ملے گا
سفر ملے گا مگر ہم سفر نہیں ملے گا
میں رائیگاں ہی چلا جا رہا ہوں اس کی طرف
مجھے پتہ ہے مرا بے خبر نہیں ملے گا
ہمارے غم میں بھلا کس طرح کمی ہوگی؟
گلے لگا کے ہمیں تو اگر نہیں ملے گا
نظر سے اس طرح اوجھل ہوا کہ پھر نہ دِکھا
میں سوچتا تھا اسے کوئی در نہیں ملے گا
ہمارا پیار کہیں بانٹ آیا ہے اب کہ
ہمیں ملا بھی تو وہ ٹوٹ کر نہیں ملے گا
محبتوں میں کوئی جیت ہار! فائدہ کیا؟
ہمیں خبر ہے ہمیں کچھ ثمر نہیں ملے گا
یہ بات جان کے دل بجھ گیا ہمارا حسن
بہت ملیں گے ہمیں! وہ مگر نہیں ملے گا
(حسن رضا۔چک بیلی خان)
۔۔۔
غزل
یا تو ہر عیب مری ذات میں رکھاجائے
یا مجھے عالمِ خدشات میں رکھا جائے
ربّ نے جب خوبیاں بانٹی تو اشارے سے کہا
صبر کو حلقۂ سادات میں رکھا جائے
تیری آواز سے بیمار شِفا پاتے ہیں
تیرا لہجہ ہے کہ سوغات میں رکھا جائے
میری خوش بختی کے آثار مٹانے کے لیے
چھے برس تک مجھے صدمات میں رکھا جائے
پہلے مٹی سے مرے خوابوں کو بُن دیتا ہے
پھر یہ کہتا ہے کہ برسات میں رکھاجائے
تیرے آنے سے ہوا جیسے مرا رزق وسیع
اب ترا نام بھی برکات میں رکھا جائے
( تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
تیرا شکوہ ہے ملاقات نہیں کرتا وہ
جبکہ مطلب کے بنا بات نہیں کرتا وہ
دوسرے لوگ بھی محروم رہا کرتے ہیں
ہم فقیروں پہ بھی خیرات نہیں کرتا وہ
دن کے ہر گھنٹے کی تفصیل الگ لیتا ہے
اور کہنے کو سوالات نہیں کرتا وہ
ڈالتا ہے وہ چمکدار ستاروں پہ کمند
عام لوگوں سے کبھی ہاتھ نہیں کرتا وہ
اس کی ہی مرضی سے چلتی ہے محبت کی گھڑی
دن نہیں کرتا کہیں رات نہیں کرتا وہ
(خلیل الرحمن حماد۔قلعہ دیدار سنگھ)
۔۔۔
''جیو اُس زندگی کو''
کسی کی آنکھ کی اُترن کسی بھی آنکھ کو پوری نہیں آتی
جیو اُس زندگی کو جس کا تم محصول بھرتے ہو!
اتر جاو نئی دنیا کے خوشبو دار باغوں میں
یہی وہ باغ ہیں
جن کی نگہبانی میں گزری ہے تمہاری عمر
تم صبحِ ازل سے پوچھتے آئے
ہمارے سوٹ کیسوں میں بھری اِن آرزوؤں کا ٹھکانہ؟
آؤ،
تھوڑا اور قریب آؤ کہ تم یہ جان لو
شہرِ خدا میں داخلہ ہو جائے جب
تم آخری موسم سے پہلے کھول دینا سوٹ کیسوں کو!
تمہارا بوجھ ہلکا ہونے پر
تم صاف پانی میں وہ سب کچھ دیکھ پاؤ گے
جسے تم بوجھ کہتے ہو تمہارا عکس ہی تو ہے!
جسے اِک عمر سے تم نے
اندھیرے میں کہیں پر قید کر رکّھا تھا
تم نے رقص کی مشقیں اکیلے کیں
تمہارے روبرو کوئی نہ تھا ورنہ
تمہارا رقص تو ترتیب میں ہوتا!
ریاکاری کے سارے رنگ
تم پر خوب جچتے ہیں کہ تم بھی
زندگی کی روشنی سے بے خبر ہو...
زندگی کی روشنی سے بے خبر انساں!
پریشانی،.... پشیمانی کے پہلو میں
تمہاری منتظر بیٹھی ہوئی ہے
سو چمن ویران ہونے سے تو اچّھا ہے
پلٹ جاؤ لطیفوں کے جہاں سے اور
جیو اُس زندگی کو جس کا تم محصول بھرتے ہو
(توحید زیب۔ رحیم یار خان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی