کھربوں کے قرضے مگر عوام پھر بھی غریب
قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرض لینے پڑ رہے ہیں جو مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں کئی ممالک کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں جلد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں آئے گی۔یہ سرمایہ کاری معدنیات ،آئی ٹی، زراعت اور دیگر شعبوں میں کی جائیں گی۔
حکومت خسارے میں چلنے والے ریاستی ملکیتی اداروں کی نج کاری پر تیزی سے کام کر رہی ہے جس کے ٹھوس نتائج جنوری کے وسط میں سامنے آجائیں گے۔ حکومت کی پہلی ترجیح پی آئی اے کی نجکاری ہے۔
یاد رہے کہ پی آئی اے پر قرضہ ساڑھے سات سو ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس ادارے کی حالت اتنی خراب ہے کہ بیرون ملک کے علاوہ اندرون ملک بہت سے شہروں کی پروازیں ختم کرنی پڑی ہیں۔ اس بناء پر بینکوں نے اسے مزید قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ پی آئی اے کے پاس ائیر فیول خریدنے کے پیسے نہیں رہے۔
دوسری طرف پاکستان ریلوے کا ادارہ ہے ۔ اس کا بھی حال پی آئی اے سے کم برا نہیں۔ یہ دونوں ادارے بہت بڑے خسارے میں جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں یکے بعد دیگرے ٹرینوں کے بڑے حادثات ہوئے جس میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ انکوائری کمیٹی بیٹھی لیکن کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی سوائے تبادلوں کے، جب کہ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔
ٹرین حادثے کی انکوائری رپورٹ بتاتی ہے کہ جائے حادثہ پر ٹرین کی پٹری کو لکڑی کے ٹکڑے سے جوڑا گیا تھا۔ دنیا بھر میں محفوظ ترین سفر ٹرین کا سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں موت کا سفر بن گیا ہے۔ موٹر ویز بن گئیں لیکن ہم 76برسوں سے پورے ملک میں ریل کی نئی پٹری نہیں بچھاسکے۔ اب اسٹیل مل کا قصہ بھی سن لیں یہ پانچ سال سے بند بڑی ہے لیکن ملازمین کی تنخواہوں پر 6ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
ماضی میں اسٹیل مل کے خریدار بھی تھے۔ اچھے داموں بک بھی سکتی تھی۔ اب کوڑیوں کے مول بھی لینے کو کوئی تیار نہیں۔ اب مافیاز اس کی اربوں کھربوں کی زمین پر گدھ کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کہتے ہیں اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور ریاست کے زیر ملکیت اداروں کی نجکاری کو فاسٹ ٹریک پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ان اداروں میں کرپشن اس بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے کہ یہ تمام ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے چھوٹے سے بڑے اہلکاروں کا لائف اسٹائل دیکھیں۔ ان کے قیمتی لباس جوتے گھڑیاں بہترین پوش علاقوں میں گھر، مہنگے اسکولوں میں زیر تعلیم ان کے بچے ان کی کرپشن کا ٹھوس ثبوت ہیں۔
پچھلے 40برسوں سے وہ زمانہ آچکا ہے کہ اب کرپشن کو برا نہیں بلکہ اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ لاکھوں کی کرپشن کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے کیونکہ اب تو کرپشن کا حجم کروڑوں سے اربوں تک پہنچ چکا ہے۔ بیورو کریسی خاص طور پر اعلیٰ بیورو کریسی کے اللے تللے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اعلیٰ ترین اسکیل کی تنخواہ 40لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اعلیٰ ترین بیورو کریٹس اپنی پینشن ڈالروں میں بیرون ملک وصول کر رہے ہیں۔
جب کہ رواں مالی سال میں جون تک پاکستان نے 25ارب ڈالر سود ادا کرنا ہے۔ یہ کہاں سے ادا ہوگا؟ ہمارے قرضوں کا حجم اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہماری پوری قومی آمدن بھی اس سود کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہے۔
ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرض لینے پڑ رہے ہیں۔ جو مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے جو اس وقت 42فیصد پر پہنچ چکی ہے۔
1947 سے 2008تک پاکستان مجموعی طور پر 6127 ارب روپے کا مقروض تھا۔ 2013 تک پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ قرضہ 8165 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور حکومت نے یہ قرضہ 24953 ارب روپے پر پہنچا دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ 39859 پر پہنچ گیا۔
آج ملک پر واجب الادا قرضے 62000ارب روپے سے زائد ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بھی ان قرضوں میں صرف ایک سال کے عرصہ میں 13638 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اور موجودہ نگران حکومت کے مطابق اس مختصر دور میں معیشت سکڑی ہے کوئی معیشت کا فروغ نہیں ہوا۔ 2008سے 15سال کے مختصر عرصے میں پاکستان پر 55873 ارب روپے کا قرضہ مزید چڑھ گیا۔ ہے ناقابل یقین بات ۔
آخری سوال یہ ہے کہ یہ تمام قرضے جو عوامی فلاح و بہبود کے نام پر لیے گئے لیکن بجائے اس کے پاکستانی عوام خوش حال ہوتے آج ان کی 50فیصد کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے گر چکی ہے۔
یعنی رات کو انھیں بھوکے سونا پڑتا ہے۔ تو یہ قرضے گئے کہاں؟ قرائن بتاتے ہیں کہ حکمران طبقات ان قرضوں کا بیشتر حصہ ہڑپ کر کے بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں۔ استغفراﷲ
حکومت خسارے میں چلنے والے ریاستی ملکیتی اداروں کی نج کاری پر تیزی سے کام کر رہی ہے جس کے ٹھوس نتائج جنوری کے وسط میں سامنے آجائیں گے۔ حکومت کی پہلی ترجیح پی آئی اے کی نجکاری ہے۔
یاد رہے کہ پی آئی اے پر قرضہ ساڑھے سات سو ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس ادارے کی حالت اتنی خراب ہے کہ بیرون ملک کے علاوہ اندرون ملک بہت سے شہروں کی پروازیں ختم کرنی پڑی ہیں۔ اس بناء پر بینکوں نے اسے مزید قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ کیونکہ پی آئی اے کے پاس ائیر فیول خریدنے کے پیسے نہیں رہے۔
دوسری طرف پاکستان ریلوے کا ادارہ ہے ۔ اس کا بھی حال پی آئی اے سے کم برا نہیں۔ یہ دونوں ادارے بہت بڑے خسارے میں جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں یکے بعد دیگرے ٹرینوں کے بڑے حادثات ہوئے جس میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ انکوائری کمیٹی بیٹھی لیکن کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی سوائے تبادلوں کے، جب کہ خاندان کے خاندان اجڑ گئے۔
ٹرین حادثے کی انکوائری رپورٹ بتاتی ہے کہ جائے حادثہ پر ٹرین کی پٹری کو لکڑی کے ٹکڑے سے جوڑا گیا تھا۔ دنیا بھر میں محفوظ ترین سفر ٹرین کا سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں موت کا سفر بن گیا ہے۔ موٹر ویز بن گئیں لیکن ہم 76برسوں سے پورے ملک میں ریل کی نئی پٹری نہیں بچھاسکے۔ اب اسٹیل مل کا قصہ بھی سن لیں یہ پانچ سال سے بند بڑی ہے لیکن ملازمین کی تنخواہوں پر 6ارب روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
ماضی میں اسٹیل مل کے خریدار بھی تھے۔ اچھے داموں بک بھی سکتی تھی۔ اب کوڑیوں کے مول بھی لینے کو کوئی تیار نہیں۔ اب مافیاز اس کی اربوں کھربوں کی زمین پر گدھ کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ نگران وزیر اعظم کہتے ہیں اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور ریاست کے زیر ملکیت اداروں کی نجکاری کو فاسٹ ٹریک پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ان اداروں میں کرپشن اس بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے کہ یہ تمام ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے چھوٹے سے بڑے اہلکاروں کا لائف اسٹائل دیکھیں۔ ان کے قیمتی لباس جوتے گھڑیاں بہترین پوش علاقوں میں گھر، مہنگے اسکولوں میں زیر تعلیم ان کے بچے ان کی کرپشن کا ٹھوس ثبوت ہیں۔
پچھلے 40برسوں سے وہ زمانہ آچکا ہے کہ اب کرپشن کو برا نہیں بلکہ اس پر فخر کیا جاتا ہے۔ لاکھوں کی کرپشن کرنے والے کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے کیونکہ اب تو کرپشن کا حجم کروڑوں سے اربوں تک پہنچ چکا ہے۔ بیورو کریسی خاص طور پر اعلیٰ بیورو کریسی کے اللے تللے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اعلیٰ ترین اسکیل کی تنخواہ 40لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اعلیٰ ترین بیورو کریٹس اپنی پینشن ڈالروں میں بیرون ملک وصول کر رہے ہیں۔
جب کہ رواں مالی سال میں جون تک پاکستان نے 25ارب ڈالر سود ادا کرنا ہے۔ یہ کہاں سے ادا ہوگا؟ ہمارے قرضوں کا حجم اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہماری پوری قومی آمدن بھی اس سود کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہے۔
ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرض لینے پڑ رہے ہیں۔ جو مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے جو اس وقت 42فیصد پر پہنچ چکی ہے۔
1947 سے 2008تک پاکستان مجموعی طور پر 6127 ارب روپے کا مقروض تھا۔ 2013 تک پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں یہ قرضہ 8165 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے پانچ سالہ دور حکومت نے یہ قرضہ 24953 ارب روپے پر پہنچا دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ 39859 پر پہنچ گیا۔
آج ملک پر واجب الادا قرضے 62000ارب روپے سے زائد ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بھی ان قرضوں میں صرف ایک سال کے عرصہ میں 13638 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اور موجودہ نگران حکومت کے مطابق اس مختصر دور میں معیشت سکڑی ہے کوئی معیشت کا فروغ نہیں ہوا۔ 2008سے 15سال کے مختصر عرصے میں پاکستان پر 55873 ارب روپے کا قرضہ مزید چڑھ گیا۔ ہے ناقابل یقین بات ۔
آخری سوال یہ ہے کہ یہ تمام قرضے جو عوامی فلاح و بہبود کے نام پر لیے گئے لیکن بجائے اس کے پاکستانی عوام خوش حال ہوتے آج ان کی 50فیصد کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے گر چکی ہے۔
یعنی رات کو انھیں بھوکے سونا پڑتا ہے۔ تو یہ قرضے گئے کہاں؟ قرائن بتاتے ہیں کہ حکمران طبقات ان قرضوں کا بیشتر حصہ ہڑپ کر کے بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں۔ استغفراﷲ