دھواں دھواں

آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے عالی شان بنگلوں میں اداسی اور ویرانی بال کھولے سو رہی ہے

latifch@express.com.pk

صبح سے ہی میری طبیعت دھواں دھواں سی تھی' نمکین تھی نہ تیکھی تھی' کڑوی تھی نہ میٹھی تھی' اس کیفیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ''طبیعت طبیعت ہوتی ہے' چاہے کوئی ذائقہ ہو یا نہ ہو''۔ البتہ میرے ہاتھ میں کھجلی ضرور ہو رہی تھی۔

مجھے ہتھیلی کھجاتا دیکھ کر ایک دوست نے پھبتی کسی ''چوہدری صاحب! لگتا ہے کہیں سے ''روکڑا'' ملنے والا ہے، شکر کریں، پاؤں کے تلوے میں کھجلی نہیں ہو رہی تھی ورنہ جوتے پڑنے کا سو فیصد امکان تھا''۔ میں نے دوست کی شگفتہ آفرینی پر جوابی گرہ لگائی،''روکڑے کا تو پتہ نہیں البتہ کسی کو تھپڑ رسید کرنے کے لیے دل ضرور مچل رہا ہے''۔

آج کے پاکستان میں گفتگو میں لطافت اور شگفتہ آفرینی ناپید ہو چکی ہے، لوگ شستہ جگت کرنا اور جگت اٹھانے کی حس کھوچکے ہیں، اب تو میل ملاپ میں بے تلفی بھی دم توڑ رہی ہے۔ گلی محلے اور دفاتر میں ہنستے مسکراتے چہرے نظر نہیں آئیں گے، نفرت' حسد اور محرومی نے معاشرتی رویوں کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ جو جتنا قریب ہے اتنا دور ہوگیا ہے۔

میرے ایک مرحوم دوست کہا کرتے تھے، ''لوگ کہتے ہیں ہوائی سفر نے انسانوں کے درمیان فاصلے کم کر دیے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہوائی جہاز نے اپنوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیے ہیں''۔ اس سچائی کا مشاہدہ کرنا ہو تو پوش ایریاز کا ایک وزٹ ضرور کریں۔

آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے عالی شان بنگلوں میں اداسی اور ویرانی بال کھولے سو رہی ہے، ایک چوکیدار نظر آئے گا، بنگلے کا مالک ایک بوڑھا اور بوڑھیا خاموشی کی چادر تانے کسی ایک کمرے میں لیٹے ہوں گے کیونکہ ان کے بچے سات سمندر پار کسی ترقی یافتہ ملک میں صبح و شام زندگی کر رہے ہوں گے۔

ہر طرف اتنی خاموشی اور ایسی خاموشی

رات اپنے سائے سے ہم ڈر کے روئے تھے

بوڑھے اور بوڑھیا کے لیے بیش قیمت فانوس، قیمتی فینسی لائٹس، اسپین اور اٹلی کی ٹائلیں، اٹالین کچن، جرمنی اور امریکا سے امپورٹڈ باتھ روم فٹنگز کی قدروقیمت شاید ایک پیسہ کی بھی نہیں ہو گی، کروڑوں روپے مالیت کے عالی شان بنگلوں کی قدروقیمت تب ہی ہوتی ہے جب یہاں ہنستے مسکراتے مکین بھی بستے ہوں، خالی اور خاموش بنگلے تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اورتنہائی کا احساس سوا کر دیتے ہیں۔

پوش ایریاز کے بنگلوں میں تو فقیر کی صدا بھی سنائی نہیں دیتی جو محلوں میں روزانہ سنائی دیتی ہے۔ یہاں چوپال یا تھڑے ہوتے ہیں نہ ہمسائیگی ہوتی ہے۔ یہاں کے باسی فوک کلچر سے بیگانہ ہیں، ان کے بچوں کے پاس فیشن، نائٹ پارٹیز، ہوم سنیما، اور ہوٹلنگ کے سوا کوئی تفریح نہیں ہوتی۔ وہ ایک کٹی پتنگ ہیں جسے کوئی پتہ نہیں کہ اس کی منزل کہاں ہے۔

انگریزی میڈیم اسکولز اور کالجز میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور طلباء کی جس انداز میں تربیت کی جاتی ہے، اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو ہفتے کی رات اور اتوار کے دن پوش ایریاز کا وزٹ کریں' کاریں اور ہیوی موٹر سائیکلز کیسے دوڑائی جاتی ہیں، اس کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کریں تو ان کی تعلیم و تربیت کا اندازہ خود بخود ہو جائے گا، کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


میں سرکاری اسکول اور کالج میں پڑھا ہوں، یہ بھٹو صاحب کا دور حکومت تھا، تعلیم مفت تھی، سرکاری ٹرانسپورٹ میں طلباء کو کرائے میں 80فیصد رعایت ملتی تھی، امیر اور غریب سب کے بچے سرکاری اسکولز اور کالجز میں پڑھتے تھے، چھٹی جماعت میں ٹریفک رولز کا پیریڈ بھی ہوتا تھا، ٹیچر بچوں کو ٹریفک سگنل میں سرخ' پیلے اور سبز رنگ کا مطلب بتاتا تھا، لین اور لائن کا فرق سمجھاتا تھا، زیبرا کراسنگ کیا ہوتی ہے اور فٹ پاتھ کس لیے ہوتے ہیں۔

شہر کی سڑکوں پر پیدل کیسے اور کس جانب چلنا ہے، کس ٹریفک سائن کا مطلب دائیں مڑنا ہے ، کس کا مطلب بائیں مڑنا ہے یا سیدھا جانا ہوتا ہے، یہ سب کچھ تصاویر کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا، پھر ہفتہ وار ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔

کلاس رومز میں جانے سے پہلے اسمبلی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد فوجی ڈرم بجایا جاتا، ڈرم بجانے والے بھی اسکول کے طالب علم ہوتے تھے، سارے طلباء لائن بنا کر لفٹ رائٹ کرتے ہوئے اپنے اپنے کلاس روم میں داخل ہوتے تھے۔ یہ سب احوال لکھنے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ بچوں کو اسکول میں جو تربیت دی جائے گی اور جو پڑھایا جائے گا، وہ اسے قبر تک یاد رہتا ہے۔

اسکول میں وسیع و عریض گراؤنڈز ہوتے تھے' انٹر اسکولز گیمز ہوا کرتی تھیں، میں اپنے اسکول کی طرف سے کرکٹ کھیلا کرتا تھا، انٹر کالجیٹ ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔

یہ گئے دنوں کی باتیں ہیں' اب سرکاری تعلیمی ادارے تو تقریباً ختم ہو چکے ہیں، مفت تعلیم کا دور بھی لد گیا ہے' اب تعلیم طبقاتی ہو گئی ہے' امیر گھرانے کے بچوں کے لیے ویسٹرن کلچر اور نصاب والے اسکولز' کالجز اور یونیورسٹیز ہیں جب کہ عام پاکستانیوں کے بچوں کے لیے پرائمری اور ہائی اسکولز کہاں ہیں اور انھیں کیا نصاب پڑھایا جاتا ہے، میں اس کے بارے میں بس یہی کہوں گا،کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

امیر گھرانوں کے نونہالوں کا علم گوچی، ارمانی سے شروع ہو کر پورشے اور ٹیسلا پر ختم ہو جاتا ہے۔ غریب گھرانوں کے بچوں کا دماغ بقول سابق قائد تحریک انصاف کم خوراک کی وجہ سے چھوٹا رہ جاتا ہے۔

آپ خود ہی سوچیں کہ چھوٹا دماغ اپنے اندر کتنا علم و دانش انڈیل سکتا ہے۔اوپر سے ''مرے کو مارے شاہ مدار'' کے مصداق پورا پاکستان خود فریبی کے وائرس کا شکار ہے، ہر فرد خودکو ایمان اور پاک بازی کے پہلے درجے پر فائز سمجھتا ہے جب کہ باقی سب کو بے ایمان اور جاہل کہنے میں ذرا برابر بھی شرمندہ نہیں ہوتا۔ کسی تاجر سے بات کرلیں' وہ سرکاری اداروں کو گالیاں دے گا' انھیں رشوت خور کہے گا۔

گاہکوں کے عیب بیان کرے گا لیکن اپنے ''اوصاف حمیدہ'' پر کبھی دھیان نہیں دے گا؟ ٹیکس دینے کا پوچھیں تو سانپ سونگھ جاتا ہے، گاہک کوئی چیز واپس کرنے آئے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے حالانکہ تاجر نے جب گاہک کو چیز فروخت کرنی ہوتی ہے تو بڑی لجاجت اور مسکینی سے فرماتا ہے، میری چیز میں کوئی نقص نکل آئے یا کوئی چیز زیادہ ہو تو آپ جب چاہیں واپس کر دیں، اس رویے کو کیا نام دیا جائے گا؟ بیوروکریٹس' ججز اور جنرلز تو'' یونٹی' فیتھ اور ڈسپلن'' کی تصویر ہوتے ہیں' ریٹائرمنٹ کے بعد تو کئی روحانی بابے۔

مبلغ اور مصلح بن کر کالم نویس' ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار روپ دھارن کرکے عوام الناس کا قبلہ درست کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

پاکستان میں پہلا سرکاری ''بابا'' قدرت اللہ شہاب ہو گزرا ہے۔ اب مزید کیا کہوں آپ خود سمجھدار ہیں۔بات اپنی طبیعت کی دھواں دھواں کیفیت سے شروع ہوئی تھی لیکن پیج و خم کھاتی ہوئی روحانی بابے کے ذکر پر اختتام کو پہنچی ہے۔اگر میری باتیں اچھی نہ لگیں تو یہی سمجھیں کہ بس دھواں دھواں ہے اورکچھ نہیں۔ اللہ حافظ۔
Load Next Story