کراچی والوں کی ڈاکوؤں سے استدعا
رواں سال ایک سو سے زیادہ افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے ہیں
حکومت سے مایوس کراچی والوں کی ڈاکوؤں سے استدعا سوشل میڈیا پر وائرل ہے جو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے والے ایک نوجوان کی طرف سے کی گئی ہے۔
یوں تو ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی سالوں نہیں عشروں سے ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہے اور حکومت اور کراچی پولیس شہریوں کو ان سے نمٹنے کے دعوے تو کرتی آ رہی ہے مگر کراچی کے لوگوں کو ڈاکوؤں سے تحفظ دلانے میں مکمل ناکام رہی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی کے پولیس اہلکار خود بھی ڈکیتیوں میں ملوث ہیں اور آئے دن گرفتار بھی کیے جاتے ہیں جس کا حالیہ ثبوت روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی خبر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اورنگی کے ایک بڑے تاجر کے گھر میں ہونے والی ڈکیتی میں ضلع جنوبی پولیس کے اہلکار ملوث نکلے جنھوں نے پولیس وردی اور سادہ لباس اہلکاروں کے ہمراہ ایک ڈبل کیبن پولیس موبائل اور نجی کاروں میں تاجر کے گھر میں دروازہ نہ کھولے جانے پر برابر کے گھر کے ذریعے داخل ہوئے اور گھر والوں کو یرغمال بنا کر دو کروڑ روپے، 80 تولہ سونا، قیمتی موبائل فون و دیگر سامان لے گئے اور جاتے ہوئے گھر کے دو افراد کو بھی ساتھ لے گئے۔
جنھیں بعد میں بلوچ کالونی پل پر چھوڑا گیا۔ پولیس ذرایع کے مطابق ان پولیس اہلکاروں کی شناخت ہو گئی ہے جنھیں اپنے افسروں کی سرپرستی شامل تھی۔ آئی جی پولیس سندھ کے فوری ایکشن لیے جانے پر ضلع ساؤتھ کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ایک کروڑ روپے واپس کر دیا ہے اور باقی رقم اور سامان واپس کرانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
سوشل میڈیا پر یہ وڈیو وائرل کرنے والے نوجوان نے بتایا کہ ہوٹل میں بیٹھے دو نوجوانوں میں باتیں ہو رہی تھیں کہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اس کے ساتھ مزید لٹنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈاکوؤں نے اس کا موبائل اور والٹ چھین لیا جس کے بعد وہ اپنے لٹنے کی اطلاع دینے تھانے گیا تاکہ پولیس کو اطلاع دوں اور میرا فون وغیرہ کہیں استعمال نہ ہو جائے۔ تھانہ میں مجھ سے تین سو روپے رشوت لے کر ایک سادہ کاغذ پر پولیس رپورٹ مہر لگا کر مجھے دی گئی۔
میرے والٹ میں ڈرائیونگ لائسنس، این آئی سی اور رقم بھی موجود تھی جس کے بعد میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے آفس گیا جہاں فوٹو کاپی فی صفحہ بیس روپے طلب کیے گئے جب کہ شہر میں فوٹو کاپی پانچ روپے کی بنتی ہے۔
لائن میں لگنے اور ایک ہزار روپے رشوت دے کر نیا ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا گیا جس کے بعد نادرا کے دفتر میں تمام مطلوبہ کاغذات دینے اور کئی روز کی خواری میں ساڑھے تین ہزار روپے خرچ ہونے کے بعد میرا نیا این آئی سی بنا البتہ موبائل کی سم بغیر رشوت مجھے مل گئی۔
ڈاکوؤں کے نام پر بنائی گئی اس وڈیو میں ڈاکوؤں سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ جب کسی سے موبائل اور والٹ چھینتے ہیں تو اس کے بعد لٹنے والوں کے مزید لٹنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کیونکہ کراچی میں لوگوں کو لوٹنے والے صرف ڈاکو ہی نہیں ہیں بلکہ سرکاری دفاتر میں بھی رشوت لے کر جائز کام نہ کرنے والے حضرات موجود ہیں اس سے ڈاکوؤں سے ہی استدعا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں لٹنے کے بعد متاثرہ افراد کو سرکاری دفاتر میں لٹنے سے بچائیں اور یہ مہربانی کیا کریں کہ والٹ سے رقم نکال کر اس میں موجود این آئی سی، ڈرائیونگ لائسنس و دیگر کاغذات اور موبائل سے سم نکال کر واپس کردیا کریں تاکہ ان کے ہاتھوں لٹنے والا سرکاری دفاتر میں مزید لٹنے سے بچ سکے۔ڈاکوؤں سے یہ بھی استدعا ہے کہ موبائل اور والٹ میں رقم نکال کر باقی کاغذات اور سم ان کے کام کی نہیں ہوتی اس لیے کاغذات اور سم اگر لٹنے والے کو واپس مل جائے تو وہ مزید پریشانیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے ورنہ اسے ڈپلیکیٹ کاغذات بنوانے پر مزید ہزاروں روپے خرچ اور وقت ضایع کرنا پڑتا ہے۔
یہ وڈیو وائرل کرنے والے نے جو حقائق بتائے ہیں وہ سو فیصد درست ہیں اگر ڈاکو ان کی یہ استدعا منظور کرکے سرکاری کاغذات اور موبائل سم واپس کردیں تو ان کا یہ لٹنے والے پر ایک احسان ہی مانا جائے گا اور ان کے ہاتھوں لٹنے والے پولیس تھانوں، نادرا دفتر اور ڈرائیونگ آفسز وغیرہ میں خواری، چکر پہ چکر کاٹنے اور وہاں بھی لوٹے جانے سے بچ جائیں گے۔
رواں سال ایک سو سے زیادہ افراد ڈاکوؤں کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے ہیں جن میں ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے ڈاکوؤں کے آگے کوئی مزاحمت نہیں کی مگر سنگدل ڈاکوؤں نے انھیں لوٹا بھی اور مار بھی دیا اور سیکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے، کراچی میں ڈکیتیاں کم نہیں ہو رہی ہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ کراچی ملک بھر سے آئے ہوئے ڈاکوؤں کے لیے محفوظ شہر ہے۔
جہاں نگران حکومت بھی اپنے تین ماہ میں کراچی کو ڈکیتوں سے محفوظ بنانے کے بجائے شہریوں کو یہ مشورہ دے چکی ہے کہ وہ ڈاکوؤں کے آگے مزاحمت نہ کیا کریں تاکہ مرنے سے محفوظ رہ سکیں۔
کراچی میں افغان ڈاکو بھی اب شہر بھر میں وارداتیں کر رہے ہیں اور ڈکیتیوں میں گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں بھی ملوث نکلی ہیں اور پکڑی بھی گئی ہیں جب کہ کراچی پولیس میں بھی کالی بھیڑوں کی کمی نہیں ہے جو ڈاکوؤں کی سرپرستی کرنے کے علاوہ اب پولیس وردی اور موبائلوں کو بھی دیدہ دلیری سے استعمال کر رہے ہیں اور آئے دن پکڑے بھی جاتے ہیں۔
کراچی پولیس میں ایسے افسر اور اہلکار بھی ہیں جو سالوں سے پولیس ملازمت کے دوران ڈکیتیوں اور لوگوں کے اغوا سمیت متعدد وارداتوں میں گرفتار بھی ہوئے ان کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور وہ بری ہو کر دوبارہ نوکریوں پر بحال ہو جاتے ہیں اور عدالتوں سے پراسرار بریت انھیں محکمہ جاتی سزا بھی نہیں ہونے دیتی۔ اب مایوس لوگ ڈاکوؤں سے ہی استدعا پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت سے اپیلوں کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔