غزہ لہو لہو اسرائیلی جارحیت کوئی تو روکے
غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء انسانیت کے خلاف خوفناک جرائم کا عکاس ہے
غزہ میں عارضی جنگ بندی کے اختتام کے بعد اسرائیل کی دہشت گردانہ بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 700 سے تجاوزکرگئی، جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوگئے۔ زیادہ تر حملے خان یونس اور جبالیہ کیمپ پرکیے گئے۔
دوسری جانب عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ فوری طور پر بند ہونی چاہیے، جنگ سے انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری کو 'خوفناک' قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری کو عام طور سے جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ خاص طور سے مغربی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے جیسے اسرائیل اپنے تحفظ کے لیے حماس نامی کسی بہت بڑی قوت سے نبرد آزما ہے۔ حالانکہ یہ جنگ دنیا کی ایک جدید طاقتور عسکری قوت اسرائیل اور غزہ کے نہتے شہریوں کے درمیان ہے۔
اسرائیل آسمان سے بارود کی بارش کرتا ہے اور زمین پر بے بس انسان اس تباہی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس یک طرفہ جارحیت کو جنگ کا نام دینا بجائے خود ایک گمراہ کن اصطلاح ہے، اگرچہ حماس اسرائیل کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن اس کے پاس اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے وسائل نہیں ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کے طیارے اور توپیں شہری علاقوں پر حملے کر کے کیسے حماس کے پندرہ بیس ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کر سکتی ہیں۔
عارضی جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج نے انسانیت سوز مظالم دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔ غزہ کا کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں میں 60 فیصد مکانات اور رہائشی یونٹ تباہ ہو چکے ہیں۔
اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہدا کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ اب تک زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے، اسرائیلی حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین کی ہے۔
ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد غزہ پر اسرائیل کی خوفناک بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اسرائیل کی حمایت میں 'ڈٹا' ہوا ہے۔
اس لایعنی اور سفاکانہ طرز عمل اور اسرائیلی جنگ جوئی کے خلاف امریکا سمیت تمام مغربی ممالک میں شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور انسانیت سوز مظالم رکوانے کے لیے یہ مظاہرے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ان تمام ممالک کے عوام اپنے لیڈروں کی حکمت عملی کو مسترد کر کے یہ واضح کر رہے ہیں کہ غزہ پر بمباری کا سلسلہ فوری طور سے بند ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے یہ حقیقت بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ متعدد یہودی تنظمیوں اور گروپوں نے بھی اسرائیلی جارحیت سے اظہار لاتعلقی کیا ہے بلکہ جنگ کے خلاف امریکا کے شہروں واشنگٹن اور نیویارک میں مظاہرے یہودی تنظیموں ہی نے منظم کیے تھے اور ان میں بہت بڑی تعداد میں یہودیوں نے حصہ لیا تھا۔
بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ کے 24 لاکھ محصور لوگوں کو 7 اکتوبر سے مسلسل تختہ مشق بنایا ہے۔ اس کی بمباری سے نہ تو پناہ گزینوں کے مراکز محفوظ ہیں، نہ اسپتالوں یا اسکولوں کو وحشیانہ فضائی حملوں سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔
پوری دنیا کے شہری اب اسرائیل کے اس عذر کو مسترد کرچکے ہیں کہ حماس کے خاتمے کے لیے غزہ کے محصور شہریوں پر بمباری ضروری ہے۔
یہ ہتھکنڈا نہ صرف عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ فضائی حملوں سے حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن اسرائیلی حکومت انسانیت سوز جنگ جوئی سے دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک اپنے عوام کو باور کروایا جائے کہ ان کی حکومت 7 اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہونے والے 1500 اسرائیلی شہریوں کا انتقام لینے کے لیے غزہ پر فلسطینی آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔
اس کا دوسرا مقصد غزہ کے شہریوں کو وہاں سے باہر دھکیلنا ہے تاکہ اسرائیل اس فلسطینی علاقے کو سیکیورٹی کے نام پر ہڑپ کرسکے اور وہاں یہودی بستیاں آباد کردی جائیں۔ عالمی رائے عامہ پر اب اسرائیل کے یہ عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں کہ وہ امن و تحفظ کے بجائے جنگ جوئی کا خواہاں ہے تاکہ کسی بھی طرح یا تو فلسطینیوں کو اپنے تمام علاقے خالی کر کے کسی دوسرے ملک میں فرار ہونے پر مجبور کیا جائے یا پھر انھیں ہلاک کر دیا جائے۔
اسی لیے اسرائیلی وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ غزہ کے شہری جان بچانے کے لیے مصر کے علاقے سینائی میں کیوں آباد نہیں ہو جاتے۔
یہ حکمت عملی اس علاقے میں طے شدہ دو ریاستی منصوبہ کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، لیکن اسرائیل نے کبھی اس اصول کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ فلسطینیوں کو اپنا علیحدہ وطن ملنا چاہیے۔
امریکا اگرچہ اصولی طور پر دو ریاستوں کے قیام کو ہی مسئلہ کا مستقل حل سمجھتا ہے لیکن عملی طور سے اسرائیلی جنگجوئی کی حمایت کی جا رہی ہے جس کا واحد مقصد دو ریاستی حل کو ناکارہ اور غیر ضروری ثابت کرنا ہے، اگر اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم کا موجودہ سلسلہ جاری رہا اور امریکا نے جنگ بند کروانے اور مظلوم شہریوں کی ہلاکت رکوانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا تو محض جنگی بیڑا بھیجنے اور اسرائیل کی عسکری قوت میں اضافہ کرنے سے جنگ کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا۔
یہ جنگ جوئی یک طرفہ اور ایک طاقتور فوج کے ہاتھوں نہتی و محصور آبادی پر موت مسلط کرنے کی انسانیت سوز کوشش ہے۔ اس تنازعہ کو فوری طور سے ختم کرنا ہی عالمی امن کے لیے ضروری ہے ورنہ اس جنگ میں ایسے تمام عناصر موجود ہیں جو کسی بھی لمحے کسی بڑے تنازعہ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اگر یہ لڑائی مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیل گئی تو اسے تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ غزہ کے جو حالات ہیں' اس کا تقاضا مستقل جنگ بندی ہے کیونکہ غزہ تباہ ہو چکا ہے، وہاں کے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کے لیے کئی ارب ڈالر کی رقم درکار ہے جو کم ازکم غزہ کے پاس تو ہے نہیں۔ غزہ کے شہریوںکی نجی املاک اور کاروباری نقصان الگ ہے۔
اس کے ازالہ کے لیے بھی بھاری رقوم کی ضرورت ہے، صحت اور تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء انسانیت کے خلاف خوفناک جرائم کا عکاس ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کی شہادتیں، تباہی و بربادی اور دربدری آج کی مہذب دنیا کے منہ پر تمانچہ ہے۔ غزہ میں اس قدر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے کہ پوری دنیا کے عوام احتجاج پر مجبور ہوگئے لیکن صہیونیوں نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور مجرمانہ افعال سے تاحال گریز نہیں کیا۔
امریکا' برطانیہ اور فرانس تو اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ان تمام ممالک کے اسرائیل کے ساتھ گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ اسرائیل کے حق دفاع کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسرائیل غزہ کو فلسطینی بچوں کا قبرستان بنا دے اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دے اور زخمیوں کا علاج نہ ہونے دے۔
انسانیت سسکتی رہے اور پانی خوراک گیس اور بجلی بند کر دی جائے اور لوگوں کو گٹر کا پانی پینے پر مجبور کر دیا جائے۔
حالیہ صہیونی جارحیت تمام مہذب ممالک خصوصا مسلمانوں کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف فلسطینی عوام پر ظلم و موت کی تاریک رات طاری مگر دوسری طرف صرف مذمت مذمت کی رٹ لگا رہے ہیں۔ ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے کہیں سے عملی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ فلسطین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اب تو یہودی بھی چیخ اٹھے ہیں کہ ان کے نام پر یہ ظلم، یہ بربادی، یہ انسانیت سوز مظالم اور نسل کشی کا بازار بند کیا جائے مگر افسوس کہ عرب و عجم کی مسلم امہ کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ او آئی سی بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور جارحیت کی مذمت تک محدود ہے۔
عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی سوائے مسئلے کے حل پر زور دینے کے جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر کوئی عملی اقدام نہیں کر سکی۔
اسرائیل کے پروپیگنڈے کے باوجود حکومتی سطح پر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے اکثر ممالک کے عوام بھی اس نسل کشی کو نہایت ظالمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی جلسے، جلوس کر کے اور ریلیاں نکال کر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ جتنی چاہے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں ظلم کسی صورت چھپا یا نہیں جا سکتا۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کی فریاد تمام دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
دوسری جانب عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا کہ غزہ میں جاری جنگ فوری طور پر بند ہونی چاہیے، جنگ سے انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بھی غزہ پر اسرائیلی بمباری کو 'خوفناک' قرار دیتے ہوئے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری کو عام طور سے جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ خاص طور سے مغربی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے جیسے اسرائیل اپنے تحفظ کے لیے حماس نامی کسی بہت بڑی قوت سے نبرد آزما ہے۔ حالانکہ یہ جنگ دنیا کی ایک جدید طاقتور عسکری قوت اسرائیل اور غزہ کے نہتے شہریوں کے درمیان ہے۔
اسرائیل آسمان سے بارود کی بارش کرتا ہے اور زمین پر بے بس انسان اس تباہی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس یک طرفہ جارحیت کو جنگ کا نام دینا بجائے خود ایک گمراہ کن اصطلاح ہے، اگرچہ حماس اسرائیل کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتا رہتا ہے لیکن اس کے پاس اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے وسائل نہیں ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ اسرائیلی فضائیہ کے طیارے اور توپیں شہری علاقوں پر حملے کر کے کیسے حماس کے پندرہ بیس ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کر سکتی ہیں۔
عارضی جنگ بندی ختم ہوتے ہی اسرائیلی فوج نے انسانیت سوز مظالم دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔ غزہ کا کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں میں 60 فیصد مکانات اور رہائشی یونٹ تباہ ہو چکے ہیں۔
اب تک غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شہدا کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ اب تک زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے، اسرائیلی حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد میں نصف سے زائد تعداد صرف بچوں اور خواتین کی ہے۔
ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد غزہ پر اسرائیل کی خوفناک بمباری کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکا اسرائیل کی حمایت میں 'ڈٹا' ہوا ہے۔
اس لایعنی اور سفاکانہ طرز عمل اور اسرائیلی جنگ جوئی کے خلاف امریکا سمیت تمام مغربی ممالک میں شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور انسانیت سوز مظالم رکوانے کے لیے یہ مظاہرے اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ان تمام ممالک کے عوام اپنے لیڈروں کی حکمت عملی کو مسترد کر کے یہ واضح کر رہے ہیں کہ غزہ پر بمباری کا سلسلہ فوری طور سے بند ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے یہ حقیقت بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ متعدد یہودی تنظمیوں اور گروپوں نے بھی اسرائیلی جارحیت سے اظہار لاتعلقی کیا ہے بلکہ جنگ کے خلاف امریکا کے شہروں واشنگٹن اور نیویارک میں مظاہرے یہودی تنظیموں ہی نے منظم کیے تھے اور ان میں بہت بڑی تعداد میں یہودیوں نے حصہ لیا تھا۔
بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے غزہ کے 24 لاکھ محصور لوگوں کو 7 اکتوبر سے مسلسل تختہ مشق بنایا ہے۔ اس کی بمباری سے نہ تو پناہ گزینوں کے مراکز محفوظ ہیں، نہ اسپتالوں یا اسکولوں کو وحشیانہ فضائی حملوں سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔
پوری دنیا کے شہری اب اسرائیل کے اس عذر کو مسترد کرچکے ہیں کہ حماس کے خاتمے کے لیے غزہ کے محصور شہریوں پر بمباری ضروری ہے۔
یہ ہتھکنڈا نہ صرف عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ فضائی حملوں سے حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن اسرائیلی حکومت انسانیت سوز جنگ جوئی سے دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک اپنے عوام کو باور کروایا جائے کہ ان کی حکومت 7 اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہونے والے 1500 اسرائیلی شہریوں کا انتقام لینے کے لیے غزہ پر فلسطینی آبادی کی اینٹ سے اینٹ بجا رہی ہے۔
اس کا دوسرا مقصد غزہ کے شہریوں کو وہاں سے باہر دھکیلنا ہے تاکہ اسرائیل اس فلسطینی علاقے کو سیکیورٹی کے نام پر ہڑپ کرسکے اور وہاں یہودی بستیاں آباد کردی جائیں۔ عالمی رائے عامہ پر اب اسرائیل کے یہ عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں کہ وہ امن و تحفظ کے بجائے جنگ جوئی کا خواہاں ہے تاکہ کسی بھی طرح یا تو فلسطینیوں کو اپنے تمام علاقے خالی کر کے کسی دوسرے ملک میں فرار ہونے پر مجبور کیا جائے یا پھر انھیں ہلاک کر دیا جائے۔
اسی لیے اسرائیلی وزیر اعظم اور دیگر عہدیدار تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ غزہ کے شہری جان بچانے کے لیے مصر کے علاقے سینائی میں کیوں آباد نہیں ہو جاتے۔
یہ حکمت عملی اس علاقے میں طے شدہ دو ریاستی منصوبہ کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، لیکن اسرائیل نے کبھی اس اصول کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ فلسطینیوں کو اپنا علیحدہ وطن ملنا چاہیے۔
امریکا اگرچہ اصولی طور پر دو ریاستوں کے قیام کو ہی مسئلہ کا مستقل حل سمجھتا ہے لیکن عملی طور سے اسرائیلی جنگجوئی کی حمایت کی جا رہی ہے جس کا واحد مقصد دو ریاستی حل کو ناکارہ اور غیر ضروری ثابت کرنا ہے، اگر اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم کا موجودہ سلسلہ جاری رہا اور امریکا نے جنگ بند کروانے اور مظلوم شہریوں کی ہلاکت رکوانے کے لیے کوئی عملی اقدام نہ کیا تو محض جنگی بیڑا بھیجنے اور اسرائیل کی عسکری قوت میں اضافہ کرنے سے جنگ کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا۔
یہ جنگ جوئی یک طرفہ اور ایک طاقتور فوج کے ہاتھوں نہتی و محصور آبادی پر موت مسلط کرنے کی انسانیت سوز کوشش ہے۔ اس تنازعہ کو فوری طور سے ختم کرنا ہی عالمی امن کے لیے ضروری ہے ورنہ اس جنگ میں ایسے تمام عناصر موجود ہیں جو کسی بھی لمحے کسی بڑے تنازعہ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
اگر یہ لڑائی مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیل گئی تو اسے تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ غزہ کے جو حالات ہیں' اس کا تقاضا مستقل جنگ بندی ہے کیونکہ غزہ تباہ ہو چکا ہے، وہاں کے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کے لیے کئی ارب ڈالر کی رقم درکار ہے جو کم ازکم غزہ کے پاس تو ہے نہیں۔ غزہ کے شہریوںکی نجی املاک اور کاروباری نقصان الگ ہے۔
اس کے ازالہ کے لیے بھی بھاری رقوم کی ضرورت ہے، صحت اور تعلیم کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء انسانیت کے خلاف خوفناک جرائم کا عکاس ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کی شہادتیں، تباہی و بربادی اور دربدری آج کی مہذب دنیا کے منہ پر تمانچہ ہے۔ غزہ میں اس قدر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے کہ پوری دنیا کے عوام احتجاج پر مجبور ہوگئے لیکن صہیونیوں نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور مجرمانہ افعال سے تاحال گریز نہیں کیا۔
امریکا' برطانیہ اور فرانس تو اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ان تمام ممالک کے اسرائیل کے ساتھ گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ اسرائیل کے حق دفاع کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسرائیل غزہ کو فلسطینی بچوں کا قبرستان بنا دے اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دے اور زخمیوں کا علاج نہ ہونے دے۔
انسانیت سسکتی رہے اور پانی خوراک گیس اور بجلی بند کر دی جائے اور لوگوں کو گٹر کا پانی پینے پر مجبور کر دیا جائے۔
حالیہ صہیونی جارحیت تمام مہذب ممالک خصوصا مسلمانوں کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف فلسطینی عوام پر ظلم و موت کی تاریک رات طاری مگر دوسری طرف صرف مذمت مذمت کی رٹ لگا رہے ہیں۔ ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے کہیں سے عملی اقدامات نظر نہیں آرہے۔ فلسطین میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ظلم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اب تو یہودی بھی چیخ اٹھے ہیں کہ ان کے نام پر یہ ظلم، یہ بربادی، یہ انسانیت سوز مظالم اور نسل کشی کا بازار بند کیا جائے مگر افسوس کہ عرب و عجم کی مسلم امہ کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ او آئی سی بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور جارحیت کی مذمت تک محدود ہے۔
عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی سوائے مسئلے کے حل پر زور دینے کے جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر کوئی عملی اقدام نہیں کر سکی۔
اسرائیل کے پروپیگنڈے کے باوجود حکومتی سطح پر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے اکثر ممالک کے عوام بھی اس نسل کشی کو نہایت ظالمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی جلسے، جلوس کر کے اور ریلیاں نکال کر دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ جتنی چاہے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کریں ظلم کسی صورت چھپا یا نہیں جا سکتا۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کی فریاد تمام دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔