حقائق کیوں چھپائے جائیں
اگر فون ٹیپ نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ سابق چیف جسٹس صاحب کی خوش دامن مارشل لا کے لیے بے چین ہو رہی ہیں
چیئرمین پی ٹی آئی سے متعلق حقائق بیان کرنے والے خاور مانیکا اور حاجرہ خان کے انکشافات کے بعد سیاسی، مذہبی اور عوامی حلقوں کے علاوہ صحافیوں اور اینکروں کے درمیان یہ موضوع زیر بحث ہے کہ کسی کی نجی زندگی اور سیاسی اور عوامی معاملات کی چھان بین اور ان کی فون کالز ٹیپ کرنا غیر قانونی اقدام اور مداخلت ہے جس کو طشت از بام نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایک بڑے حلقے کا یہ بھی موقف ہے کہ سیاستدان عوامی ہوتا ہے جس کی ہر سیاسی و عوامی سرگرمی سے متعلق جاننا عوام کا حق ہے اور لوگوں کو اپنے سیاسی رہنماؤں کے کردارکا بھی علم ہونا چاہیے کیونکہ اس کے قول و فعل کا تو پتا چل ہی جاتا ہے کہ کون سچا ہے اور جھوٹا ہے۔
کون اپنے مخالفین کے متعلق قابل اعتراض تقاریرکر کے ان کی کردار کشی کرتا ہے اور لوگ بھی اس کی جھوٹی باتوں اور نجی زندگی سے متعلق کھلے عام تقاریر پر تالیاں بجاتے اور ان کے خلاف نعرے لگاتے اور خوش ہوتے ہیں۔
ان حلقوں کے نزدیک سیاسی رہنماؤں کی ذاتی زندگی اور غلط معاملات کا بھی عوام کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کے باعث کیا گل کھلا رہا ہے۔ عوام کو یہ تو پتا چل جاتا ہے کہ کون شریف ہے، کون عوام کا خیر خواہ ہے اور عوامی زندگی گزار رہا ہے۔ عوام کو سادگی کا بھاشن دینے والے رہنماؤں کی اپنی زندگی کتنی شاہانہ طور گزر رہی ہے۔
عوام یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام حکمران کس طرح سرکاری پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے کتنی سرکاری گاڑیاں، اہلکاروں کی فوج اور وہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کرکے اپنے لیے بے دردی سے اڑائے جا رہے ہیں جب کہ اقتدار سے قبل اور بعد میں یہ کیسے سفرکرتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے اپنی جیب سے خرچ کر کے کتنے محافظ رکھتے ہیں۔
جن لوگوں کو یہ سرکاری سہولتیں حاصل نہ ہوں تو پروٹوکول کے عادی یہ سرمایہ دار عوام کو دکھانے اور ان پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے سیاہ گاڑیاں اور نجی گارڈ رکھتے ہیں۔
متعدد سیاسی رہنماؤں نے اپنے گھروں کے علاوہ سفر اور جلسے جلوسوں کے لیے حفاظت میں رہنے کے لیے بے شمار سیکیورٹی محافظ رکھے ہیں تاکہ کوئی سائل یا عام آدمی ان تک نہ پہنچ جائے۔بلاول بھٹو زرداری ہوں، مریم نواز ہوں یا دوسرے سیاستدان ان سب کے ساتھ نجی محافظ موجود ہوتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کی حفاظت کے لیے بھی ان کی پارٹی کے مخصوص رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس محافظ بھی ڈنڈوں سے لیس نظر آتے ہیں۔
سیاسی رہنما اور حکمران اپنی حفاظت کے لیے جو محافظ رکھتے ہیں، ان کے اخراجات اکثر سرکاری ذرایع سے ادا ہوتے ہیں۔ ہر حکمران اور سیاسی مذہبی رہنما کا پروٹوکول اور شان بان تو عوام کو نظر آ جاتی ہے مگر وہ جو غیر قانونی کام، کرپشن اور نجی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے۔
وہ لوگوں کو نظر نہیں آتے کیونکہ وہ انھیں خفیہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اس کے انتہائی قریبی اور بااعتماد لوگوں کو ہی حقائق کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیا کرتا ہے۔ سیاسی و مذہبی رہنما ہو، کھلاڑی یا اسٹار یا دولت مند نامور شخصیت اس کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں مگر اکثر اس کا تعمیری پہلو ہی عوام کو دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں۔ اس کے لیے نعرے لگائیں، جانی و مالی قربانیاں دیں اور اسے اقتدار میں لائیں۔
اس کی پارٹی اور رہنما اس کا مثبت کردار ہی عوام کو دکھاتے ہیں تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور عزت و احترام سے پیش آئیں اور اس کا کوئی منفی پہلو عوام کے سامنے نہ آئے۔ عوام جب اپنے پسندیدہ رہنما کا تعمیری کردار دیکھتے ہیں تو جو رہنما غلط ہو اور اس کا حقیقی کردار اور حقائق کا بھی عوام کو علم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیسا ہے۔
عوام کو متاثر کرنے کے لیے ہر اہم شخص اپنی خوبی، عوامی دوستی اور اچھا کردار نمایاں رکھتا اور اپنا منفی کردار چھپا کر رکھتا ہے۔ عوام میں مقبولیت کا حامل ہر بااثر شخص عوام میں عوامی کہلاتا ہے اور پس پردہ اکثر ایسے لوگ وہ نہیں ہوتے ، جو تاثر دیتے ہیں۔
اقتدار کے پس منظر میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کسے فون کرتا ہے، فون پر کیا باتیں اور سازشیں ہوتی ہیں، کسے ناجائز کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، کیا تخریبی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں یہ سب اگر عیاں نہ ہوں تو عوام کو اپنے لیڈروں کے کردار کا کیسے پتا چلتا۔ اگر بڑے رہنماؤں کے فون ٹیپ نہ کیے جاتے تو کیسے پتا چلتا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے چیئرمین سے کس قسم کی باتیں کی ہیں۔
اگر آڈیو ریکارڈ نہ ہوتی تو کیسے پتا چلتا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کسی بڑے جج کے چہیتے ہیں اور وہ اپنے کسی بندے کا کیس اپنے کسی پسندیدہ جج کی عدالت میں لگوا کر فائدے والا فیصلہ لینا چاہتے تھے۔ اگر فون ٹیپ نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ خان کے کہنے پر تحفے میں ملی گھڑیاں فروخت کرنی ہیں اور کتنے قیراط کی انگوٹھیاں لینی ہیں۔
اگر فون ٹیپ نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ سابق چیف جسٹس صاحب کی خوش دامن مارشل لا کے لیے بے چین ہو رہی ہیں۔ فون ٹیپ نہ ہوتا تو کیسے پتہ چلتا کہ اس ملک کا وفاقی وزیر خزانہ اور خیبرپختونخوا کا صوبائی وزیر خزانہ کیسے پاکستان کو دیوالیہ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔
پہلے ملک دشمنوں پر نظر رکھنے کے لیے فون ٹیپ ہوتے تھے۔ ان کے خطوط و حرکات پر نظر رکھی جاتی تھی، ملک کے خلاف جاسوسی کرنے والوں کو گرفت میں لایا جاتا تھا، کالیں ٹریس اور خفیہ رابطوں پر رکھی جاتی تھیں۔
اب ملک کی ممتاز شخصیات نے اپنا اقتدار کو بچانے کے لیے سرکاری وسائل کیسے ہڑپ کرتے رہے، دوسروں کی عزتوں اور اناؤں سے کیسے کھیلا گیا، غیر آئینی اورغیر قانونی کام طاقت کے زور پرکیسے کرائے گئے، اگر یہ سب حقائق منظر عام پر نہ آتے تو کیسے پتا چلتا کہ ہمارے رہبروں نے اپنے مفاد کے لیے کیا کچھ نہیں کیا اور وہ رات کے اندھیروں میں کیا کرتے رہے۔ بڑے لوگوں سے متعلق حقائق عوام سے کیوں چھپائے جائیں، یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ عوام کو پس پردہ حقائق کا بھی علم ہونا چاہیے ورنہ منفی چہرے کیسے بے نقاب ہوں گے؟
ایک بڑے حلقے کا یہ بھی موقف ہے کہ سیاستدان عوامی ہوتا ہے جس کی ہر سیاسی و عوامی سرگرمی سے متعلق جاننا عوام کا حق ہے اور لوگوں کو اپنے سیاسی رہنماؤں کے کردارکا بھی علم ہونا چاہیے کیونکہ اس کے قول و فعل کا تو پتا چل ہی جاتا ہے کہ کون سچا ہے اور جھوٹا ہے۔
کون اپنے مخالفین کے متعلق قابل اعتراض تقاریرکر کے ان کی کردار کشی کرتا ہے اور لوگ بھی اس کی جھوٹی باتوں اور نجی زندگی سے متعلق کھلے عام تقاریر پر تالیاں بجاتے اور ان کے خلاف نعرے لگاتے اور خوش ہوتے ہیں۔
ان حلقوں کے نزدیک سیاسی رہنماؤں کی ذاتی زندگی اور غلط معاملات کا بھی عوام کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مقبولیت کے باعث کیا گل کھلا رہا ہے۔ عوام کو یہ تو پتا چل جاتا ہے کہ کون شریف ہے، کون عوام کا خیر خواہ ہے اور عوامی زندگی گزار رہا ہے۔ عوام کو سادگی کا بھاشن دینے والے رہنماؤں کی اپنی زندگی کتنی شاہانہ طور گزر رہی ہے۔
عوام یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام حکمران کس طرح سرکاری پروٹوکول میں گھوم رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے کتنی سرکاری گاڑیاں، اہلکاروں کی فوج اور وہ وسائل استعمال ہو رہے ہیں جو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کرکے اپنے لیے بے دردی سے اڑائے جا رہے ہیں جب کہ اقتدار سے قبل اور بعد میں یہ کیسے سفرکرتے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے اپنی جیب سے خرچ کر کے کتنے محافظ رکھتے ہیں۔
جن لوگوں کو یہ سرکاری سہولتیں حاصل نہ ہوں تو پروٹوکول کے عادی یہ سرمایہ دار عوام کو دکھانے اور ان پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے سیاہ گاڑیاں اور نجی گارڈ رکھتے ہیں۔
متعدد سیاسی رہنماؤں نے اپنے گھروں کے علاوہ سفر اور جلسے جلوسوں کے لیے حفاظت میں رہنے کے لیے بے شمار سیکیورٹی محافظ رکھے ہیں تاکہ کوئی سائل یا عام آدمی ان تک نہ پہنچ جائے۔بلاول بھٹو زرداری ہوں، مریم نواز ہوں یا دوسرے سیاستدان ان سب کے ساتھ نجی محافظ موجود ہوتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کی حفاظت کے لیے بھی ان کی پارٹی کے مخصوص رنگ کے شلوار قمیض میں ملبوس محافظ بھی ڈنڈوں سے لیس نظر آتے ہیں۔
سیاسی رہنما اور حکمران اپنی حفاظت کے لیے جو محافظ رکھتے ہیں، ان کے اخراجات اکثر سرکاری ذرایع سے ادا ہوتے ہیں۔ ہر حکمران اور سیاسی مذہبی رہنما کا پروٹوکول اور شان بان تو عوام کو نظر آ جاتی ہے مگر وہ جو غیر قانونی کام، کرپشن اور نجی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے۔
وہ لوگوں کو نظر نہیں آتے کیونکہ وہ انھیں خفیہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور اس کے انتہائی قریبی اور بااعتماد لوگوں کو ہی حقائق کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیا کرتا ہے۔ سیاسی و مذہبی رہنما ہو، کھلاڑی یا اسٹار یا دولت مند نامور شخصیت اس کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں مگر اکثر اس کا تعمیری پہلو ہی عوام کو دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں۔ اس کے لیے نعرے لگائیں، جانی و مالی قربانیاں دیں اور اسے اقتدار میں لائیں۔
اس کی پارٹی اور رہنما اس کا مثبت کردار ہی عوام کو دکھاتے ہیں تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں اور عزت و احترام سے پیش آئیں اور اس کا کوئی منفی پہلو عوام کے سامنے نہ آئے۔ عوام جب اپنے پسندیدہ رہنما کا تعمیری کردار دیکھتے ہیں تو جو رہنما غلط ہو اور اس کا حقیقی کردار اور حقائق کا بھی عوام کو علم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں کیسا ہے۔
عوام کو متاثر کرنے کے لیے ہر اہم شخص اپنی خوبی، عوامی دوستی اور اچھا کردار نمایاں رکھتا اور اپنا منفی کردار چھپا کر رکھتا ہے۔ عوام میں مقبولیت کا حامل ہر بااثر شخص عوام میں عوامی کہلاتا ہے اور پس پردہ اکثر ایسے لوگ وہ نہیں ہوتے ، جو تاثر دیتے ہیں۔
اقتدار کے پس منظر میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کسے فون کرتا ہے، فون پر کیا باتیں اور سازشیں ہوتی ہیں، کسے ناجائز کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، کیا تخریبی منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں یہ سب اگر عیاں نہ ہوں تو عوام کو اپنے لیڈروں کے کردار کا کیسے پتا چلتا۔ اگر بڑے رہنماؤں کے فون ٹیپ نہ کیے جاتے تو کیسے پتا چلتا کہ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے چیئرمین سے کس قسم کی باتیں کی ہیں۔
اگر آڈیو ریکارڈ نہ ہوتی تو کیسے پتا چلتا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کسی بڑے جج کے چہیتے ہیں اور وہ اپنے کسی بندے کا کیس اپنے کسی پسندیدہ جج کی عدالت میں لگوا کر فائدے والا فیصلہ لینا چاہتے تھے۔ اگر فون ٹیپ نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ خان کے کہنے پر تحفے میں ملی گھڑیاں فروخت کرنی ہیں اور کتنے قیراط کی انگوٹھیاں لینی ہیں۔
اگر فون ٹیپ نہ ہوتے تو کیسے پتا چلتا کہ سابق چیف جسٹس صاحب کی خوش دامن مارشل لا کے لیے بے چین ہو رہی ہیں۔ فون ٹیپ نہ ہوتا تو کیسے پتہ چلتا کہ اس ملک کا وفاقی وزیر خزانہ اور خیبرپختونخوا کا صوبائی وزیر خزانہ کیسے پاکستان کو دیوالیہ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔
پہلے ملک دشمنوں پر نظر رکھنے کے لیے فون ٹیپ ہوتے تھے۔ ان کے خطوط و حرکات پر نظر رکھی جاتی تھی، ملک کے خلاف جاسوسی کرنے والوں کو گرفت میں لایا جاتا تھا، کالیں ٹریس اور خفیہ رابطوں پر رکھی جاتی تھیں۔
اب ملک کی ممتاز شخصیات نے اپنا اقتدار کو بچانے کے لیے سرکاری وسائل کیسے ہڑپ کرتے رہے، دوسروں کی عزتوں اور اناؤں سے کیسے کھیلا گیا، غیر آئینی اورغیر قانونی کام طاقت کے زور پرکیسے کرائے گئے، اگر یہ سب حقائق منظر عام پر نہ آتے تو کیسے پتا چلتا کہ ہمارے رہبروں نے اپنے مفاد کے لیے کیا کچھ نہیں کیا اور وہ رات کے اندھیروں میں کیا کرتے رہے۔ بڑے لوگوں سے متعلق حقائق عوام سے کیوں چھپائے جائیں، یہ کسی طرح مناسب نہیں۔ عوام کو پس پردہ حقائق کا بھی علم ہونا چاہیے ورنہ منفی چہرے کیسے بے نقاب ہوں گے؟