گزری باتیں بیتی یادیں
الیاس رشیدی کو فلمی دنیا کی طرف سے بابائے فلمی صحافت کا خطاب دیا گیا تھا
میں گزشتہ بائیس سال سے امریکی ریاست نیو جرسی میں سکونت پذیر ہوں لیکن مجھے میرے وطن کی محبت ہر سال دو سال بعد پاکستان کھینچ لاتی ہے پھر اس دوران دوستوں کی محفلیں ہوتی ہیں، یاروں کی بیٹھکیں ہوتی ہیں، شعری نشستیں ہوتی ہیں اور ہم ہوتے ہیں۔ اور ہاں ایک بات یہ کہ میرا ایک اہم وزٹ ہفت روزہ فلمی اخبار ''نگار'' کے دفتر ضرور ہوتا ہے جس کے ذریعے میری فلمی صحافت کا آغاز ہوا۔
میں نگار اخبار کے شعبہ ادارت میں کافی عرصہ تک شامل رہا اور پھر نگارکے ایڈیٹر الیاس رشیدی ہی کی وساطت سے لاہور میں نگار کراچی کا نمایندہ خاص بن کر گیا اور وہاں کی فلمی انڈسٹری سے بطور رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بھی دس سال تک وابستہ رہا۔
اس بار جب میں کراچی آیا تو نگار ویکلی کے ایڈیٹر اسلم الیاس رشیدی سے ملاقات کرنے گیا تو انھوں نے مجھے اپنے والد الیاس رشیدی مرحوم کی فلمی یاد داشتوں پر مشتمل حال ہی میں شایع شدہ کتاب فلمی دنیا کی '' گزری باتیں بیتی یادیں'' حصہ اول پیش کی جو میرے لیے کسی سوغات سے کم نہیں تھی، خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ یہ فلمی دنیا کی تاریخ سے متعلق ایک نایاب کتاب ہے۔
الیاس رشیدی کو فلمی دنیا کی طرف سے بابائے فلمی صحافت کا خطاب دیا گیا تھا، انھوں نے 1957 میں نگار اخبار کا اجرا کیا، پھر کچھ عرصے بعد پاکستان میں فلم فیئر ایوارڈ انڈیا کی طرز پر نگار پبلک فلم ایوارڈز کا اہتمام کیا اور ایک طویل عرصے تک نگار فلم ایوارڈ باقاعدگی سے تقسیم کیے جاتے رہے۔
ابتدا میں نگار ایوارڈز کی تقریبات لاہور میں منعقد ہوتی رہیں پھر نگار ایوارڈز کی تقسیم کی تقریبات کراچی میں بھی منعقد کی جاتی رہیں اور نگار فلم ایوارڈز کو پاکستان میں وہی درجہ حاصل ہو گیا تھا جو انڈیا میں فلم فیئر ایوارڈز کو حاصل تھا۔ ہفت روزہ نگار کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل رہا ہے کہ اس کے لکھنے والوں میں بڑی قدآور ادبی شخصیات بھی شامل تھیں جیسے نامور ادیب اور کالم نگار ابراہیم جلیس، انور عنایت اللہ، طفیل احمد جمالی، کلیم عثمانی، علی سفیان آفاقی اور حمید کاشمیری بھی نگار ویکلی میں لکھا کرتے تھے۔
اس سے پہلے کہ میں الیاس رشیدی کی کتاب کے بارے میں کچھ تفصیلی روشنی ڈالوں، نگار ایوارڈز کا بھی کچھ تذکرہ کرتا چلوں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری کے کافی عرصے بعد جب ڈھاکا میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو الیاس رشیدی نے ہر سال ڈھاکا کی فلموں کو بھی ایوارڈ میں شامل کر لیا تھا اور ڈھاکا کی پہلی اردو فلم ''چندا'' کو بھی کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
نگار فلم ایوارڈ کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے پہلی بار ڈھاکا سے متعلق اداکارہ شبنم، اداکار رحمان، ہدایت کار احتشام، موسیقار روبن گھوش اور مزاحیہ اداکار سبھاش دتہ کو بھی نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا اور یہ فنکار پہلی بار ڈھاکا سے ایوارڈ لینے کی غرض سے کراچی آئے تھے اور انھیں مقامی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔
اس دوران میں نے بھی ان فنکاروں کے بھرپور انٹرویوز نگار ویکلی کے لیے کیے تھے اس وقت شبنم کو ٹوٹی پھوٹی اردو آتی تھی اور چند ہی جملے اردو میں بولتی تھی جب کہ روبن گھوش اور سبھاش دتہ بنگالی، اردو اور انگریزی میں بات کرتے تھے۔
اب میں آتا ہوں نگار ویکلی کے مالک اور ایڈیٹر الیاس رشیدی کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ یہ تین بھائی تھے، سب سے بڑے بھائی شیخ محمد عثمان آزاد، پھر جنھوں نے ہندوستان سے ہجرت کے بعد پاکستان آ کر روزنامہ انجام کا اجرا کیا تھا، دوسرے بھائی شیخ محمد عمر فاروقی نے روزنامہ آغاز کا اجرا کیا تھا، تیسرے بھائی الیاس رشیدی کو سیاست اور سیاسی صحافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
انھیں فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور یہ کوئی فلمی اخبار نکالنا چاہتے تھے اسی دوران ان کی دوستی رائٹر اور مصور ابن حسن نگار سے ہوگئی جو مقامی اخبار میں مضامین کے ساتھ فلمی تصاویر بناتے تھے اور اپنا ایک ماہنامہ رسالہ نگار کے نام سے نکالتے تھے۔
(جاری ہے)
میں نگار اخبار کے شعبہ ادارت میں کافی عرصہ تک شامل رہا اور پھر نگارکے ایڈیٹر الیاس رشیدی ہی کی وساطت سے لاہور میں نگار کراچی کا نمایندہ خاص بن کر گیا اور وہاں کی فلمی انڈسٹری سے بطور رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بھی دس سال تک وابستہ رہا۔
اس بار جب میں کراچی آیا تو نگار ویکلی کے ایڈیٹر اسلم الیاس رشیدی سے ملاقات کرنے گیا تو انھوں نے مجھے اپنے والد الیاس رشیدی مرحوم کی فلمی یاد داشتوں پر مشتمل حال ہی میں شایع شدہ کتاب فلمی دنیا کی '' گزری باتیں بیتی یادیں'' حصہ اول پیش کی جو میرے لیے کسی سوغات سے کم نہیں تھی، خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ یہ فلمی دنیا کی تاریخ سے متعلق ایک نایاب کتاب ہے۔
الیاس رشیدی کو فلمی دنیا کی طرف سے بابائے فلمی صحافت کا خطاب دیا گیا تھا، انھوں نے 1957 میں نگار اخبار کا اجرا کیا، پھر کچھ عرصے بعد پاکستان میں فلم فیئر ایوارڈ انڈیا کی طرز پر نگار پبلک فلم ایوارڈز کا اہتمام کیا اور ایک طویل عرصے تک نگار فلم ایوارڈ باقاعدگی سے تقسیم کیے جاتے رہے۔
ابتدا میں نگار ایوارڈز کی تقریبات لاہور میں منعقد ہوتی رہیں پھر نگار ایوارڈز کی تقسیم کی تقریبات کراچی میں بھی منعقد کی جاتی رہیں اور نگار فلم ایوارڈز کو پاکستان میں وہی درجہ حاصل ہو گیا تھا جو انڈیا میں فلم فیئر ایوارڈز کو حاصل تھا۔ ہفت روزہ نگار کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل رہا ہے کہ اس کے لکھنے والوں میں بڑی قدآور ادبی شخصیات بھی شامل تھیں جیسے نامور ادیب اور کالم نگار ابراہیم جلیس، انور عنایت اللہ، طفیل احمد جمالی، کلیم عثمانی، علی سفیان آفاقی اور حمید کاشمیری بھی نگار ویکلی میں لکھا کرتے تھے۔
اس سے پہلے کہ میں الیاس رشیدی کی کتاب کے بارے میں کچھ تفصیلی روشنی ڈالوں، نگار ایوارڈز کا بھی کچھ تذکرہ کرتا چلوں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری کے کافی عرصے بعد جب ڈھاکا میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو الیاس رشیدی نے ہر سال ڈھاکا کی فلموں کو بھی ایوارڈ میں شامل کر لیا تھا اور ڈھاکا کی پہلی اردو فلم ''چندا'' کو بھی کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
نگار فلم ایوارڈ کی تقریب میں حصہ لینے کے لیے پہلی بار ڈھاکا سے متعلق اداکارہ شبنم، اداکار رحمان، ہدایت کار احتشام، موسیقار روبن گھوش اور مزاحیہ اداکار سبھاش دتہ کو بھی نگار ایوارڈز سے نوازا گیا تھا اور یہ فنکار پہلی بار ڈھاکا سے ایوارڈ لینے کی غرض سے کراچی آئے تھے اور انھیں مقامی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔
اس دوران میں نے بھی ان فنکاروں کے بھرپور انٹرویوز نگار ویکلی کے لیے کیے تھے اس وقت شبنم کو ٹوٹی پھوٹی اردو آتی تھی اور چند ہی جملے اردو میں بولتی تھی جب کہ روبن گھوش اور سبھاش دتہ بنگالی، اردو اور انگریزی میں بات کرتے تھے۔
اب میں آتا ہوں نگار ویکلی کے مالک اور ایڈیٹر الیاس رشیدی کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ یہ تین بھائی تھے، سب سے بڑے بھائی شیخ محمد عثمان آزاد، پھر جنھوں نے ہندوستان سے ہجرت کے بعد پاکستان آ کر روزنامہ انجام کا اجرا کیا تھا، دوسرے بھائی شیخ محمد عمر فاروقی نے روزنامہ آغاز کا اجرا کیا تھا، تیسرے بھائی الیاس رشیدی کو سیاست اور سیاسی صحافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
انھیں فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور یہ کوئی فلمی اخبار نکالنا چاہتے تھے اسی دوران ان کی دوستی رائٹر اور مصور ابن حسن نگار سے ہوگئی جو مقامی اخبار میں مضامین کے ساتھ فلمی تصاویر بناتے تھے اور اپنا ایک ماہنامہ رسالہ نگار کے نام سے نکالتے تھے۔
(جاری ہے)