کتابوں کے میلے
ماضی کے بک فیئرز میں اپنی اردو اور انگریزی کی کتابوں کے اقتباس میں سامعین کو سنا چکا تھا
حالیہ دنوں میں جن ایشوز پر پڑھے لکھے لوگوں کا اتفاقِ رائے ہے، ان میںسے ایک یہ ہے اس بار پاک چائنا سینٹر اسلام آباد میں ہونے والا کتاب میلہ پھیکا اور بے رونق سا تھا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیراہتمام اس میلے سے اسلام آباد کے زیادہ تر عاشقانِ کتب لاعلم رہے۔
مجھے بھی ایک روز قبل دعوت نامہ پہنچا۔ وہاں گیا تو کسی حد تک مایوسی ہوئی۔ وہ ہال جن میں مصنفین اپنے مضامین کے اقتباس سنایا کرتے تھے، خالی پڑے تھے، اسٹال بھی کم اور خریداروں سے خالی تھے، وزارتِ تعلیم نے البتہ اپنے ماتحت اسکولوں کے بچوں کو بلا رکھا تھا۔
یہ بھی اچھی ریت ہے، بچوں اور نوجوان طلبا کی کتابی ماحول سے آشنائی پیدا کرنا ایک مفید اقدام ہے۔
مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بڑے بھر پور قسم کے کتاب میلے منعقد کرائے تھے۔
اس وقت پورے ملک سے معروف ادیبوں، شاعروں اور مصنفین کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اور اس میں نظریات کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ (اگرچہ لٹریری فیسٹیول والے صرف مخصوص نظریات والے لوگوں کو ہی بلاتے ہیں) انھیں عزت دینے کے لیے ان کے باتصویر اسٹیمر اسلام آباد کی اہم شاہراہوں پر آویزاں کیے جاتے تھے۔
تین دن پاک چائنا سینٹر کے ہر ہال سے علمی اور ادبی سرگرمیوں کی کرنیں پھوٹتی تھیں، راہداریوں میں آسمانِ ادب کے درخشندہ ستارے آجارہے ہوتے تھے۔ کسی ہال میں عطاء الحق قاسمی قہقہے بکھیر رہے ہوتے تو کسی میں انور مسعود صاحب پیٹ میں بَل ڈال رہے ہوتے۔ کہیں سے افتخار عارف برآمد ہورہے ہوتے اور کہیں امجد اسلام امجد منڈلی جمائے نظر آتے۔
مجھے یاد ہے اُن یادگار میلوں میں ایک بار میں پاک چائنا سینٹر میں داخل ہوا تو اوپر سے لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں نیچے تک آرہی تھیں، میں نے سوچا یہ یقیناً انور مسعود صاحب ہوں گے جو اپنی شگفتہ شاعری اور فنکارانہ ادائیگی سے انتہائی سنکی قسم کے بابوؤں کو بھی ہنسانے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔
ہال میں داخل ہوا تو وہ عطاء الحق قاسمی صاحب تھے جن کی تحریر کی تروتازگی اور شگفتگی آج بھی اُس طرح قائم ودائم ہے جیسے چالیس سال پہلے تھے۔
وہ فقرہ ختم کرتے تو ہال خواتین و حضرات کے قہقہوں سے گونج اٹھتا۔ مگر ہر کومیڈی کے ساتھ ایک ٹریجیڈی بھی جڑی ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ جونہی قاسمی صاحب اسٹیج سے اترے تو اسٹیج سیکریٹری نے، جو مجھے ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا فوری طور پر مجھے ہی روسٹرم پر بلالیا۔
غلط موقع پر دی جانے والی یہ دعوت کسی اچانک حملے سے کم نہ تھی، جواباً میں نے اسٹیج سیکریٹری کو بڑے غصے سے گھور کر دیکھا اور اشاروں سے اسے convey بھی کیا، کہ ظالما! تجھے embarass کرنے کے لیے میں ہی ملا تھا، ایسی حرکت کرنے پر علاج تو تمہارا یہ ہے کہ کسی تکڑے تھانیدار کو کہہ کر اور کچھ نہیں تو آوارہ گردی میں ہی تمہارا چالان کرایا جائے۔
بہرحال میں بھی اپنی کتاب لے کر ڈائس پر چلا گیا، پہلے کچھ اور سنانے کا پروگرام تھا مگر قاسمی صاحب نے کسی چھمک چھلو نامی ریٹائرڈ نائیکہ کا اپنی زیر تربیت صاحبزادی کے نام خط سنا کر جو سماں باندھا تھا۔
اس کے اثرات سے بچنے کے لیے میں نے بھی کسی جونیئر سی چھک چھلو کا واقعہ سنایا جو میری کتاب کے مضمون ''عزت'' میں درج تھا کہ ایک بار ہفت روزہ ''چیر پھاڑ'' کے چیف رپورٹر انٹرویو لینے کے لیے موصوفہ کے کوٹھے پر پہنچ گئے اور پوچھا کہ''اب جب کہ آپ شہر کی نمبر ون رقاصہ بن چکی ہیں تو فلموں میں کب اینٹری ڈال رہی ہیں''۔ موصوفہ نے ترنت جواب دیا ''اللہ نے یہیں بڑی عزت دی ہوئی ہے، اس گند میں کیا پڑنا ہے''۔
اس پر اسٹیج سے بھی ایک زنانہ ہنسی کی آواز سنائی دی، غور سے دیکھا تو اسٹیج پر فلم اسٹار ریما بھی براجمان تھیں، بعد میں ان کی کتاب دوستی کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کتابوں کی اتنی شائق نہیں مگر کتابیں لکھنے والوں میں موصوفہ کے شائقین بہت ہیں۔ بہرحال ان دنوں وفاقی دارالحکومت سے پورے کے پورے کنبے ان علمی میلوں میں شریک ہونے کے لیے پہنچتے تھے۔
تیسرے اور چوتھے بک فیئر پر اسلام آباد کے شہریوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ سالانہ کتاب میلے نے اسلام آباد کا کلچر تبدیل کر دیا ہے، اور یہ ادبی میلہ گریڈوں کے اس شہر کی ادبی، سماجی اور ثقافتی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔
کسی بھی کام کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے صلاحیّت کے ساتھ ساتھ جذبہ، جنون اور عشق درکار ہوتا ہے، جو پچھلے دور میں نظر آتا تھا اور وہی تقریبات میں جان ڈالتا تھا۔ مگر اس بار کا میلہ اُس جذبے اور عشق سے تہی نظر آیا۔ اس بار کا ایونٹ ایک سرکاری قسم کی تقریب کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ اور وہ بھی کسی نگران حکومت کا نگران قسم کا میلہ۔
ماضی کے بک فیئرز میں اپنی اردو اور انگریزی کی کتابوں کے اقتباس میں سامعین کو سنا چکا تھا۔ ان تین کتابوں کے بعد میرے مزاحیہ اور طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب 'پس پردہ' بک کارنر جہلم والوں نے شایع کی۔ پبلشر حضرات ان میلوں میں کتابوں کے شائقین کو مصنّفین سے ملانے کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔
بک کارنر کے مالک گگن شاہد کے ساتھ یہ طے ہوا کہ میلے کے دوسرے روز یعنی 26 نومبر دوپہر ایک بجے میں ان کے اسٹال پر پہنچ جاؤں گا اور ایک گھنٹے تک وہاں رہوں گا۔ میں اپنے دیرینہ دوست اکرم طاہر صاحب (ریٹائرڈ چیف کمشنر انکم ٹیکس) کے ساتھ سوا ایک بجے پاک چائنا سینٹر پہنچ گیا۔ ہر طرف بچوں کا ہجوم نظر آیا جو استانیوں کی کمان یا حراست میں قطاروں میں چل پھر رہے تھے اور بڑے ڈسپلن کے ساتھ شور مچارہے تھے۔
ہم نے برقی سیڑھیوں کے ذریعے اوپر جاکر تمام اسٹالوں کا راؤنڈ لگایا، چونکہ شہری بے خبر تھے اس لیے زیادہ تر اسٹالوں پر رونق نہیں تھی۔
اقبال اکیڈمی کے اسٹال پر سب سے زیادہ رونق نظر آئی۔ میں نے بھی وہاں سے دو کتابیں خریدیں ان میں سے ایک میڈم ڈورس احمد (وہ جرمن خاتون جو جاوید اقبال کی والدہ کی وفات کے بعد علی گڑھ سے علامہ صاحب کے دونوں کمسن بچوں کو سنبھالنے کے لیے جاوید منزل آگئی تھیں) کی کتاب 'Iqbal as I knew him' بھی تھی جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے دوستوں کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی گورنس کا انتظام کرنے کے لیے کہہ رکھا تھا۔
ڈورس احمد کے بہنوئی انڈین مسلم تھے اورعلی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور وہ وہیں اپنی ہمشیرہ کے پاس رہتی تھیں، علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ان کے بہنوئی کو قائل کیا اور مادام ڈورس کو بتایا کہ علّامہ اقبال کی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے وہی حیثیت ہے جو جرمنی کے لیے گوئٹے کی ہے۔ اس پر وہ مان گئیں۔
انھوں نے بڑی عقیدت اور محبّت کے ساتھ علامہ اقبال کی فیمیلی کے ساتھ اپنے بیتے ہوئے سالوں کا ذکر کیا ہے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آئے تو سامنے ہی بک کارنر کا اسٹال نظر آگیا گگن شاہد نے فیس بک پر اعلان کر رکھا تھا، اس لیے کچھ دوست بھی پہنچ گئے تھے، سیرت اصغر (سابق وفاقی سیکریٹری) جمیل افضل چیمہ پروفیسر اکرم چوہدری، چوہدری امتیاز وڑائچ، احسان صادق (ڈائریکٹر جنرل پولیس بیورو)، عبداللطیف راجپوت اور نوجوان ساجد امین سے بھی وہیں ملاقات ہوئی۔ کچھ اور خواتین وحضرات بھی آگئے اور کتاب پر دستخطوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
گگن کے اسٹاف نے سب دوستوں اور کتاب کے شائقین کے لیے گرما گرم چائے بھی مہیا کردی جس سے ماحول مزید خوشگوار ہوگیا۔ گگن شاہد نے آغاز میں اسٹال پر پس پردہ کی چالیس کاپیاں رکھنے کاپروگرام بنایا تھا۔ میرے کہنے پر وہ پچاس کاپیاں مزید لے آیا تھا۔ کچھ خواتین وحضرات نے راقم کی دوسری کتابیں بھی طلب کیں مگر اسٹال پر میری انگریزی کی کتاب Talk' 'Straight کی صرف دو کاپیاں تھیں جو فوراً بک گئیں۔
دو گھنٹے کے بعد بھی جب کچھ لوگوں نے 'پس پردہ' مانگی تو بک کارنر کے اسٹاف نے ہاتھ کھڑے کردیے اور بتایا کہ دو گھنٹے میں اس کتاب کی نوّے کاپیاں فروخت ہوگئیں ہیں اور اب ہمارے پاس اس کی کوئی اور کاپی نہیں بچی، اگرچہ اسٹال پر پس پردہ کا کوئی پوسٹر نہیں لگا تھا مگر کتاب دوست خواتین وحضرات اچھی اور دلچسپ کتاب کے مصنّف سے ملاقات کرنے اور اس کی دستخط شدہ کتاب لینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں اور اب پھر زور دے کر کہوں گا کہ کتاب بینی کو فروغ دینے کے لیے حکومت اور بڑے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ پبلشرز کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کریں ان سے اسٹال کی کوئی فیس نہ لی جائے، مگر ناشرین پر لازم ہو کہ کتاب میلوں پر وہ اپنی تمام کتابیں پچاس فیصد رعایتی قیمت پر فروخت کریں گے۔
ہر ڈویژنل اور ضلعی ہیڈکواٹر میں کتاب میلوں کا اہتمام ہونا چاہیے اور ان events کو ضلعی انتظامیہ اور چیمبر آف کامرس مشترکہ طور پر اسپانسر کیا کریں۔
مجھے بھی ایک روز قبل دعوت نامہ پہنچا۔ وہاں گیا تو کسی حد تک مایوسی ہوئی۔ وہ ہال جن میں مصنفین اپنے مضامین کے اقتباس سنایا کرتے تھے، خالی پڑے تھے، اسٹال بھی کم اور خریداروں سے خالی تھے، وزارتِ تعلیم نے البتہ اپنے ماتحت اسکولوں کے بچوں کو بلا رکھا تھا۔
یہ بھی اچھی ریت ہے، بچوں اور نوجوان طلبا کی کتابی ماحول سے آشنائی پیدا کرنا ایک مفید اقدام ہے۔
مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بڑے بھر پور قسم کے کتاب میلے منعقد کرائے تھے۔
اس وقت پورے ملک سے معروف ادیبوں، شاعروں اور مصنفین کو مدعو کیا جاتا تھا۔ اور اس میں نظریات کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔ (اگرچہ لٹریری فیسٹیول والے صرف مخصوص نظریات والے لوگوں کو ہی بلاتے ہیں) انھیں عزت دینے کے لیے ان کے باتصویر اسٹیمر اسلام آباد کی اہم شاہراہوں پر آویزاں کیے جاتے تھے۔
تین دن پاک چائنا سینٹر کے ہر ہال سے علمی اور ادبی سرگرمیوں کی کرنیں پھوٹتی تھیں، راہداریوں میں آسمانِ ادب کے درخشندہ ستارے آجارہے ہوتے تھے۔ کسی ہال میں عطاء الحق قاسمی قہقہے بکھیر رہے ہوتے تو کسی میں انور مسعود صاحب پیٹ میں بَل ڈال رہے ہوتے۔ کہیں سے افتخار عارف برآمد ہورہے ہوتے اور کہیں امجد اسلام امجد منڈلی جمائے نظر آتے۔
مجھے یاد ہے اُن یادگار میلوں میں ایک بار میں پاک چائنا سینٹر میں داخل ہوا تو اوپر سے لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں نیچے تک آرہی تھیں، میں نے سوچا یہ یقیناً انور مسعود صاحب ہوں گے جو اپنی شگفتہ شاعری اور فنکارانہ ادائیگی سے انتہائی سنکی قسم کے بابوؤں کو بھی ہنسانے کی صلاحیّت رکھتے ہیں۔
ہال میں داخل ہوا تو وہ عطاء الحق قاسمی صاحب تھے جن کی تحریر کی تروتازگی اور شگفتگی آج بھی اُس طرح قائم ودائم ہے جیسے چالیس سال پہلے تھے۔
وہ فقرہ ختم کرتے تو ہال خواتین و حضرات کے قہقہوں سے گونج اٹھتا۔ مگر ہر کومیڈی کے ساتھ ایک ٹریجیڈی بھی جڑی ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ جونہی قاسمی صاحب اسٹیج سے اترے تو اسٹیج سیکریٹری نے، جو مجھے ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا فوری طور پر مجھے ہی روسٹرم پر بلالیا۔
غلط موقع پر دی جانے والی یہ دعوت کسی اچانک حملے سے کم نہ تھی، جواباً میں نے اسٹیج سیکریٹری کو بڑے غصے سے گھور کر دیکھا اور اشاروں سے اسے convey بھی کیا، کہ ظالما! تجھے embarass کرنے کے لیے میں ہی ملا تھا، ایسی حرکت کرنے پر علاج تو تمہارا یہ ہے کہ کسی تکڑے تھانیدار کو کہہ کر اور کچھ نہیں تو آوارہ گردی میں ہی تمہارا چالان کرایا جائے۔
بہرحال میں بھی اپنی کتاب لے کر ڈائس پر چلا گیا، پہلے کچھ اور سنانے کا پروگرام تھا مگر قاسمی صاحب نے کسی چھمک چھلو نامی ریٹائرڈ نائیکہ کا اپنی زیر تربیت صاحبزادی کے نام خط سنا کر جو سماں باندھا تھا۔
اس کے اثرات سے بچنے کے لیے میں نے بھی کسی جونیئر سی چھک چھلو کا واقعہ سنایا جو میری کتاب کے مضمون ''عزت'' میں درج تھا کہ ایک بار ہفت روزہ ''چیر پھاڑ'' کے چیف رپورٹر انٹرویو لینے کے لیے موصوفہ کے کوٹھے پر پہنچ گئے اور پوچھا کہ''اب جب کہ آپ شہر کی نمبر ون رقاصہ بن چکی ہیں تو فلموں میں کب اینٹری ڈال رہی ہیں''۔ موصوفہ نے ترنت جواب دیا ''اللہ نے یہیں بڑی عزت دی ہوئی ہے، اس گند میں کیا پڑنا ہے''۔
اس پر اسٹیج سے بھی ایک زنانہ ہنسی کی آواز سنائی دی، غور سے دیکھا تو اسٹیج پر فلم اسٹار ریما بھی براجمان تھیں، بعد میں ان کی کتاب دوستی کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کتابوں کی اتنی شائق نہیں مگر کتابیں لکھنے والوں میں موصوفہ کے شائقین بہت ہیں۔ بہرحال ان دنوں وفاقی دارالحکومت سے پورے کے پورے کنبے ان علمی میلوں میں شریک ہونے کے لیے پہنچتے تھے۔
تیسرے اور چوتھے بک فیئر پر اسلام آباد کے شہریوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ سالانہ کتاب میلے نے اسلام آباد کا کلچر تبدیل کر دیا ہے، اور یہ ادبی میلہ گریڈوں کے اس شہر کی ادبی، سماجی اور ثقافتی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔
کسی بھی کام کو درجۂ کمال تک پہنچانے کے لیے صلاحیّت کے ساتھ ساتھ جذبہ، جنون اور عشق درکار ہوتا ہے، جو پچھلے دور میں نظر آتا تھا اور وہی تقریبات میں جان ڈالتا تھا۔ مگر اس بار کا میلہ اُس جذبے اور عشق سے تہی نظر آیا۔ اس بار کا ایونٹ ایک سرکاری قسم کی تقریب کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ اور وہ بھی کسی نگران حکومت کا نگران قسم کا میلہ۔
ماضی کے بک فیئرز میں اپنی اردو اور انگریزی کی کتابوں کے اقتباس میں سامعین کو سنا چکا تھا۔ ان تین کتابوں کے بعد میرے مزاحیہ اور طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب 'پس پردہ' بک کارنر جہلم والوں نے شایع کی۔ پبلشر حضرات ان میلوں میں کتابوں کے شائقین کو مصنّفین سے ملانے کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔
بک کارنر کے مالک گگن شاہد کے ساتھ یہ طے ہوا کہ میلے کے دوسرے روز یعنی 26 نومبر دوپہر ایک بجے میں ان کے اسٹال پر پہنچ جاؤں گا اور ایک گھنٹے تک وہاں رہوں گا۔ میں اپنے دیرینہ دوست اکرم طاہر صاحب (ریٹائرڈ چیف کمشنر انکم ٹیکس) کے ساتھ سوا ایک بجے پاک چائنا سینٹر پہنچ گیا۔ ہر طرف بچوں کا ہجوم نظر آیا جو استانیوں کی کمان یا حراست میں قطاروں میں چل پھر رہے تھے اور بڑے ڈسپلن کے ساتھ شور مچارہے تھے۔
ہم نے برقی سیڑھیوں کے ذریعے اوپر جاکر تمام اسٹالوں کا راؤنڈ لگایا، چونکہ شہری بے خبر تھے اس لیے زیادہ تر اسٹالوں پر رونق نہیں تھی۔
اقبال اکیڈمی کے اسٹال پر سب سے زیادہ رونق نظر آئی۔ میں نے بھی وہاں سے دو کتابیں خریدیں ان میں سے ایک میڈم ڈورس احمد (وہ جرمن خاتون جو جاوید اقبال کی والدہ کی وفات کے بعد علی گڑھ سے علامہ صاحب کے دونوں کمسن بچوں کو سنبھالنے کے لیے جاوید منزل آگئی تھیں) کی کتاب 'Iqbal as I knew him' بھی تھی جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد اپنے دوستوں کو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی گورنس کا انتظام کرنے کے لیے کہہ رکھا تھا۔
ڈورس احمد کے بہنوئی انڈین مسلم تھے اورعلی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور وہ وہیں اپنی ہمشیرہ کے پاس رہتی تھیں، علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ان کے بہنوئی کو قائل کیا اور مادام ڈورس کو بتایا کہ علّامہ اقبال کی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے وہی حیثیت ہے جو جرمنی کے لیے گوئٹے کی ہے۔ اس پر وہ مان گئیں۔
انھوں نے بڑی عقیدت اور محبّت کے ساتھ علامہ اقبال کی فیمیلی کے ساتھ اپنے بیتے ہوئے سالوں کا ذکر کیا ہے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آئے تو سامنے ہی بک کارنر کا اسٹال نظر آگیا گگن شاہد نے فیس بک پر اعلان کر رکھا تھا، اس لیے کچھ دوست بھی پہنچ گئے تھے، سیرت اصغر (سابق وفاقی سیکریٹری) جمیل افضل چیمہ پروفیسر اکرم چوہدری، چوہدری امتیاز وڑائچ، احسان صادق (ڈائریکٹر جنرل پولیس بیورو)، عبداللطیف راجپوت اور نوجوان ساجد امین سے بھی وہیں ملاقات ہوئی۔ کچھ اور خواتین وحضرات بھی آگئے اور کتاب پر دستخطوں کا سلسلہ چلتا رہا۔
گگن کے اسٹاف نے سب دوستوں اور کتاب کے شائقین کے لیے گرما گرم چائے بھی مہیا کردی جس سے ماحول مزید خوشگوار ہوگیا۔ گگن شاہد نے آغاز میں اسٹال پر پس پردہ کی چالیس کاپیاں رکھنے کاپروگرام بنایا تھا۔ میرے کہنے پر وہ پچاس کاپیاں مزید لے آیا تھا۔ کچھ خواتین وحضرات نے راقم کی دوسری کتابیں بھی طلب کیں مگر اسٹال پر میری انگریزی کی کتاب Talk' 'Straight کی صرف دو کاپیاں تھیں جو فوراً بک گئیں۔
دو گھنٹے کے بعد بھی جب کچھ لوگوں نے 'پس پردہ' مانگی تو بک کارنر کے اسٹاف نے ہاتھ کھڑے کردیے اور بتایا کہ دو گھنٹے میں اس کتاب کی نوّے کاپیاں فروخت ہوگئیں ہیں اور اب ہمارے پاس اس کی کوئی اور کاپی نہیں بچی، اگرچہ اسٹال پر پس پردہ کا کوئی پوسٹر نہیں لگا تھا مگر کتاب دوست خواتین وحضرات اچھی اور دلچسپ کتاب کے مصنّف سے ملاقات کرنے اور اس کی دستخط شدہ کتاب لینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں اور اب پھر زور دے کر کہوں گا کہ کتاب بینی کو فروغ دینے کے لیے حکومت اور بڑے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ پبلشرز کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کریں ان سے اسٹال کی کوئی فیس نہ لی جائے، مگر ناشرین پر لازم ہو کہ کتاب میلوں پر وہ اپنی تمام کتابیں پچاس فیصد رعایتی قیمت پر فروخت کریں گے۔
ہر ڈویژنل اور ضلعی ہیڈکواٹر میں کتاب میلوں کا اہتمام ہونا چاہیے اور ان events کو ضلعی انتظامیہ اور چیمبر آف کامرس مشترکہ طور پر اسپانسر کیا کریں۔