فیض کار زار صحافت میں پہلا حصہ
ان کی شخصیت میں گونا گوں خوبیاں ابھارنے والوں میں ان کے والدین اور اساتذہ کا اہم کردار تھا
ایسے لوگ ملکوں کی تاریخ میں کم پیدا ہوتے ہیں جن میں بیک وقت کئی غیر معمولی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ برصغیر اس اعتبار سے بڑا خوش قسمت خطہ ہے کہ یہاں اس طرح کی بڑی شخصیات دوسرے خطوں کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
تحریک آزادی میں حصہ لینے والے سرکردہ رہنما قید کے دوران نہ صرف مطالعے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے بلکہ اعلیٰ پائے کی کتابیں بھی تحریر کرتے تھے۔ پاکستان میں متنوع تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والوں میں فیض احمد فیض کا نام بہت نمایاں ہے۔ فیض صاحب اردو کے عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بہترین نثر نگار، تجزیہ کار، ایڈیٹر اور صحافی بھی تھے۔
ان کی شخصیت میں گونا گوں خوبیاں ابھارنے والوں میں ان کے والدین اور اساتذہ کا اہم کردار تھا۔ ان کے والد نے انھیں ابتدائی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں داخل کرایا۔ اس مکتب کے سربراہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔
ان کے مکتب کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ بچے وہاں نہ صرف قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ انھیں فارسی اور عربی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ابتدائی تعلیم کا یہ دور آگے چل کر فیض صاحب کے بہت کام آیا۔ فارسی اور عربی زبان میں مہارت نے ان کے اشعار میں نیا رنگ پیدا کیا اور انھوں نے فارسی و عربی ادب سے گہرا استفادہ کیا۔
فیض صاحب نے سیالکوٹ کے جس اسکول سے تعلیم حاصل کی وہاں علامہ اقبال بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ فیض صاحب کو ادب سے کس قدر لگاؤ تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے 1933 میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور اس کے بعد 1934 میں عربی زبان اور ادب میں بڑے امتیاز سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
20 ویں صدی کے گنتی ہی کے چند بڑے شاعر اور ادیب ہوں گے جنھوں نے ان کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوگی۔
فیض کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انھیں ناٹک دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس دور کے ہندوستان میں بہت سی ناٹک منڈلیاں مختلف شہروں میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ فیض صاحب ڈرامہ نگاری سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے بہت سے ڈرامے لکھے جو ریڈیو سے نشر بھی کیے گئے۔
صحافت کے شعبے میں آنے والے ہمارے نوجوان صحافیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج سے چند دہائیوں پہلے تک ہماری اردو اور انگریزی صحافت کا معیارکتنا بلند ہوتا تھا اور اس شعبے کو معتبر بنانے میں کتنے اہم لوگوں نے دن رات ایک کیے تھے۔
فیض صاحب کی زندگی میں ایک بڑا موڑ اس وقت آیا جب امرتسر میں ان کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی جو ان دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کو منظم کرنے میں مصروف تھے۔
سجاد ظہیر سے فیض صاحب کا رابطہ صاحب زادہ محمود الظفر اور ان کے اہلیہ ڈاکٹر رشید جہاں کے ذریعے ہوا۔ یہ ان ہی ملاقاتوں کا ثمر تھا کہ مارکسزم میں فیض صاحب کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں لاہور سے '' ادب لطیف'' نامی ایک مشہور ادبی جریدہ شایع ہوا کرتا تھا۔ فیض صاحب اس پرچے سے وابستہ ہوگئے۔
یہ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز تھا۔ انھوں نے ''ادب لطیف'' کی ادارت کے فرائض بھی سنبھال لیے۔ ایلس سے ان کی شادی 1941 میں ہوئی اور ان کا نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھایا۔ فیض صاحب نے سرکاری نوکری کا مزہ بھی چکھا اور فوج میں افسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ وہ بائیں بازو کی فکر سے متاثر جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ کیپٹن سے میجر اور پھر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر فوج سے مستعفی ہوگئے۔
1947 میں فیض صاحب پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ہمارے نوجوان صحافیوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فیض صاحب صحافی اور مدیر ہونے کے ساتھ ایک ٹریڈ یونین رہنما بھی تھے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھیں راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔
انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ چار سال پاکستان کے مختلف شہروں کی جیلوں میں گزارے، اس مقدمے سے انھیں باعزت رہائی ملی۔ اپنی اسیری کے دوران انھوں نے بے مثال شاعری کی۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے دست صبا اور زنداں نامہ کا زیادہ تر کلام اسیری کے دوران ہی تخلیق کیا گیا تھا۔ فیض صاحب نے ایڈیٹر کے طور پر اپنے کام سے بڑی عزت اور شہرت حاصل کی۔ انھیں کسی اخبار کی ادارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
جب میاں افتخار الدین نے انھیں پاکستان ٹائمز کا چیف ایڈیٹر مقرر کرنے کے بارے میں بتایا تو وہ پریشان ہوگئے۔ انھوں نے میاں صاحب سے کہا کہ میں صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوں۔ اتنی اہم ذمے داری کس طرح سنبھال سکوں گا۔ میاں صاحب نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور فوج سے استعفیٰ دے کر ادارت سنبھالنے کی ہدایت کی۔ فیض صاحب نے ڈھائی ہزار روپے مہینے والی فوج کی نوکری چھوڑ کر ایک ہزار روپے ماہانہ پر اخبارکی ادارت شروع کی۔
1948 میں امروز کا اجرا ہوا تو اس کی ادارت کے لیے فیض صاحب نے مولانا چراغ حسن حسرت کا انتخاب کیا۔ فیض صاحب نے بطور ایڈیٹر نہ صرف اخبارات کا معیار بلند کیا بلکہ اعلیٰ سطح کے اداریے بھی تحریرکیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اداریوں کو یکجا کر کے شایع کیا گیا ہے یا نہیں۔ انھوں نے قائد اعظم کے انتقال پر جو اداریہ لکھا وہ صحافت سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک حوالہ اور مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
اس اداریے کا عنوان تھا '' ہمیں خدا کی طرف واپس جانا ہے'' اسی طرح انھوں نے گاندھی جی کے قتل پر بھی ایک معرکۃ الاراء اداریے میں لکھا کہ ان کا گزر جانا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک المناک واقعہ ہے۔ اب یہ بھی نوجوانوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے سوگ میں پاکستان میں قومی تعطیل کی گئی تھی اور اس دن تمام سرکاری اور نجی ادارے بند رہے تھے۔
اظہار رائے کی آزادی کے حق میں فیض صاحب نے ہمیشہ جدوجہد کی۔ سعادت حسن منٹوکا مشہور افسانہ '' ٹھنڈا گوشت '' لاہور کے ایک ماہنامہ میں شایع ہوا تو اس رسالے کو ضبط کر لیا گیا۔ یہ معاملہ اس وقت کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے لایا گیا جس کا اجلاس پاکستان ٹائمز کے دفتر میں ہوا۔ فیض احمد فیض کے سوا کمیٹی کے تمام ارکان نے منٹو کے خلاف گواہی دی۔
فیض صاحب اداریوں کو خصوصی اہمیت دیا کرتے تھے۔ آج بھی پوری دنیا میں اخبارات، رسائل اور جرائد میں شایع ہونے والے اداریوں پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے،کیونکہ اس سے کسی بھی اخبار یا جریدے کی پیشہ وارانہ دیانت داری اور ساکھ کا تعین کیا جاتا ہے۔ حمید اختر لکھتے ہیں کہ '' وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔
موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہوجاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ ان کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے تھے۔
میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں۔ اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انھیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے، جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے۔'' (جاری ہے)
تحریک آزادی میں حصہ لینے والے سرکردہ رہنما قید کے دوران نہ صرف مطالعے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے بلکہ اعلیٰ پائے کی کتابیں بھی تحریر کرتے تھے۔ پاکستان میں متنوع تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والوں میں فیض احمد فیض کا نام بہت نمایاں ہے۔ فیض صاحب اردو کے عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ ایک بہترین نثر نگار، تجزیہ کار، ایڈیٹر اور صحافی بھی تھے۔
ان کی شخصیت میں گونا گوں خوبیاں ابھارنے والوں میں ان کے والدین اور اساتذہ کا اہم کردار تھا۔ ان کے والد نے انھیں ابتدائی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں داخل کرایا۔ اس مکتب کے سربراہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔
ان کے مکتب کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ بچے وہاں نہ صرف قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ انھیں فارسی اور عربی زبان بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ابتدائی تعلیم کا یہ دور آگے چل کر فیض صاحب کے بہت کام آیا۔ فارسی اور عربی زبان میں مہارت نے ان کے اشعار میں نیا رنگ پیدا کیا اور انھوں نے فارسی و عربی ادب سے گہرا استفادہ کیا۔
فیض صاحب نے سیالکوٹ کے جس اسکول سے تعلیم حاصل کی وہاں علامہ اقبال بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ فیض صاحب کو ادب سے کس قدر لگاؤ تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے 1933 میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور اس کے بعد 1934 میں عربی زبان اور ادب میں بڑے امتیاز سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
20 ویں صدی کے گنتی ہی کے چند بڑے شاعر اور ادیب ہوں گے جنھوں نے ان کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوگی۔
فیض کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انھیں ناٹک دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس دور کے ہندوستان میں بہت سی ناٹک منڈلیاں مختلف شہروں میں جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ فیض صاحب ڈرامہ نگاری سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ انھوں نے بہت سے ڈرامے لکھے جو ریڈیو سے نشر بھی کیے گئے۔
صحافت کے شعبے میں آنے والے ہمارے نوجوان صحافیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج سے چند دہائیوں پہلے تک ہماری اردو اور انگریزی صحافت کا معیارکتنا بلند ہوتا تھا اور اس شعبے کو معتبر بنانے میں کتنے اہم لوگوں نے دن رات ایک کیے تھے۔
فیض صاحب کی زندگی میں ایک بڑا موڑ اس وقت آیا جب امرتسر میں ان کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی جو ان دنوں انجمن ترقی پسند مصنفین کو منظم کرنے میں مصروف تھے۔
سجاد ظہیر سے فیض صاحب کا رابطہ صاحب زادہ محمود الظفر اور ان کے اہلیہ ڈاکٹر رشید جہاں کے ذریعے ہوا۔ یہ ان ہی ملاقاتوں کا ثمر تھا کہ مارکسزم میں فیض صاحب کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس زمانے میں لاہور سے '' ادب لطیف'' نامی ایک مشہور ادبی جریدہ شایع ہوا کرتا تھا۔ فیض صاحب اس پرچے سے وابستہ ہوگئے۔
یہ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز تھا۔ انھوں نے ''ادب لطیف'' کی ادارت کے فرائض بھی سنبھال لیے۔ ایلس سے ان کی شادی 1941 میں ہوئی اور ان کا نکاح شیخ محمد عبداللہ نے پڑھایا۔ فیض صاحب نے سرکاری نوکری کا مزہ بھی چکھا اور فوج میں افسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔ وہ بائیں بازو کی فکر سے متاثر جنرل اکبر خان کے ماتحت ایک یونٹ میں فرائض انجام دیتے تھے۔ وہ کیپٹن سے میجر اور پھر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر پہنچ کر فوج سے مستعفی ہوگئے۔
1947 میں فیض صاحب پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ہمارے نوجوان صحافیوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فیض صاحب صحافی اور مدیر ہونے کے ساتھ ایک ٹریڈ یونین رہنما بھی تھے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھیں راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا۔
انھوں نے ایک دو نہیں بلکہ چار سال پاکستان کے مختلف شہروں کی جیلوں میں گزارے، اس مقدمے سے انھیں باعزت رہائی ملی۔ اپنی اسیری کے دوران انھوں نے بے مثال شاعری کی۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے دست صبا اور زنداں نامہ کا زیادہ تر کلام اسیری کے دوران ہی تخلیق کیا گیا تھا۔ فیض صاحب نے ایڈیٹر کے طور پر اپنے کام سے بڑی عزت اور شہرت حاصل کی۔ انھیں کسی اخبار کی ادارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
جب میاں افتخار الدین نے انھیں پاکستان ٹائمز کا چیف ایڈیٹر مقرر کرنے کے بارے میں بتایا تو وہ پریشان ہوگئے۔ انھوں نے میاں صاحب سے کہا کہ میں صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوں۔ اتنی اہم ذمے داری کس طرح سنبھال سکوں گا۔ میاں صاحب نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور فوج سے استعفیٰ دے کر ادارت سنبھالنے کی ہدایت کی۔ فیض صاحب نے ڈھائی ہزار روپے مہینے والی فوج کی نوکری چھوڑ کر ایک ہزار روپے ماہانہ پر اخبارکی ادارت شروع کی۔
1948 میں امروز کا اجرا ہوا تو اس کی ادارت کے لیے فیض صاحب نے مولانا چراغ حسن حسرت کا انتخاب کیا۔ فیض صاحب نے بطور ایڈیٹر نہ صرف اخبارات کا معیار بلند کیا بلکہ اعلیٰ سطح کے اداریے بھی تحریرکیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے اداریوں کو یکجا کر کے شایع کیا گیا ہے یا نہیں۔ انھوں نے قائد اعظم کے انتقال پر جو اداریہ لکھا وہ صحافت سے وابستہ لوگوں کے لیے ایک حوالہ اور مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
اس اداریے کا عنوان تھا '' ہمیں خدا کی طرف واپس جانا ہے'' اسی طرح انھوں نے گاندھی جی کے قتل پر بھی ایک معرکۃ الاراء اداریے میں لکھا کہ ان کا گزر جانا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیے ایک المناک واقعہ ہے۔ اب یہ بھی نوجوانوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ گاندھی جی کے قتل کے سوگ میں پاکستان میں قومی تعطیل کی گئی تھی اور اس دن تمام سرکاری اور نجی ادارے بند رہے تھے۔
اظہار رائے کی آزادی کے حق میں فیض صاحب نے ہمیشہ جدوجہد کی۔ سعادت حسن منٹوکا مشہور افسانہ '' ٹھنڈا گوشت '' لاہور کے ایک ماہنامہ میں شایع ہوا تو اس رسالے کو ضبط کر لیا گیا۔ یہ معاملہ اس وقت کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے سامنے لایا گیا جس کا اجلاس پاکستان ٹائمز کے دفتر میں ہوا۔ فیض احمد فیض کے سوا کمیٹی کے تمام ارکان نے منٹو کے خلاف گواہی دی۔
فیض صاحب اداریوں کو خصوصی اہمیت دیا کرتے تھے۔ آج بھی پوری دنیا میں اخبارات، رسائل اور جرائد میں شایع ہونے والے اداریوں پر خاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے،کیونکہ اس سے کسی بھی اخبار یا جریدے کی پیشہ وارانہ دیانت داری اور ساکھ کا تعین کیا جاتا ہے۔ حمید اختر لکھتے ہیں کہ '' وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔
موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہوجاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ ان کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے تھے۔
میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں۔ اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انھیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے، جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے۔'' (جاری ہے)