کراچی میں فلسطینی پرچموں کی بہار
شہر میں متحرک تمام غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے ہوئے، میڈیا کو موبیلائزکیا گیا
مزارِ قائد جانے والی شاہراہِ قائدین پر فلسطین کے پرچموں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ ہزاروں افراد گزشتہ بدھ کو غزہ کے محکوموں سے یکجہتی کے لیے جمع تھے، یوں ایک ریلی طارق روڈ اور شاہراہِ قائدین کے سنگم پر منظم ہوئی تھی۔
اس ریلی کا وقت دوپہر ساڑھے تین بجے طے ہوا تھا۔ فلسطینی عوام سے یکجہتی کمیٹی کے منتظمین اور رضاکار تو صبح سے شاہراہ قائدین پر لگے ہوئے کیمپ میں جمع تھے مگر دوپہر ہوتے ہی لوگ کچھ انفرادی طور پر اورکچھ گروہوں کی شکل میں آنے لگے، ان میں اسکول کے بچے بھی تھے۔
بائیں بازوکی تحریک سے تعلق رکھنے والے پرانے کارکن بھی شامل تھے اور بوڑھے اور معمر افراد، خواتین اور مختلف سیاسی کارکنوں کے رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ فہیم الزماں نوجوانی سے نئے خیالات کے امین رہے ہیں۔
جب جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کے طالب علم تھے تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو فرنٹ کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ جب پی آئی اے کا طیارہ اغواء ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں ایک جبرکا دور آیا اور پروگریسو فرنٹ منتشر ہوگیا تو انھوں نے حاصل بزنجو، حاجرہ بانو اور مظہر عباس وغیرہ کے ساتھ مل کر یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ USM قائم کی۔
اس زمانے میں مہاجر طلبہ تنظیم آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن APMSO قائم ہوگئی تھی مگر ترقی پسند تنظیموں اور اے پی ایم ایس او کے درمیان طویل فاصلے تھے۔ پھر یو ایم ایس اور اے پی ایم ایس او کا متحدہ محاذ قائم ہوا تھا۔
جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تو دیگر ترقی پسند طلبہ نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ مل کر ایک نئی جدوجہد شروع کی۔
فہیم الزماں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گئے اور وہاں سے کمرشل پائلٹ بن کر آگئے اور کسی ایئرلائن میں پرکشش ملازمت حاصل کرنے کے بجائے مولانا عبدالستار ایدھی کی ایئر ایمبولینس سروس قائم کرنے میں توانائیاں صرف کردیں۔
امریکا میں این ای ڈی یونیورسٹی کے استاد اور مارکسی دانشور پروفیسر محمد نعمان کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ پاکستان آنے کے بعد سماجی کام کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ پروفیسر نعمان کے ساتھ سماجی کاموں میں لگ گئے جنھوں نے ایدھی سینٹروں کو جدید وائرلیس کے نظام سے منسلک کیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے فہیم الزماں کا بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر طور پر تقررکیا۔ وہ شہر کی ترقی کے لیے کچھ منصوبے شروع کرنا چاہتے تھے مگر کچھ خواب نامکمل رہ گئے۔ وہ پیپلز پاٹی کے سسٹم میں خود کو شامل نہ کر پائے اور مستعفی ہوگئے۔ فہیم الزماں حالاتِ حاضرہ ، بین الاقوامی امور اور شہروں کی ڈیموگرافی وغیرہ پر مکمل کمانڈ رکھتے ہیں۔
عالمی مزاحمتی تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے۔ جب اکتوبر میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا تو اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کی اور فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تو فہیم الزماں نے کراچی میں غزہ کے عوام سے یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی منظم کرنے کا سوچا اور اپنے دوستوں کو ایک شام کراچی پریس کلب مدعو کیا۔
فہیم کی دعوت پر کم لوگ آئے۔ آنے والوں میں کینیڈا سے آئے ہوئے عمر فاروق، شکیل جعفری ، پروفیسر سلیم میمن اور نعمان وغیرہ شامل تھے۔ فہیم الزماں کا آئیڈیا یہ تھا کہ کراچی شہر میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لیے عظیم الشان ریلی کا انعقاد ہونا چاہیے اور اس ریلی میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، پیشہ وارانہ تنظیموں ، سول سوسائٹی کی تنظیموں، طلبہ، مزدور اور خواتین کو مدعو کیا جائے۔
راقم الحروف سمیت ہم کئی لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو صبح شام ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑتی ہیں کس طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گی۔
یہ تصور عام ہے کہ این جی اوز کی سرگرمیوں کا دارومدار یورپی ممالک، امریکا اور کینیڈا سے ملنے والی گرانٹ پر ہوتا ہے، یوں این جی اوز کے اراکین کی حاضری کا معاملہ گنجلک ہوگا مگر فہیم الزماں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی منظم کرنے کا ٹاسک پورا کرنے میں لگ گئے۔
فہیم کے ساتھ شکیل جعفری، عمر فاروق، سلیم جعفر جاوید، پروفیسر سلیم میمن، ڈاکٹر سجاد ، اختر حسین اور اظہر جمیل وغیرہ اس مشکل کام کی تکمیل میں لگ گئے، یوں ایک طرف جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے رابطے کیے گئے تو دوسری طرف وکلاء کی تنظیموں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن ، صحافیوں کی تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے عہدیداروں سے رابطے ہوئے۔ کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل نے کمیٹی کے اجلاسوں کے لیے اپنے دفاتر کھول دیے۔
شہر میں متحرک تمام غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے ہوئے، میڈیا کو موبیلائزکیا گیا۔ کئی ٹی وی چینلز نے ریلی کے انعقاد کے اعلانات کیے اور ریلی کی تیاریوں کو زبردست کوریج دینا شروع کی، یوں 29 نومبر کو کراچی میں ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر ہارون جو 80کے قریب بہاریں دیکھ چکے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے صاحبِ فراش ہیں ویل چیئر پر ریلی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
پھر مزدور تحریک کے ایک کارکن کرامت علی جو گزشتہ 6 ماہ سے بیمار تھے اس ریلی میں موجود تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ اگر دو تین ایسی ریلیاں نکل جائیں تو وہ پھر جوان ہوجائیں گے۔ اسی طرح سینئر صحافی غازی صلاح الدین اپنی اہلیہ صادقہ صلاح الدین کے ساتھ مسلسل ریلی میں چلتے رہے۔
مہناز رحمنٰ اور عظمی نورانی بھی ریلی میں متحرک تھیں۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ ابھی تک جوان ہیں۔ اس ریلی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم، حسن عسکری، ایم کیو ایم کی کشور زہرا اور نسرین جلیل، مسلم لیگ ن کے محمد زبیر اور نہال ہاشمی، شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب اور عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریلی میں شرکت کرنے آئے تھے مگر سب نے فلسطین کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور فلسطینی پرچم کے اسکارف گلے کے گرد باندھے ہوئے تھے۔
کسی جماعت کے کارکن نے اپنی جماعت کا پرچم نہیں اٹھایا ہوا تھا نا کوئی کارکن اپنے رہنما کے حق میں نعرے بلند کررہا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور سب فلسطین کے عوام سے یکجہتی کے نکتے پر متفق ہیں۔
ہر اس شخص کے لیے جو ان جماعتوں کے رہنماؤں کو ٹی وی ٹاک شوز میں روزانہ الجھتے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے سنتا اور دیکھتا ہے یہ حیرت انگیز تجربہ تھا۔ منتظمین نے اس ریلی کو ایک غیر سیاسی ریلی قرار دیا تھا مگر ریلی کا انعقاد خود سیاسی عمل تھا۔
فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے منظم کی جانے والی ریلی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر مخلصانہ انداز میں بیانیہ ترتیب دیا جائے اور سیاسی رہنماؤں کو صرف ایک نکتہ پر جمع کیا جائے تو فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا جاسکتا ہے۔
فہیم الزماں کا یہ آئیڈیا پورے ملک میں باشعور افراد کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے، اگر فہیم کے اس آئیڈیا پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو دیگر شہروں میں اس طرح کی جامع ریلیاں منعقد ہوسکتی ہیں۔
اس ریلی کا وقت دوپہر ساڑھے تین بجے طے ہوا تھا۔ فلسطینی عوام سے یکجہتی کمیٹی کے منتظمین اور رضاکار تو صبح سے شاہراہ قائدین پر لگے ہوئے کیمپ میں جمع تھے مگر دوپہر ہوتے ہی لوگ کچھ انفرادی طور پر اورکچھ گروہوں کی شکل میں آنے لگے، ان میں اسکول کے بچے بھی تھے۔
بائیں بازوکی تحریک سے تعلق رکھنے والے پرانے کارکن بھی شامل تھے اور بوڑھے اور معمر افراد، خواتین اور مختلف سیاسی کارکنوں کے رہنما اور کارکن بھی شامل تھے۔ فہیم الزماں نوجوانی سے نئے خیالات کے امین رہے ہیں۔
جب جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کے طالب علم تھے تو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو فرنٹ کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ جب پی آئی اے کا طیارہ اغواء ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں ایک جبرکا دور آیا اور پروگریسو فرنٹ منتشر ہوگیا تو انھوں نے حاصل بزنجو، حاجرہ بانو اور مظہر عباس وغیرہ کے ساتھ مل کر یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ USM قائم کی۔
اس زمانے میں مہاجر طلبہ تنظیم آل پاکستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن APMSO قائم ہوگئی تھی مگر ترقی پسند تنظیموں اور اے پی ایم ایس او کے درمیان طویل فاصلے تھے۔ پھر یو ایم ایس اور اے پی ایم ایس او کا متحدہ محاذ قائم ہوا تھا۔
جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تو دیگر ترقی پسند طلبہ نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ مل کر ایک نئی جدوجہد شروع کی۔
فہیم الزماں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گئے اور وہاں سے کمرشل پائلٹ بن کر آگئے اور کسی ایئرلائن میں پرکشش ملازمت حاصل کرنے کے بجائے مولانا عبدالستار ایدھی کی ایئر ایمبولینس سروس قائم کرنے میں توانائیاں صرف کردیں۔
امریکا میں این ای ڈی یونیورسٹی کے استاد اور مارکسی دانشور پروفیسر محمد نعمان کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ پاکستان آنے کے بعد سماجی کام کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ پروفیسر نعمان کے ساتھ سماجی کاموں میں لگ گئے جنھوں نے ایدھی سینٹروں کو جدید وائرلیس کے نظام سے منسلک کیا تھا۔
پیپلز پارٹی نے فہیم الزماں کا بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر طور پر تقررکیا۔ وہ شہر کی ترقی کے لیے کچھ منصوبے شروع کرنا چاہتے تھے مگر کچھ خواب نامکمل رہ گئے۔ وہ پیپلز پاٹی کے سسٹم میں خود کو شامل نہ کر پائے اور مستعفی ہوگئے۔ فہیم الزماں حالاتِ حاضرہ ، بین الاقوامی امور اور شہروں کی ڈیموگرافی وغیرہ پر مکمل کمانڈ رکھتے ہیں۔
عالمی مزاحمتی تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے۔ جب اکتوبر میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا تو اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کی اور فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تو فہیم الزماں نے کراچی میں غزہ کے عوام سے یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی منظم کرنے کا سوچا اور اپنے دوستوں کو ایک شام کراچی پریس کلب مدعو کیا۔
فہیم کی دعوت پر کم لوگ آئے۔ آنے والوں میں کینیڈا سے آئے ہوئے عمر فاروق، شکیل جعفری ، پروفیسر سلیم میمن اور نعمان وغیرہ شامل تھے۔ فہیم الزماں کا آئیڈیا یہ تھا کہ کراچی شہر میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لیے عظیم الشان ریلی کا انعقاد ہونا چاہیے اور اس ریلی میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں، پیشہ وارانہ تنظیموں ، سول سوسائٹی کی تنظیموں، طلبہ، مزدور اور خواتین کو مدعو کیا جائے۔
راقم الحروف سمیت ہم کئی لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو صبح شام ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑتی ہیں کس طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں گی۔
یہ تصور عام ہے کہ این جی اوز کی سرگرمیوں کا دارومدار یورپی ممالک، امریکا اور کینیڈا سے ملنے والی گرانٹ پر ہوتا ہے، یوں این جی اوز کے اراکین کی حاضری کا معاملہ گنجلک ہوگا مگر فہیم الزماں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی منظم کرنے کا ٹاسک پورا کرنے میں لگ گئے۔
فہیم کے ساتھ شکیل جعفری، عمر فاروق، سلیم جعفر جاوید، پروفیسر سلیم میمن، ڈاکٹر سجاد ، اختر حسین اور اظہر جمیل وغیرہ اس مشکل کام کی تکمیل میں لگ گئے، یوں ایک طرف جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سے رابطے کیے گئے تو دوسری طرف وکلاء کی تنظیموں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن ، صحافیوں کی تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے عہدیداروں سے رابطے ہوئے۔ کراچی پریس کلب اور آرٹس کونسل نے کمیٹی کے اجلاسوں کے لیے اپنے دفاتر کھول دیے۔
شہر میں متحرک تمام غیر سرکاری تنظیموں سے رابطے ہوئے، میڈیا کو موبیلائزکیا گیا۔ کئی ٹی وی چینلز نے ریلی کے انعقاد کے اعلانات کیے اور ریلی کی تیاریوں کو زبردست کوریج دینا شروع کی، یوں 29 نومبر کو کراچی میں ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر ہارون جو 80کے قریب بہاریں دیکھ چکے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے صاحبِ فراش ہیں ویل چیئر پر ریلی میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
پھر مزدور تحریک کے ایک کارکن کرامت علی جو گزشتہ 6 ماہ سے بیمار تھے اس ریلی میں موجود تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ اگر دو تین ایسی ریلیاں نکل جائیں تو وہ پھر جوان ہوجائیں گے۔ اسی طرح سینئر صحافی غازی صلاح الدین اپنی اہلیہ صادقہ صلاح الدین کے ساتھ مسلسل ریلی میں چلتے رہے۔
مہناز رحمنٰ اور عظمی نورانی بھی ریلی میں متحرک تھیں۔ سینئر صحافی سہیل سانگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ ابھی تک جوان ہیں۔ اس ریلی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم، حسن عسکری، ایم کیو ایم کی کشور زہرا اور نسرین جلیل، مسلم لیگ ن کے محمد زبیر اور نہال ہاشمی، شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب اور عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریلی میں شرکت کرنے آئے تھے مگر سب نے فلسطین کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور فلسطینی پرچم کے اسکارف گلے کے گرد باندھے ہوئے تھے۔
کسی جماعت کے کارکن نے اپنی جماعت کا پرچم نہیں اٹھایا ہوا تھا نا کوئی کارکن اپنے رہنما کے حق میں نعرے بلند کررہا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور سب فلسطین کے عوام سے یکجہتی کے نکتے پر متفق ہیں۔
ہر اس شخص کے لیے جو ان جماعتوں کے رہنماؤں کو ٹی وی ٹاک شوز میں روزانہ الجھتے اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے سنتا اور دیکھتا ہے یہ حیرت انگیز تجربہ تھا۔ منتظمین نے اس ریلی کو ایک غیر سیاسی ریلی قرار دیا تھا مگر ریلی کا انعقاد خود سیاسی عمل تھا۔
فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے منظم کی جانے والی ریلی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر مخلصانہ انداز میں بیانیہ ترتیب دیا جائے اور سیاسی رہنماؤں کو صرف ایک نکتہ پر جمع کیا جائے تو فلسطین کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا جاسکتا ہے۔
فہیم الزماں کا یہ آئیڈیا پورے ملک میں باشعور افراد کے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے، اگر فہیم کے اس آئیڈیا پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو دیگر شہروں میں اس طرح کی جامع ریلیاں منعقد ہوسکتی ہیں۔