بیوی جب چاہے مہر مانگے شوہر ادائیگی کا پابند ہے سپریم کورٹ
یہ قرآن کا تصور، مسلم پرسنل لا کا حصہ ،مہردوران شادی بھی مانگا جا سکتاہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ بیوی کے مطالبے پر حق مہر ادا کرنا لازمی ہے، مہر اسلامی تصور ہے جسے قرآن کریم میں واضح کیا گیا ہے اور اسے پاکستان کے قانون میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، مسلم پرسنل لا 1962 کے سیکشن 2 اسی کے متعلق ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مہر کی عدم ادائیگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے بعد تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ میں لکھا کہ جب بھی بیوی کی طرف سے مطالبہ کیا جائے، مہر کا ادا کرنا ضروری ہے۔
شوہر نے دعویٰ کیا کہ شادی برقرار ہے لہٰذا مہر قابل ادائیگی نہیں، چیف جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے 2001 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مہر کا مطالبہ شادی کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے اور شوہر اس کی ادائیگی کا پابند ہے۔
عدالتی حکم نامہ میں قرار دیا گیا کہ بیوی کو مہر اور نان نفقہ کے حصول کیلیے مقدمہ دائر کرنا پڑا اور شوہر نے اسے غیر ضروری طور پر قانونی چارہ جوئی میں ملوث کیا، جس کے باعث معاملہ ساڑھے چھ سال بعد اس عدالت میں تک پہنچا، اس قسم کی فضول قانونی چارہ جوئی سے عدالتی نظام مفلوج ہو رہا ہے۔
تاہم وکیل صفائی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بیوی کو بینک چیک کے ذریعے مہر ایک ماہ کے اندر ادا کر دیا جائے گا، لہٰذا اگر مہر اور مذکورہ اخراجات ادا نہ کیے گئے تو ایک لاکھ روپے زر تلافی بھی عائد ہوگا اور درخواست گزار کی جائیدادیں بھی اس میں شامل ہوسکتی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مہر کی عدم ادائیگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے بعد تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ میں لکھا کہ جب بھی بیوی کی طرف سے مطالبہ کیا جائے، مہر کا ادا کرنا ضروری ہے۔
شوہر نے دعویٰ کیا کہ شادی برقرار ہے لہٰذا مہر قابل ادائیگی نہیں، چیف جسٹس عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے 2001 کے فیصلے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ مہر کا مطالبہ شادی کے دوران بھی کیا جا سکتا ہے اور شوہر اس کی ادائیگی کا پابند ہے۔
عدالتی حکم نامہ میں قرار دیا گیا کہ بیوی کو مہر اور نان نفقہ کے حصول کیلیے مقدمہ دائر کرنا پڑا اور شوہر نے اسے غیر ضروری طور پر قانونی چارہ جوئی میں ملوث کیا، جس کے باعث معاملہ ساڑھے چھ سال بعد اس عدالت میں تک پہنچا، اس قسم کی فضول قانونی چارہ جوئی سے عدالتی نظام مفلوج ہو رہا ہے۔
تاہم وکیل صفائی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بیوی کو بینک چیک کے ذریعے مہر ایک ماہ کے اندر ادا کر دیا جائے گا، لہٰذا اگر مہر اور مذکورہ اخراجات ادا نہ کیے گئے تو ایک لاکھ روپے زر تلافی بھی عائد ہوگا اور درخواست گزار کی جائیدادیں بھی اس میں شامل ہوسکتی ہیں۔