500 ملین ڈالرکی غیر ملکی سرمایہ کاری کیلیے راہ ہموار

CNCEC اور امارات کی بائیسن انرجی نے ماسٹرEPCF معاہدے کو حتمی شکل دیدی

چینی اور اماراتی کمپنیاں کراچی اور بن قاسم بندرگاہ پر ایل این جی ٹرمینل تعمیر کریں گی —فائل فوٹو

پاکستان میں ایل این جی کی فراہمی کیلیے چین اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی کمپنیوں سے معاہدے ہوگئے، جس سے ملک میں 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔

تفصیلات کے مطابق چائنا نیشنل کیمیکل انجینیئرنگ کمپنی اور امارات کی بائیسن انرجی نے ماسٹر ای پی سی ایف ( انجیئرنگ پروکیورمنٹ کنسٹرکشن اینڈ فنانس ) کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔

یہ منصوبے ایل این جی سیکٹر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، کیوں کہ یہ وہ معاہدے ہیں جو حکومتی گارنٹی کے بغیر کیے جارہے ہیں، پہلے منصوبے پر تعمیراتی کام کا آغاز 2024 کے چوتھے کوارٹر سے شروع ہوگا جبکہ دوسرے منصوبے پر 2025 میں عمل درآمد کا امکان ہے، بائیسن انرجی عمان، ابوظہبی، آسٹریلیا اور نائیجیریا جیسے ممالک سے آزادانہ طور پر ایل این جی کی خریداری کرے گی جو کہ مکمل طور پر نجی بنیادوں پر ہوگی، جس میں حکومت پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔

مزید یہ کہ بائیسن انرجی گیس کو براہ راست مارکیٹ کرے گی اور اپنی موثر مارکیٹنگ کے ذریعے صارفین کے سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائن پر انحصار کو کم کرے گی۔


واضح رہے کہ اس سے قبل مسابقتی کمیشن پاکستان نے امارات کی کمپنی کو دو اداروں تعبیر انرجی لمیٹڈ اور تعبیر انرجی مارکیٹنگ لمیٹڈ کے حصول کی منظوری دی تھی، یہ کمپنیاں ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر اور آپریشن چلانے کے ساتھ ساتھ ایل این جی کی امپورٹ، اسٹوریج اور ڈسٹریبیوشن کی بھی ذمہ دار تھیں، تاہم مسابقتی کمیشن نے اماراتی کمپنیوں کو اس کے 100 فیصد حصول کی منظوری بھی دی۔

انضمام کے عمل کو مکمل کرنے کے بعد بائسن انرجی نے ٹی ای پی ایل اور ٹی ای ایم پی ایل دونوں کمپنیوں کے تمام شیئرز ڈائمنڈ گیس انٹرنیشنل جاپان کمپنی لمیٹڈ سے خرید لیے، معاہدے کے مطابق ابتدائی پراجیکٹ، جسے وی ۔ایل این جی پلوٹو پراجیکٹ کہا جاتا ہے، کے تحت ورچوئل سپلائی چین قائم کرنا ہے جس میں کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل، اسٹوریج ٹینک ایریا، فلنگ کی سہولیات اور متعلقہ اسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔

دوسری انڈر ٹیکنگ، جسے R-LNG پراجیکٹ یا ایمبش پراجیکٹ کہا جاتا ہے، کے تحت طویل فاصلے تک پائپ لائن سپلائی چین قائم کرنا ہے، جس میں پورٹ قاسم میں ایل این جی ٹرمینل، گیسیفیکیشن یونٹس، طویل فاصلے تک پائپ لائن اور متعلقہ اسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے۔

سی این سی ای سی کے مطابق تکمیل کے بعد اس پراجیکٹ سے مقامی مارکیٹ میں یومیہ بنیادوں پر 750 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کی جاسکے گی، ماسٹر ای پی سی ایف معاہدے کے مطابق سی این سی ای سی دونوں ٹرمینلز کی ڈیزائننگ، تعمیر، اور فنانسنگ کی ذمہ دار ہوگی، EPC کی ٹوٹل لاگت کا تخمینہ 500 ملین ڈالر لگایا گیا ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایل این جی فلیکس اپنے V-LNG ٹرمینل پر اسٹوریج ٹینک بنانے پر غور کر رہا ہے، جس کا مقصد کراچی اور نزدیکی صارفین کو بلا تعطل LNG کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔

دستخطی تقریب کے دوران ایل این جی فلیکس کے سی ای او شاہد کریم نے تاریخی سنگ میل کو پاکستان کے صارفین کیلیے امید کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف صارفین کی گیس کی ضروریات پوری ہوںگی بلکہ ملازمتیں پیدا ہوں گی اور کاروبار بھی بڑھے گا، چیئرمین CNCEC زو ہونگ نے پاکستان اور ''بیلٹ اینڈ روڈ'' منصوبے کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان منصوبوں پر تعاون پاکستان اور چین کی دوستی کو مزید گہرا کرے گا۔
Load Next Story