خواتین پر تشدد استحصال پاکستان کا شمار آخری نمبروں پر ایکسپریس فورم

اسلامی اور قانونی حقوق نہیں دیے جا رہے، معاشی طور پر بااختیار بنانا ہے، لڑکوں کی تربیت ضروری، عظمیٰ عاشق

ایکسپریس فورم میں ڈاکٹر عظمیٰ عاشق خان، ڈاکٹر سونیا عمر، حفصہ مظہر شریک گفتگو ہیں ۔ فوٹو : ایکسپریس

خواتین پر تشدد اور ان کے استحصال کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا بھر میں آخری نمبروں پر ہے، معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلیے حکومت اورسول سوسائٹی سمیت تمام طبقات کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار اکیڈیمیا اورسول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ''عورتوں پر تشدد کے خاتمے کی 16 روزہ عالمی مہم'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں کیا، جس کی معاونت احسن کامرے نے کی۔

سربراہ جینڈر سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر عظمیٰ عاشق خان نے کہا کہ گھر سے تعلیمی درسگاہوں تک طلبہ کی تربیت کرنا ہوگی۔ لڑکے، لڑکی میں تفریق ختم کرنا ہوگی، باہر کا ماحول لڑکی کیلیے خراب ہے تو لڑکا بھی اسی صورتحال سے گزر رہا ہوتا ہے، اس کی تربیت کی ضرورت ہے۔


ایسوسی ایٹ پروفیسر سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ، جامعہ پنجاب ڈاکٹر سونیا عمر نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، ہمارے ہاں ایک فیصد بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ خواندگی کم ہونے کی وجہ سے مسائل گھمبیر ہو رہے ہیں۔ آبادی کا 49 فیصد خواتین ہیں جن میں سے 9 فیصد یونیورسٹی کی سطح تک پہنچتی ہیں۔ 24 فیصد لیبر فورس کا حصہ مگر ان کا معاشی استحصال ہو رہا ہے۔ 2010ء میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون آیا، آج بھی انھیں علم نہیں۔

نمائندہ سول سوسائٹی حفصہ مظہر نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی جینڈر انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان چار برسوں سے مسلسل آخری نمبروں پر رہا ہے، اس مرتبہ کچھ بہتری آئی، اب 142 واں نمبر ہے۔ پاکستان میں صنفی تشدد کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہیں، صرف پولیس رپورٹس ہیںجو کئی گنا کم ہیں۔ 30 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے، ہر تین میں سے ایک خاتون تشدد کا شکار ہے۔ 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، ان میں سے ایک کروڑ40لاکھ لڑکیاں ہیں، جن کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

ویمن پروٹیکشن لاء کے تحت وائلنس اگینسٹ ویمن سینٹر بنایا گیا، اب ترمیم کرکے دارالامانوں کو ان مراکز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کیلیے ریفرل سسٹم بنایا جا رہا ہے جس سے متاثرین کو مدد ملے گی۔ حکومت اور سول سوسائٹی کو آگاہی مہم چلانا ہوگی کہ خواتین پر تشدد ناقابل قبول ہے۔
Load Next Story