یونٹی گورنمنٹ فارمولا قابل عمل ہے
یہ نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "میرا اگلا فارمولا منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا ہے
اس وقت وطن عزیز پاکستان ایسی گہری دلدل میں پھنسا ہوا ہے جس میں سیاسی بے یقینی، معاشی ابتری، انتہا پسندی و دہشت گردی، سماجی تقسیم اور نفرت و عداوت کی سیاست نے ایک طرف معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں تو دوسری طرف آئینی اداروں کی حالت زار اور ان پر اٹھتے سوالوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر اور گھنجل بنا دیا ہے۔
جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے تب سے کئی تجربات کیے جاچکے ہیں، کئی نظام آزمائے جاچکے ہیں مگر بدقسمتی سے کم وبیش گزشتہ آٹھ دہائیوں میں یہ سٹیک ہولڈر رولز آف گیم طے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر سیاستدان اپنے تئیں یہ کوشش کریں تو اسٹیبلشمنٹ نہیں مانتی وہ مان جائے تو سیاستدان آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔
پہلے پی ٹی آئی جو کچھ کر رہی تھی وہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کرتی رہی اور کر رہی ہیں۔ یہی تینوں پارٹیاں اقتدار کے سنگھاسن پر باری باری براجمان رہیں۔ باقی جماعتوں کو کبھی اقتدار نہیں ملا، وہ بیچاری ان جماعتوں کے اقتدارمیں حصہ دار ضرور رہیں لیکن "ملک کے وسیع تر مفاد" میں ان تینوں کی کوتاہیوں کو برداشت کرتی رہیں۔
یہ بھی حقیقت اور المیہ ہے کہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور بااختیار حلقوں کی توجہ کا مرکز کبھی عوام نہیں رہی، ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایٹمی ریاست تو ہیں لیکن صحت اور تعلیم جیسے سوشل انڈیکیٹرز نے ہمیں پسماندہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کردیا ہے۔ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمے دار یہی تین بڑی پارٹیاں اور انکے سہولت کار ہیں، اس جرم میں سب برابر شریک ہیں۔
ملک کی موجودہ بے یقینی کی صورتحال پر آج ہر محب وطن شدید اضطراب کا شکار ہے۔ سینئر سیاسی رہنما اور سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا جو فارمولا پیش کیا ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ بھی ملکی حالات سے پریشان ہیں۔
محمد علی درانی طاقتور حلقوں کے منظور نظر افراد میں شمار کیے جاتے ہیں وہ اکثر و بیشتر ملکی سیاست میں ایک مصالحت کار کے طور پر سرگرم نظر آتے ہیں۔
جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی اس وقت انھوں نے حکومت اور پی ڈی ایم کے مابین جاری کشمکش کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش، پھر جب پی ڈی ایم نے عنان اقتدار سنبھالی تب بھی انھوں نے مصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
اس کے بعد جب پی ٹی آئی چیئرمین جیل میں گئے تب بھی انھوں نے ارباب اختیار اور پی ٹی آئی کے مابین مصالحانہ کردار ادا کرنے کے لیے کافی تگ و دو کی۔ اب چند روز قبل محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا فارمولا پیش کرکے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
یہ نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "میرا اگلا فارمولا منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا ہے۔ بہترین نیشنل حکومت وہی ہے جسے عوام منتخب کریں، نیشنل حکومت میں تمام سیاسی جماعتیں ہوں گی، ان جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت وزیر اعظم کے لیے 3نام دے گی، ان میں سے جس کو اسمبلی منتخب کرے وہ وزیراعظم بنے گا۔
منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی کابینہ میں 30سے زیادہ وزراء نہیں ہوں گے، یونٹی گورنمنٹ بننے کے بعد 6ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہونگے جن کی مدت اسمبلیوں کے برابر ہو، یہ بھی طے ہو کہ آیندہ قومی و صوبائی انتخابات کے ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی ہوں"۔
محمد علی درانی کے مطابق "اس وقت ہماری جمہوریت چند الیکٹیبلز کے گرد گھوم رہی ہے، ہم نے نظام کو پاکستان، عوام اور ان کے اداروں کے مفاد میں لانا ہے۔
انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں تحریری معاہدے پر دستخط کریں اور اس معاہدے میں اقرار کریں کہ الیکشن کے بعد ہم سب مل کر حکومت بنائیں گے" اپنے فارمولے کے قابل عمل ہونے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران نے چرچل کی قیادت میں کنزر ویٹو پارٹی اور لبرل پارٹی کی مخلوط حکومت، شمالی آئیرلینڈ کے علاوہ دنیا کے چند دوسرے ممالک میں معاشی مشکلات کے گرداب سے نکلنے کے لیے یونٹی گورنمنٹ کے کامیابی کے حوالے دیتے ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اگر عام انتخابات ہوبھی جاتے ہیں تو کسی جماعت کو دو تہائی اکثریت نہیں ملے گی جب کہ ضرورت ایک مستحکم حکومت کی ہے۔
اور اگر کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی تو پھر وہی چھانگا مانگا اور مانگے تانگے کی سیاست شروع ہو گی، حکومت بنانے کے لیے منڈیاں سجیں گی، لوگوں کے ضمیر خریدے جائیں گے، بریف کیسوں کی سپلائی شروع ہوگی، نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھلیں گے، جہانگیر ترین جیسے سیاستدانوں کے جہاز پرواز بھریں گے۔
کوئی باپ کو منائے گا تو کوئی باپ کے باپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں ممکن ہے کوئی جماعت کھینچ تان کے حکومت تو بنا لے لیکن ایسی حکومت ملک کے لیے خطرناک اور عوام کے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دے گی۔
سیاسی جماعتوں کے مابین صف آرائی تو کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کا ایک لازمی جزو ہوا کرتی ہے اور اگر یہ پرامن، بامقصد اور حقیقتاً جمہوریت کے مفاد میں ہو تو پھر اسے جمہوریت کا حسن قرار دیے جانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن جمہوریت کے نام پر مفادات کی سیاست اور نفسا نفسی کا عالم ہو، ریاست بے یقینی اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہو، جلاؤ گھیراؤ، لانگ مارچ اور دھرنے ہوں اور ریاستی ادارے بھی ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں تو پھر حسبِ سابق الزام ''جمہوریت'' پر ہی آئے گا۔
اگر بغیر قومی اتفاق رائے کے انتخابات ہوگئے تو یہی کچھ ہوگا۔ معلق پارلیمنٹ ہوگی، چوں چوں کے مربے کے مصداق حکومت بنے گی، بھاری بھر کم کابینہ بنانا مجبوری ہوگی، وزراء کی فوج ظفر موج میں ہر ایک کی موج ہوگی، قومی خزانے کا بے دردی سے استعمال ہوگا، وزراء اور حکومتی اراکین اسمبلی کے اللے تللے چل رہے ہونگے، کوئی پوچھنے والا ہوگا نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا۔ اپوزیشن محاذ آرائی کی سیاست کرے گی اور یوں ملک آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے جائے گا۔
اس لیے صرف انتخابات ہی کا انعقاد مسئلے کا حل نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان غیر معمولی حالات سے نکلنے کے لیے محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا جو فارمولا پیش کیا ہے، کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے؟
اس کے بارے میں سب کی اپنی اپنی رائے ہے، بادی النظر میں اس وقت ہماری ریاست کی حالت ایک بیمار کی سی ہے، اور بیمار اپنا علاج کرانے کے لیے کبھی کسی معالج کے پاس جاتا ہے تو کبھی کسی کے پاس، اگر کوئی مشورہ دے کہ دم درود سے آرام آئے گا تو کسی روحانی شخصیت کی چوکھٹ پر چلے جاتے ہیں، کوئی کہے گا کہ فلاں حکیم یا فلاں ہومیو ڈاکٹر بہترین ہے تو ان کی راہ لیتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ کسی طرح مریض صحتیاب ہوجائے۔
پاکستان بھی اس وقت سیاسی اور معاشی طور پر بیمار ہے۔ جو دوا اسے گزشتہ آٹھ دہائیوں سے دی جارہی اس سے بیماری کم نہیں ہورہی بلکہ مزید بڑھ رہی ہے۔
ان حالات میں ایک بار درانی صاحب کا بتایا ہوا نسخہ آزما کر دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں، ممکن ہے بیمار صحتیاب ہو جائے۔ مگر علاج شروع کرنے سے پہلے پرہیز کو یقینی بنانا ہوگا جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے اس بات کی گارنٹی لینا ہوگی کہ وہ طے شدہ معاہدے کی پاسداری کریں گے ظاہر ہے یہ گارنٹی ڈنڈے والی سرکار کے علاوہ کوئی نہیں لے سکتا۔ درانی فارمولے کے مطابق ملک میں صرف قومی و صوبائی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات بھی منعقد ہوں۔
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، تمام تر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرانے کی ذمے داری انھی اداروں پر ہوتی ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا مینڈیٹ صرف قانون سازی کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ الٹی گنگا ہی بہتی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں، یہاں جمہوریت کے نام پر مفادات کا نظام رائج ہے اسی لیے بڑی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے تو اکٹھی ہوئیں لیکن ملک و قوم کے لیے کبھی یکجا نہیں ہوئیں۔
اگر سارے سیاستدان دل پر پتھر رکھ کر درانی کے یونٹی گورنمنٹ کے فارمولے پر عمل کرکے ایک بار ملک و قوم کے لیے متحد ہوجائیں تو شاید اللہ رب العزت خیر کی کوئی صورت نکال لیں۔ الیکشن میں سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت وزارت عظمیٰ کے لیے تین نام پیش کرے اور پارلیمنٹ ان میں سے کسی ایک کو وزیر اعظم بنائے۔
مختصر ترین کابینہ بنائی جائے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا حصہ ہونگی اور کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنے اپنے مفادات کے لیے تو کئی بار اکٹھے ہوچکے ہیں، ایک بار پاکستان کے لیے بھی اکٹھے ہوکر دیکھ لیں شاید قسمت بدل جائے۔
مگر جب ماضی کے تلخ حقائق، پاکستان کے خود پرست اور مفاد پرست سیاستدانوں کے رویوں پر سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ درانی احمقوں کے جنت میں رہ رہے ہیں جو سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملکی مفاد میں کیسے تعاون کریں گے؟
جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے تب سے کئی تجربات کیے جاچکے ہیں، کئی نظام آزمائے جاچکے ہیں مگر بدقسمتی سے کم وبیش گزشتہ آٹھ دہائیوں میں یہ سٹیک ہولڈر رولز آف گیم طے کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر سیاستدان اپنے تئیں یہ کوشش کریں تو اسٹیبلشمنٹ نہیں مانتی وہ مان جائے تو سیاستدان آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔
پہلے پی ٹی آئی جو کچھ کر رہی تھی وہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کرتی رہی اور کر رہی ہیں۔ یہی تینوں پارٹیاں اقتدار کے سنگھاسن پر باری باری براجمان رہیں۔ باقی جماعتوں کو کبھی اقتدار نہیں ملا، وہ بیچاری ان جماعتوں کے اقتدارمیں حصہ دار ضرور رہیں لیکن "ملک کے وسیع تر مفاد" میں ان تینوں کی کوتاہیوں کو برداشت کرتی رہیں۔
یہ بھی حقیقت اور المیہ ہے کہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور بااختیار حلقوں کی توجہ کا مرکز کبھی عوام نہیں رہی، ان کی دنیا ہی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایٹمی ریاست تو ہیں لیکن صحت اور تعلیم جیسے سوشل انڈیکیٹرز نے ہمیں پسماندہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کردیا ہے۔ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمے دار یہی تین بڑی پارٹیاں اور انکے سہولت کار ہیں، اس جرم میں سب برابر شریک ہیں۔
ملک کی موجودہ بے یقینی کی صورتحال پر آج ہر محب وطن شدید اضطراب کا شکار ہے۔ سینئر سیاسی رہنما اور سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا جو فارمولا پیش کیا ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ بھی ملکی حالات سے پریشان ہیں۔
محمد علی درانی طاقتور حلقوں کے منظور نظر افراد میں شمار کیے جاتے ہیں وہ اکثر و بیشتر ملکی سیاست میں ایک مصالحت کار کے طور پر سرگرم نظر آتے ہیں۔
جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی اس وقت انھوں نے حکومت اور پی ڈی ایم کے مابین جاری کشمکش کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش، پھر جب پی ڈی ایم نے عنان اقتدار سنبھالی تب بھی انھوں نے مصالحانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔
اس کے بعد جب پی ٹی آئی چیئرمین جیل میں گئے تب بھی انھوں نے ارباب اختیار اور پی ٹی آئی کے مابین مصالحانہ کردار ادا کرنے کے لیے کافی تگ و دو کی۔ اب چند روز قبل محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا فارمولا پیش کرکے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
یہ نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "میرا اگلا فارمولا منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا ہے۔ بہترین نیشنل حکومت وہی ہے جسے عوام منتخب کریں، نیشنل حکومت میں تمام سیاسی جماعتیں ہوں گی، ان جماعتوں میں سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت وزیر اعظم کے لیے 3نام دے گی، ان میں سے جس کو اسمبلی منتخب کرے وہ وزیراعظم بنے گا۔
منتخب نیشنل یونٹی گورنمنٹ کی کابینہ میں 30سے زیادہ وزراء نہیں ہوں گے، یونٹی گورنمنٹ بننے کے بعد 6ماہ میں بلدیاتی انتخابات ہونگے جن کی مدت اسمبلیوں کے برابر ہو، یہ بھی طے ہو کہ آیندہ قومی و صوبائی انتخابات کے ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی ہوں"۔
محمد علی درانی کے مطابق "اس وقت ہماری جمہوریت چند الیکٹیبلز کے گرد گھوم رہی ہے، ہم نے نظام کو پاکستان، عوام اور ان کے اداروں کے مفاد میں لانا ہے۔
انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں تحریری معاہدے پر دستخط کریں اور اس معاہدے میں اقرار کریں کہ الیکشن کے بعد ہم سب مل کر حکومت بنائیں گے" اپنے فارمولے کے قابل عمل ہونے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران نے چرچل کی قیادت میں کنزر ویٹو پارٹی اور لبرل پارٹی کی مخلوط حکومت، شمالی آئیرلینڈ کے علاوہ دنیا کے چند دوسرے ممالک میں معاشی مشکلات کے گرداب سے نکلنے کے لیے یونٹی گورنمنٹ کے کامیابی کے حوالے دیتے ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اگر عام انتخابات ہوبھی جاتے ہیں تو کسی جماعت کو دو تہائی اکثریت نہیں ملے گی جب کہ ضرورت ایک مستحکم حکومت کی ہے۔
اور اگر کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی تو پھر وہی چھانگا مانگا اور مانگے تانگے کی سیاست شروع ہو گی، حکومت بنانے کے لیے منڈیاں سجیں گی، لوگوں کے ضمیر خریدے جائیں گے، بریف کیسوں کی سپلائی شروع ہوگی، نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھلیں گے، جہانگیر ترین جیسے سیاستدانوں کے جہاز پرواز بھریں گے۔
کوئی باپ کو منائے گا تو کوئی باپ کے باپ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں ممکن ہے کوئی جماعت کھینچ تان کے حکومت تو بنا لے لیکن ایسی حکومت ملک کے لیے خطرناک اور عوام کے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دے گی۔
سیاسی جماعتوں کے مابین صف آرائی تو کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کا ایک لازمی جزو ہوا کرتی ہے اور اگر یہ پرامن، بامقصد اور حقیقتاً جمہوریت کے مفاد میں ہو تو پھر اسے جمہوریت کا حسن قرار دیے جانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن جمہوریت کے نام پر مفادات کی سیاست اور نفسا نفسی کا عالم ہو، ریاست بے یقینی اور عوام عدم تحفظ کا شکار ہو، جلاؤ گھیراؤ، لانگ مارچ اور دھرنے ہوں اور ریاستی ادارے بھی ایک دوسرے کے مدمقابل آجائیں تو پھر حسبِ سابق الزام ''جمہوریت'' پر ہی آئے گا۔
اگر بغیر قومی اتفاق رائے کے انتخابات ہوگئے تو یہی کچھ ہوگا۔ معلق پارلیمنٹ ہوگی، چوں چوں کے مربے کے مصداق حکومت بنے گی، بھاری بھر کم کابینہ بنانا مجبوری ہوگی، وزراء کی فوج ظفر موج میں ہر ایک کی موج ہوگی، قومی خزانے کا بے دردی سے استعمال ہوگا، وزراء اور حکومتی اراکین اسمبلی کے اللے تللے چل رہے ہونگے، کوئی پوچھنے والا ہوگا نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا۔ اپوزیشن محاذ آرائی کی سیاست کرے گی اور یوں ملک آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے جائے گا۔
اس لیے صرف انتخابات ہی کا انعقاد مسئلے کا حل نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان غیر معمولی حالات سے نکلنے کے لیے محمد علی درانی نے نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا جو فارمولا پیش کیا ہے، کیا وہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہمارے مسئلے کا حل ہو سکتا ہے؟
اس کے بارے میں سب کی اپنی اپنی رائے ہے، بادی النظر میں اس وقت ہماری ریاست کی حالت ایک بیمار کی سی ہے، اور بیمار اپنا علاج کرانے کے لیے کبھی کسی معالج کے پاس جاتا ہے تو کبھی کسی کے پاس، اگر کوئی مشورہ دے کہ دم درود سے آرام آئے گا تو کسی روحانی شخصیت کی چوکھٹ پر چلے جاتے ہیں، کوئی کہے گا کہ فلاں حکیم یا فلاں ہومیو ڈاکٹر بہترین ہے تو ان کی راہ لیتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ کسی طرح مریض صحتیاب ہوجائے۔
پاکستان بھی اس وقت سیاسی اور معاشی طور پر بیمار ہے۔ جو دوا اسے گزشتہ آٹھ دہائیوں سے دی جارہی اس سے بیماری کم نہیں ہورہی بلکہ مزید بڑھ رہی ہے۔
ان حالات میں ایک بار درانی صاحب کا بتایا ہوا نسخہ آزما کر دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں، ممکن ہے بیمار صحتیاب ہو جائے۔ مگر علاج شروع کرنے سے پہلے پرہیز کو یقینی بنانا ہوگا جس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز سے اس بات کی گارنٹی لینا ہوگی کہ وہ طے شدہ معاہدے کی پاسداری کریں گے ظاہر ہے یہ گارنٹی ڈنڈے والی سرکار کے علاوہ کوئی نہیں لے سکتا۔ درانی فارمولے کے مطابق ملک میں صرف قومی و صوبائی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات بھی منعقد ہوں۔
بلدیاتی ادارے کسی بھی جمہوری نظام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، تمام تر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرانے کی ذمے داری انھی اداروں پر ہوتی ہے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا مینڈیٹ صرف قانون سازی کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ الٹی گنگا ہی بہتی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں، یہاں جمہوریت کے نام پر مفادات کا نظام رائج ہے اسی لیے بڑی سیاسی جماعتیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے تو اکٹھی ہوئیں لیکن ملک و قوم کے لیے کبھی یکجا نہیں ہوئیں۔
اگر سارے سیاستدان دل پر پتھر رکھ کر درانی کے یونٹی گورنمنٹ کے فارمولے پر عمل کرکے ایک بار ملک و قوم کے لیے متحد ہوجائیں تو شاید اللہ رب العزت خیر کی کوئی صورت نکال لیں۔ الیکشن میں سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت وزارت عظمیٰ کے لیے تین نام پیش کرے اور پارلیمنٹ ان میں سے کسی ایک کو وزیر اعظم بنائے۔
مختصر ترین کابینہ بنائی جائے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں نیشنل یونٹی گورنمنٹ کا حصہ ہونگی اور کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی۔ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اپنے اپنے مفادات کے لیے تو کئی بار اکٹھے ہوچکے ہیں، ایک بار پاکستان کے لیے بھی اکٹھے ہوکر دیکھ لیں شاید قسمت بدل جائے۔
مگر جب ماضی کے تلخ حقائق، پاکستان کے خود پرست اور مفاد پرست سیاستدانوں کے رویوں پر سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ درانی احمقوں کے جنت میں رہ رہے ہیں جو سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملکی مفاد میں کیسے تعاون کریں گے؟