سندھ اور پنجاب میں مہنگائی
سندھ میں قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا سرکاری ادارہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کہیں نظر نہیں آ رہا
نومبر میں مہنگائی نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا اور نومبر میں مہنگائی 29.2 فیصد رہی اور نومبر سے ہی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں جو 520 فیصد اضافہ کیا ہے وہ انتہائی ہوش ربا تھا جس کی وجہ سے نومبر میں دوبارہ زائد مہنگائی ریکارڈ کی گئی اور عوام پر بجلی کے بعد گیس کا ایٹم بم برسا دیا گیا ہے جب کہ سردیوں میں گیس ویسے ہی نہیں آ رہی۔ گیزر چلنے کے قابل نہیں چھوڑے گئے۔
اگر گیس مکمل کیا آدھی بھی مل رہی ہوتی تو بجلی کے ستائے گیس صارفین بلبلا اٹھتے مگر نگرانوں پر اثر ہونا ہی نہیں تھا وہ سیاسی حکومتوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہو رہے ہیں مگر ان کے مظالم کا سرکاری اشرافیہ اور دولت مندوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ حسب معمول غریب ہی متاثر ہوئے بلکہ غریبوں کی تعداد میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کہ جو لوگ متوسط طبقہ شمار ہوتے تھے ،ان کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا اتحادی حکومت نے ہی ناممکن بنا دیا تھا۔
متوسط طبقہ نے سخت گرمی میں مجبوراً گھروں میں لگے اے سی بند رکھے کیونکہ بجلی اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ اب متوسط طبقہ بھی غریبوں کی طرح پنکھوں پر گزارا کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور بجلی کے بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں کہ گھروں میں جھگڑے شروع ہوگئے ہیں اور بجلی کا بل زیادہ آنے پر فیصل آباد میں بھائی کے ہاتھوں بھائی بھی قتل ہو چکا ہے۔
ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں مہنگائی کی صورتحال مختلف اور سندھ میں مہنگائی پنجاب سے زیادہ ہے جس کی ذمے دار سندھ کی حکومت اور ہر ضلع کی انتظامیہ ہے جس کو مہنگائی سے متاثر عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
سندھ میں قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا سرکاری ادارہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کہیں نظر نہیں آ رہا۔ مارکیٹ کمیٹیوں کو محکمہ زراعت کے سپرد کیے جانے کے بعد مارکیٹ کمیٹیاں کرپشن کا گڑھ بنی ہوئی ہیں جو ہول سیل فروٹ اور سبزیوں کی مارکیٹوں میں قیمتوں پر نظر رکھنے اور تعین کی بجائے مارکیٹوں میں موجود سرکاری دکانوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور مارکیٹ کمیٹی کے عملے کی کرپشن عروج پر ہے جو پہلے محکمہ صنعت کے ماتحت تھے۔
پہلے بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کا سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی بریگیڈیئر تھا جو صوبے کے شہروں کے دورے کرکے متعلقہ تاجروں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے تھے جن میں ڈپٹی کمشنر بھی اپنے افسروں کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور ڈپٹی کمشنروں کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسسٹنٹ کمشنروں کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کاروں کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔
ڈپٹی کمشنر ہر ماہ قیمتوں پر کنٹرول کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کرتے تھے اور تاجروں کے مشوروں سے اشیا کے نرخ مقرر کرتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مختار کار مارکیٹوں اور بازاروں کے دورے کرکے نرخ چیک کرتے تھے۔ میونسپل کمیٹیوں میں اشیائے خوردنی کے معیار چیک کرنے کے لیے فوڈ انسپکٹرز تعینات ہوا کرتے تھے۔
سندھ میں اب صرف رمضان المبارک کے موقع پر ہر ضلع کی انتظامیہ پہلے نرخوں کا تعین کرتی ہے اور مارکیٹوں اور بازاروں کے افطار سے قبل روزانہ ہی دورے ہوتے تھے جو اب رمضان المبارک میں شروع کے دنوں میں کچھ نظر آتے ہیں بعد میں وہ عید کی نجی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی ہے اور گراں فروشوں کو عوام کو لوٹنے کی مکمل آزادی مل جاتی ہے۔
گراں فروشوں کے خلاف صرف دکھاؤے کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ ان سے جو جرمانے کی رقم وصول ہوتی ہے وہ سرکاری خزانے میں جاتی ہے اور چھاپوں کے بعد گراں فروش قیمتیں مزید بڑھا کر لوگوں سے جرمانوں سے بھی زیادہ رقم وصول کرلیتے ہیں اور عام لوگوں کو مصنوعی چھاپوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا وقتی ہوتا ہے۔
راقم کو رواں سال لاہور اور راولپنڈی جانے کا زیادہ اتفاق ہوا جہاں ہر موسم میں پھل و سبزیاں فروخت کرنے والی دکانوں، پتھاروں اور ریڑھیوں پر نرخ نمایاں طور پر آویزاں نظر آئے اس کے برعکس کراچی میں ایسا نہیں ہے۔
کراچی میں سپر ہائی وے پر جو پھلوں اور سبزیوں کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں ان میں اور شہر کے علاقوں میں پھل و سبزیاں فروخت کرنے والوں میں نمایاں فرق ہے۔
اندرون شہر گلیوں اور بازاروں میں پھل اور سبزی فروشوں کے نرخ شہر میں موجود مارکیٹوں سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ کراچی شہر کی عام مارکیٹوں میں پھل و سبزیاں کم داموں پر مل جاتی ہیں اور شام ہونے پر نرخ کم ہو جاتے ہیں جہاں آوازیں لگتی ہیں کہ ہو گئی شام گر گئے دام۔ عام مارکیٹوں میں کبھی کبھی نرخ چیک بھی ہو جاتے ہیں مگر شہر کے اندرونی علاقوں میں رات کو بھی نرخ کم نہیں ہوتے اور نہ ان گراں فروشوں کو سرکاری طور پر کوئی پوچھتا ہے۔
پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں دودھ سب سے مہنگا ہے لاہور میں اچھا معیاری دودھ ڈیڑھ سو روپے اور کراچی میں دو سو روپے لیٹر فروخت ہو رہا ہے اور یہی حال سندھ بھر کا ہے۔
کراچی کی موجودہ ڈویژنل انتظامیہ نے دودھ کے نرخوں پر کنٹرول کرکے دو سو روپے کے سرکاری نرخوں پر عمل کرایا ہے جو پہلے دو سو تیس روپے لیٹر فروخت ہو رہا تھا اور موجودہ کمشنر کراچی سے قبل کوئی کمشنر دودھ کے نرخ کم کرا سکا نہ سرکاری نرخوں کا جلد تعین کبھی ہوا نہ اس پر عمل کرایا جا سکا۔
یہ صرف دودھ کی ایک مثال ہے اور کراچی میں سبزیاں ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگی فروخت ہو رہی ہیں جن پر کراچی انتظامیہ کی توجہ مرکوز نہیں ہوئی۔
سندھ میں 15 سالوں سے جلدی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی نہ اس کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ سمجھا پی پی چیئرمین بلاول زرداری نے (ن) لیگ کو تو مہنگائی لیگ قرار دے کر جو سیاست شروع کی ہے انھیں سندھ میں 15 سالہ اپنی حکومت کی مہنگائی پر کنٹرول نہ کیے جانے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ پنجاب میں مہنگائی کراچی کی نسبت پھر بھی کم ہے جہاں (ن) لیگی حکومت دس سال تک رہی۔
اگر گیس مکمل کیا آدھی بھی مل رہی ہوتی تو بجلی کے ستائے گیس صارفین بلبلا اٹھتے مگر نگرانوں پر اثر ہونا ہی نہیں تھا وہ سیاسی حکومتوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہو رہے ہیں مگر ان کے مظالم کا سرکاری اشرافیہ اور دولت مندوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ حسب معمول غریب ہی متاثر ہوئے بلکہ غریبوں کی تعداد میں اس لیے اضافہ ہوا ہے کہ جو لوگ متوسط طبقہ شمار ہوتے تھے ،ان کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا اتحادی حکومت نے ہی ناممکن بنا دیا تھا۔
متوسط طبقہ نے سخت گرمی میں مجبوراً گھروں میں لگے اے سی بند رکھے کیونکہ بجلی اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ اب متوسط طبقہ بھی غریبوں کی طرح پنکھوں پر گزارا کرنے پر مجبور ہو گیا ہے اور بجلی کے بل اتنے زیادہ آ رہے ہیں کہ گھروں میں جھگڑے شروع ہوگئے ہیں اور بجلی کا بل زیادہ آنے پر فیصل آباد میں بھائی کے ہاتھوں بھائی بھی قتل ہو چکا ہے۔
ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں مہنگائی کی صورتحال مختلف اور سندھ میں مہنگائی پنجاب سے زیادہ ہے جس کی ذمے دار سندھ کی حکومت اور ہر ضلع کی انتظامیہ ہے جس کو مہنگائی سے متاثر عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
سندھ میں قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا سرکاری ادارہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کہیں نظر نہیں آ رہا۔ مارکیٹ کمیٹیوں کو محکمہ زراعت کے سپرد کیے جانے کے بعد مارکیٹ کمیٹیاں کرپشن کا گڑھ بنی ہوئی ہیں جو ہول سیل فروٹ اور سبزیوں کی مارکیٹوں میں قیمتوں پر نظر رکھنے اور تعین کی بجائے مارکیٹوں میں موجود سرکاری دکانوں کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور مارکیٹ کمیٹی کے عملے کی کرپشن عروج پر ہے جو پہلے محکمہ صنعت کے ماتحت تھے۔
پہلے بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کا سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی بریگیڈیئر تھا جو صوبے کے شہروں کے دورے کرکے متعلقہ تاجروں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے تھے جن میں ڈپٹی کمشنر بھی اپنے افسروں کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور ڈپٹی کمشنروں کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسسٹنٹ کمشنروں کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کاروں کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل تھے۔
ڈپٹی کمشنر ہر ماہ قیمتوں پر کنٹرول کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کرتے تھے اور تاجروں کے مشوروں سے اشیا کے نرخ مقرر کرتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مختار کار مارکیٹوں اور بازاروں کے دورے کرکے نرخ چیک کرتے تھے۔ میونسپل کمیٹیوں میں اشیائے خوردنی کے معیار چیک کرنے کے لیے فوڈ انسپکٹرز تعینات ہوا کرتے تھے۔
سندھ میں اب صرف رمضان المبارک کے موقع پر ہر ضلع کی انتظامیہ پہلے نرخوں کا تعین کرتی ہے اور مارکیٹوں اور بازاروں کے افطار سے قبل روزانہ ہی دورے ہوتے تھے جو اب رمضان المبارک میں شروع کے دنوں میں کچھ نظر آتے ہیں بعد میں وہ عید کی نجی تیاریوں میں مصروف ہو جاتی ہے اور گراں فروشوں کو عوام کو لوٹنے کی مکمل آزادی مل جاتی ہے۔
گراں فروشوں کے خلاف صرف دکھاؤے کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ ان سے جو جرمانے کی رقم وصول ہوتی ہے وہ سرکاری خزانے میں جاتی ہے اور چھاپوں کے بعد گراں فروش قیمتیں مزید بڑھا کر لوگوں سے جرمانوں سے بھی زیادہ رقم وصول کرلیتے ہیں اور عام لوگوں کو مصنوعی چھاپوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا وقتی ہوتا ہے۔
راقم کو رواں سال لاہور اور راولپنڈی جانے کا زیادہ اتفاق ہوا جہاں ہر موسم میں پھل و سبزیاں فروخت کرنے والی دکانوں، پتھاروں اور ریڑھیوں پر نرخ نمایاں طور پر آویزاں نظر آئے اس کے برعکس کراچی میں ایسا نہیں ہے۔
کراچی میں سپر ہائی وے پر جو پھلوں اور سبزیوں کی ہول سیل مارکیٹیں ہیں ان میں اور شہر کے علاقوں میں پھل و سبزیاں فروخت کرنے والوں میں نمایاں فرق ہے۔
اندرون شہر گلیوں اور بازاروں میں پھل اور سبزی فروشوں کے نرخ شہر میں موجود مارکیٹوں سے بھی بہت زیادہ ہیں۔ کراچی شہر کی عام مارکیٹوں میں پھل و سبزیاں کم داموں پر مل جاتی ہیں اور شام ہونے پر نرخ کم ہو جاتے ہیں جہاں آوازیں لگتی ہیں کہ ہو گئی شام گر گئے دام۔ عام مارکیٹوں میں کبھی کبھی نرخ چیک بھی ہو جاتے ہیں مگر شہر کے اندرونی علاقوں میں رات کو بھی نرخ کم نہیں ہوتے اور نہ ان گراں فروشوں کو سرکاری طور پر کوئی پوچھتا ہے۔
پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں دودھ سب سے مہنگا ہے لاہور میں اچھا معیاری دودھ ڈیڑھ سو روپے اور کراچی میں دو سو روپے لیٹر فروخت ہو رہا ہے اور یہی حال سندھ بھر کا ہے۔
کراچی کی موجودہ ڈویژنل انتظامیہ نے دودھ کے نرخوں پر کنٹرول کرکے دو سو روپے کے سرکاری نرخوں پر عمل کرایا ہے جو پہلے دو سو تیس روپے لیٹر فروخت ہو رہا تھا اور موجودہ کمشنر کراچی سے قبل کوئی کمشنر دودھ کے نرخ کم کرا سکا نہ سرکاری نرخوں کا جلد تعین کبھی ہوا نہ اس پر عمل کرایا جا سکا۔
یہ صرف دودھ کی ایک مثال ہے اور کراچی میں سبزیاں ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگی فروخت ہو رہی ہیں جن پر کراچی انتظامیہ کی توجہ مرکوز نہیں ہوئی۔
سندھ میں 15 سالوں سے جلدی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے پر توجہ دی نہ اس کو عوام کا سب سے اہم مسئلہ سمجھا پی پی چیئرمین بلاول زرداری نے (ن) لیگ کو تو مہنگائی لیگ قرار دے کر جو سیاست شروع کی ہے انھیں سندھ میں 15 سالہ اپنی حکومت کی مہنگائی پر کنٹرول نہ کیے جانے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ پنجاب میں مہنگائی کراچی کی نسبت پھر بھی کم ہے جہاں (ن) لیگی حکومت دس سال تک رہی۔