آتشزدگی کے واقعات

کمرشل و رہائشی عمارتوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے

کمرشل و رہائشی عمارتوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ فوٹو: ویب

کراچی میں ایک اور آتشزدگی کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا ہے، اطلاعات کے مطابق عائشہ منزل کے قریب ایک شاپنگ مال کی ایک دکان میں فوم کے گدوں سے آگ شروع ہوئی جس نے پھیلتے پھیلتے پورے شاپنگ مال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس واقعہ میں 4افراد جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔

آگ کی شدت کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ فائر بریگیڈ حکام نے کراچی بھر سے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو طلب کرلیا جب کہ پاک بحریہ کے فائر ٹینڈرز بھی مدد کے لیے بلائے گئے ، آگ کے شعلے اتنے بلند تھے کہ دھویں کے بادل کئی کلو میٹر دور سے دکھائی دیے ، فوم کے گدوں کی وجہ سے آگ بے قابو ہوگئی ، شاپنگ مال کے چوتھے فلور پر رہائشی فلیٹس ہیں۔

آگ کے شعلے ان فلیٹس تک پہنچ گئے اور فلیٹس میں دھواں بھر گیا، رہائشی افراتفری میں یہاں سے نکلے، آتشزدگی کے باعث درجنوں دکانوں، گوداموں میں موجود فوم کے گدے ، جیولری ، کاسمیٹکس، اسپیئر پارٹس ، کپڑوں اور درزی کی دکانیں سمیت دیگر دکانوں میں رکھا ہوا سامان خاکستر ہوگیا۔سرچنگ کے دوران3 افراد کی لاشیں ملیں جب کہ ایک جھلس کر شدید زخمی ہونے والا نوجوان دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا جس کے بعد واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 4ہوگئی۔

کراچی میں آتشزدگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں' آئے دن کبھی کسی فیکٹری میں آگ لگ جاتی ہے تو کبھی فلیٹوں اور شاپنگ پلازوں میں 'اصل مسئلہ آگ لگنا نہیں بلکہ اس پر بروقت قابو پانا اور جانی اور مالی نقصان کو کم از کم کرنا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کہیں آگ لگتی ہے تو اس پر فوری قابو نہ پائے جانے کے باعث جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ان حالات میں سرکاری اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کی کارکردگی کو سامنے رکھیں تو یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ مستقبل میں بھی ایسے واقعات میں زیادہ سے زیادہ نقصان کا احتمال اپنی جگہ موجود رہے گا ۔ کراچی ایسا شہر بن گیا ہے جہاں آتشزدگی کے واقعات پورے ملک سے زیادہ ہوتے ہیں۔

تقریباً دو ہفتے قبل راشد منہاس روڈ پر واقع ایک شاپنگ سینٹر میں آگ لگنے سے گیارہ افراد جاں بحق ہوئے جب کہ متعدد افراد جھلس کر زخمی ہوگئے۔

اس وقت میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ شاپنگ سینٹر میں آگ بجھانے کا نظام اور ہنگامی اخراج کا راستہ موجود نہ ہونا، اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی ہلاکتوںکی وجہ بنا۔ اس وقت سندھ کی نگراں حکومت نے صوبے بھر میں تمام کمرشل اور سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کا سیکیورٹی آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا تھا۔

شہر کی بلند و بالا عمارتوں میں آگ بجھانے کے آلات ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کی گئی تھی۔اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور ان واقعات پر قابو پانے کے لئے کیا حکمت عملی سامنے آئی اس کا اندازہ بدھ کو عائشہ منزل میں شاپنگ سینٹر میں لگنے والی آگ سے بخوبی ہوجاتا ہے۔

جب بھی کسی سانحہ کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کی جاتی ہے یا اس پر کوئی کمیٹی بنائی جاتی ہے تو یہ دیکھا گیا ہے کہ رپورٹ کی تیاری ہی میں کئی ماہ بلکہ کئی سال ضایع ہو جاتے ہیں اور اس دوران ایسے کئی سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ہر سانحہ پر حکومتی دعوؤں اور بیانات سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہر بڑے سانحے کے بعد وزیراعظم سے لے وزیر اعلیٰ تک سب نوٹس لیتے ہیں لیکن حالات میں کوئی تبدیلی یا سدھار نظر نہیں آتا۔ اگر سروے کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کراچی میں نوے فی صد عمارتوں میں فائر الارم سسٹم ہی موجود نہیں ہے۔

تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی اور ناکامی تشویش کا پہلواپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ فائر بریگیڈ،بلدیاتی ادارے، ضلعی انتظامیہ کے افسروں اور ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔سرکاری خزانے سے ہرماہ انھیں تنخواہیں اور دیگر مراعات ملتی ہیں، یہ کئی ارب روپے بنتی ہوگی۔

ان سرکاری افسروں اور ملازمین پر اربوں روپے اس لیے خرچ کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنا اپنا کام کرسکیں، اگر انھوں نے کام ہی نہیں کرنا تو ان افسروں اور ملازمین پر اربوں روپے خرچ کیوں کیے جارہے ہیں۔

کراچی ، لاہور ، پشاور اور کوئٹہ میں فائر بریگیڈ اور ضلعی انتظامیہ موجود ہے ، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ٹیکس پئیرز کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جا رہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہوتی ہے۔


فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہوتے، ایمرجنسی ایگزیٹ نہیں ہوتا، پارکنگ ایریا نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہے تو پارکنگ ایریا بہت چھوٹا ہوتا، سروس روڈ کو پارکنگ ایریاز میں تبدیل کردیا گیا۔

فٹ پاتھوںپر قبضے کرکے وہاں چھوٹے چھوٹے اسٹالز قائم کردیے گئے ہیں، شہر میں چلنے والی ٹرانسپورٹ کی فٹنس چیک کوئی نہیں کرتا، حالانکہ ان سے متعلق ادارے بھی موجود ہیں اور عملہ بھی موجود ہے اور انھیں تنخواہیں بھی مل رہیں، قوم کے سرمایہ کا اس بیدردی سے ضیاع شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہوگا۔

لاہور کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے ، لاہور میں ٹریفک حادثات میں جتنے لوگ مرتے ہیں، پاک بھارت جنگ میں بھی اتنی جانیں نہیں گئی ہوں گی۔

لاہور کی مین روڈز پر فٹ پاتھ ہی نہیں ہیں۔ جہاں فٹ پاتھ ہیں، ان پر پیدل چلنا سڑک پر گاڑی چلانے سے زیادہ مشکل ہے ۔

گرین بیلٹس پر کار ڈیلروں نے قبضے کررکھے ہیں، اوور ہیڈ برج کے نیچے نشئیوں کے ڈیرے ہیں یا وہاں دکانداروں نے پارکنگ ایریا بنا لیا ہے، ہر تھانے کی پولیس اپنے اپنے علاقے میں اس صورتحال سے آگاہ ہے، محکمہ تہہ بازاری بھی موجود ہے، محکمہ انسداد منشیات بھی موجود ہے لیکن کارکردگی صفر برابر صفر ہے۔

کراچی انتظامی اعتبار سے سات اضلاع پر مشتمل ہے مگر انتظامیہ آج بھی فرسودہ نظام سے جڑی نظر آتی ہے ۔

انجینئرنگ کے مناسب نمونے، پائیدار تعمیرات اور بہتر نگرانی کے تحت وجود میں آنے والی عمارتیں مختلف آفات کا سامنا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں، لیکن ایسی محفوظ عمارتوں کا وجود انتہائی محدود ہے، جب کہ عمارتوں کی تعمیر میں غیر رسمی طریقے زیادہ عام ہیں، جن میں تکنیکی عنصر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اس طرح کے عمارتی ڈھانچے موت کا جال بن جاتے ہیں۔

نامناسب تعمیرات کے بڑے اسباب میں کسی عمارت میں بنیادوں کا نہ ہونا اور ناقص تعمیراتی مواد کا استعمال ہے جب کہ ہوا داری اور ہنگامی اخراج کی عدم موجودگی اور ناقص برقی کام کے سبب اکثر عمارتیں استعمال کے قابل نہیں رہتیں۔

عوامی سطح پر ایمرجنسی صورتحال سے نبٹنے کا شعور ہونا بہت ضروری ہے ۔ کمرشل مقامات پر عمارتوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ آگ سے متعلق آلات کی گاہے بگاہے جانچ کرتے رہیں کیونکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ان آلات پر دھول جم جاتی ہے اور ان میں کاربن آلودگی اور تپش کی نشاندہی کرنے والے سنسرز ضرورت کے وقت کام نہیں کرتے۔

عمارتوں میں کونوں اور دیواروں پر نصب سرخ رنگ کے آگ بجھانے والے آلات روزانہ ہماری نظروں سے گزرتے ہیں لیکن ہم ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، کیونکہ فی الوقت ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اگر وہ اچانک یاد آجائیں اور ہم ان تک پہنچ بھی جائیں تو لوگوں کو انھیں استعمال کرنا نہیں آتا اور ایمرجنسی میں استعمال کی کوشش الجھا سکتی ہے اور دیر ہو سکتی ہے۔

اسی لیے ان آلات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ وقتِ ضرورت دشواری نہ ہو۔ ہر ایگزٹ روٹ کو استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد کے لیے کافی بڑا ہونا چاہیے۔ باہر نکلنے کے راستوں کی گنجائش اتنی ہوکہ عمارت میں موجود تمام افراد کو ایک ساتھ نکلنے میں قدرے آسانی ہو، نا کہ ہجوم کی بنا پر نکلنا مشکل ہو اور دھکم پیل سے مزید نقصان ہو۔

خارجی راستوں کی چھت کم از کم ساڑھے سات فٹ اونچی ہونی چاہیے۔ فائر بریگیڈ کے پاس ایمرجنسی ایگزٹ سلائیڈ بیلٹ ہونی چاہیے جس کے ذریعے بالائی منزلوں پر پھنسے افراد کو بآسانی سلائیڈ بیلٹ کے ذریعے نیچے اتارا جا سکے۔

وقت آگیا ہے کہ ملک بھر کی ضلعی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیاں، بلڈنگ کوڈ آف پاکستان کے تحت رہائشی و کمرشل عمارتوں میں فائر فائٹنگ سسٹم کی تنصیب کو یقینی بنائیں ۔موجودہ صورتحال میں کمرشل و رہائشی عمارتوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

تعمیراتی ضوابط کے عملا اور بلا تخصیص نفاذ کے ساتھ ساتھ تعمیراتی بے قاعدگیوں میں ملوث اداروں کا کڑا احتساب ناگزیر ہے۔
Load Next Story