ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ساری دنیا کو یہ بھی معلوم ہے کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے اور بھارتی پروپیگنڈا حقیقت کو جھٹلانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے
برصغیر کی تاریخ کے دریچہ سے جھانکیے تو یہ حقیقت صاف نظر آجائے گی کہ کبھی تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ مل کر آرام اور چین سے رہتے تھے اور کہا یہ جاتا تھا کہ'' ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں سب بھائی بھائی۔'' لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا اور کیوں ہوا کہ بھائی چارے کی یہ فضا تبدیل ہوگئی۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ہوا کرتے تھے اور'' ترانہ ہند''کے تخلیق کار علامہ ڈاکٹر محمد اقبا ل ؔ یہ کہتے تھے کہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اِس کی یہ گلستاں ہمارا
دو قومی نظریہ پیش کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اِس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ تعصب پسند انتہا پرست ہندوؤں کا ایک ٹولہ جس کے سرپرست اعلیٰ مُون جے، ساورکر، بال گنگا دھر تِلَک، گول والکر اور لالا لاج پت رائے ہوا کرتے تھے، مسلمانوں کے کٹر مخالف اور جانی دشمن ہوگئے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح جنھیں قائد اعظم کے خطاب سے نوازا گیا، اُن کی دور رَس نگاہوں نے یہ بھانپ لیا کہ خواہ ہندو انتہا پسندوں کی جماعت راشٹریہ سوئم سیوَک سَنگ آر ایس ایس ہو یا بظاہر سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس ہو دونوں کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرکے انھیں ہندوؤں کا غلام بنایا جائے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہندوؤں کے اِسی فتور کا نتیجہ ہے اور پھر وہ تاریخ ساز دن آگیا جب برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی اور نجات کے لیے پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔پاکستان بن تو گیا لیکن تعصب پسند ہندوؤں نے اِسے عملاً قبول نہیں کیا اور اُن کی کوشش جاری رہی کہ کسی نہ کسی طرح اِس کے وجود کو ختم کردیا جائے۔دونوں پڑوسیوں کے درمیان لڑی جانے والی چار جنگیں اِسی سوچ کا نتیجہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہندوستان کے مکروہ عزائم ناکام رہے ہیں اور اِن شااللہ وطن عزیز پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا۔
ہوش مندی کا تقاضہ یہی تھا کہ بھارت کے حکمراں برصغیر کے بٹوارے کو خوشدلی کے ساتھ تسلیم کر لیتے جس کی بنیاد یہ تھی کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی حکمرانی مسلمانوں کے ہاتھوں میں رہتی اور جو علاقے ہندو اکثریت والے تھے ،وہاں برصغیر کی تقسیم کے اصول کی بنیاد پر ہندوؤں کی حکومت ہوتی،لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور بھارت کی بدنیتی اور توسیع پسندی کی وجہ سے کشمیر کا تنازعہ پیدا ہوا جو ایک رستہ ہوا ناسور بن گیا ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی غالب اکثریت والی جنت نظیر وادی کشمیر پر بھارت کا ناجائز تسلط قائم ہے اور جس کی آزادی کی تحریک کی خاطر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے ناجائز قبضہ سے چھڑانے کی تحریک کی کامیابی کے لیے بیشمار کشمیری مسلمانوں کے گھر اُجڑ رہے ہیں اور اُن کی قیمتی جانیں بھینٹ چڑھ چکی ہیں لیکن اُن کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہیں آرہی ہے۔
یہ بھارت ہی تھا جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں گیا تھا اور وہ دن ہے اور آج کا دن کہ اُس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اِس مسئلہ کو استصواب رائے کے ذریعہ حل کرنے سے انکار کیا ہوا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جن دو مسائل نے عالمی امن کو مسلسل خطرہ میں ڈالا ہوا ہے اور جن کی وجہ سے بیشمار انسانی جانیں قربان ہورہی ہیں وہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر ہیں۔ جب تک یہ دونوں مسائل حق اور انصاف کے اصولوں کے مطابق حل نہیں ہوں گے اُس وقت تک دنیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا۔
بھارت پاکستان کو دشمن قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہا ہے جب کہ معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہے،یہی نہیں کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے بھی وہ عالمی رائے عامہ کو دھوکا دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
بھارت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اُس کے یہ تمام حربے نہ صرف رائیگاں جائیں گے بلکہ اُسے اُلٹا نقصان ہی پہنچے گا۔ دنیا اتنی بیوقوف نہیں جتنا بھارت اُسے سمجھ رہا ہے۔ یہ حقیقت بالکل آشکار ہے کہ یہ معاملہ چوری اوپر سے سینہ زوری والی مثال ہے۔
بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی کو یہ ٹھیک اِسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا طرزعمل بھی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
نہیں بھولنا چاہیے کہ اُس کے ایک منتخب اور انتہائی مقبول و معروف سابق وزیرِ اعظم اور دانشور آنجہانی پردھان منتری شری اٹل بہاری واجپائی نے اپنے تاریخی دورہ پاکستان میں اِس حقیقت کو برسر عام تسلیم کیا تھا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہے۔
اِس تسلیم شدہ حقیقت سے انکار کرکے بھارت کو رسوائی اور بدنامی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور اُس کا یہ طرزِ عمل جگ ہنسائی کے مترادف ہوگا۔ ٹھیک اِسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کا طرزعمل بھی عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
ساری دنیا کو یہ بھی معلوم ہے کہ اصل حقیقت کچھ اور ہے اور بھارتی پروپیگنڈا حقیقت کو جھٹلانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔بھارت کی عیاری کا بھانڈہ پھوٹ چکا ہے اور دنیا جہان کو معلوم ہے کہ اروناچل جسے وہ اروناچل پردیش کے نام سے اپنا صوبہ بتاتا ہے، دراصل چین کا ایک حصہ ہے اور بھارت کی نقشہ بازی ساری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔
اِسی طرح آسام میں جاری میزو رَم تحریک آزادی سے پوری دنیا بخوبی واقف ہے اور جس طرح ایک نہ ایک دن ریاست جموں و کشمیر بھارت کے تسلط سے آزاد ہوجائے گی، اسی طرح میزو رَم کی ریاست کو بھارت کے شکنجہ سے آزادی حاصل ہوجائے گی۔
اِسی طرح خالصتان کی تحریک آزادی بھی ایک نہ ایک دن کامیاب ہوگی اور بھارت کی سکھ اقلیت امن و سکون کا سانس لے گی۔ بھارت ہو یا اسرائیل مظلوموں کی قربانیاں رائیگاں نہ ہوں گی اور ایک نہ ایک دن شہیدوں کا لہو رنگ ضرور لائے گا۔ یاد رکھیں ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں!