گندھارا پر فرنگی راج
گندھارا موجودہ پختون خوا کے ایک حصے کانام ہے، گندھ، سنسکرت کالفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشبو
کتابیں تو ہمارے پاس بے تحاشاآتی ہیں خاص طورپر شعری مجموعے تو کوئی دن ایسا مشکل سے جاتا ہوگا جس میں دوچار مجموعہ ہائے کلام بے لگام تشریف نہ لاتے ہوں لیکن اس کے لیے تو ہم نے ایک باقاعدہ انتظام کر رکھا ہے کہ ''بہروبار'' ہی رخصت کردیتے ہیں جیسے کوئی شعری مجموعہ پہنچتا ہے ہم اسے کھولے بغیر کسی بھی قریب بیٹھے ہوئے بندے کو دے دیتے ہیں کیوں کہ ہمیں پہلے ہی سے پتہ ہوتاہے کہ جس طرح ہند و پاک میں گزشتہ ایک صدی سے ایک ہی فلم نام بدل بدل کر بنائی جا رہی ہے، ایک ہیرو ایک ہیروئن اورایک ولن اسی طرح شاعری میں بھی تین کردار چلے آرہے ہیں، عاشق، محبوب اور رقیب یا ہجروفراق۔
پڑھتے ہم صرف وہی کتاب ہیں جس میں خود کو پڑھوانے کی صلاحیت ہو اوراس بات کا پتہ ہمیں کتاب سونگھتے ہی چل جاتاہے، اس وقت بھی ہمارے سامنے جو کتاب موجود ہے اس کانام ''گندھاراانگریزوں کے دورمیں '' ہے ۔
گندھارا موجودہ پختون خوا کے ایک حصے کانام ہے، گندھ، سنسکرت کالفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشبو۔ خوشبو کو سگندھ اوربدبوکو درگندھ کہاجاتاہے لیکن کبھی کبھی خوشبو کو صرف گندھ بھی کہاجاتاہے چنانچہ گندھاریا گندھارا کامطلب ہے خوشبو کی سرزمین ، ہار یاہارا کامطلب ہے علاقہ سرزمین یاخطہ۔ جسے قندھار ننگرہار پوٹوہار چپرہار ، شہرکالفظ بھی دراصل ''شہ ہر'' یاشاہریعنی بڑی آبادی یابستی ہندی دھارمک لٹریچر میں گندھار اور گندھاری کاذکر بہت آتا ہے، مہابھارت کے کوروڑوں کی ماں کا نام گندھاری تھا جو مہاراجہ گندھارکی بیٹی۔
لیکن گندھارا کوئی ایک ریاست نہیں رہاہے بلکہ یہ خطہ تھا جس میں بہت سی ریاستیں ہوا کرتی تھی جسے استی نگر (ہشتنگر) امبی یاامب (ہزارہ) ٹاکشیلا(ٹیکسلا) پرس پور(پشاور) درہ خیبرکے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں پر ہمیشہ باہرسے کوئی نہ کوئی یلغار ہوتی رہی ہے چنانچہ دنیا بھر کے طالع آزما ہندوستان کی سونے کی چڑیا کو شکار کرنے کے لیے جب اسی راستے سے آتے رہتے تھے تو ان کا پہلا ٹاکرا یہاں کے پشتونوں سے ہوتا رہتا تھا چنانچہ ان آئے روزکے جھگڑوں نے پشتونوں کو لڑاکو بنا دیا جوابھی تک ہیں لیکن آخری یلغار جو ہندوستان پر ہوئی وہ مغرب کی بجائے مشرق اورخشکی کی بجائے پانی کے راستے آئے ویسے تو اس راستے سے کئی پورپیوں نے اس سونے کی چڑیا پر جال ڈالے لیکن جیت انگریزوں کی ہوئی اورانھوں نے یہاں ایک مضبوط ایمپائر کھڑی کردی۔
زیرنظر کتاب میں جناب فہیم صدیقی نے ایک انگریزواربرٹن اور دوسرے لوگوں اورسرکاری دستاویزوں سے ان حالات پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح انگریزوں نے اپنی مشہورپالیسی ڈیوائڈ اینڈ رول سے کام لے کر اس مشکل علاقے پرقبضہ کیااورقائم رکھا۔
کرنل سررابرٹ واربرٹن ، اس وار برٹن کابیٹا تھا جس نے شاہ شجاع کو افغانستان کاتخت دلانے میں مدد کی اس کی ماں افغان تھی اورامیردوست محمد خان کی بیٹی تھی اس نے پشاوراورپختون خوا میں سینتیس سال (اٹھارہ سو انچاس تا اٹھارہ سو اٹھانوے) انگریزی عمل داری کو قائم کیا۔
اپنی ڈائری میں اس نے ان تمام تاریخی واقعات کاذکر کیا ہے جو اس خطے پر قبضہ کرنے میں انگریزوں کو پیش آئے اور واربرٹن نے ان کاسامناکیا ، ماں کی طرف سے افغان نژاد ہونے کی وجہ سے اسے خاص فوائد حاصل رہے ایک تو اس کی مادری زبان کا فائدہ اسے ملادوسری طرف اس کے خون میں بھی افغانوں کو سمجھنے اورپرکھنے کی صلاحیت تھی ، پشتونوں کا مزاج خو بو اورذہن بھی اس میں موجود تھا ۔
بے شک واربرٹن کی صلاحیتیں انگریزوں کے ڈیوائڈ اینڈ رول پالیسی اورانگریزوں کی جانفشانی نے بھی اس معاملے میں مدد دی لیکن اصل چیزوہی تھی جس کی وجہ سے انگریز ہندوستان میں یادوسرے خطوں میں کامیاب ہوئے، وہ ان کے مقابل لوگوں کی نااتفاقیاں، لالچ اورخود غرضیاں تھیں۔ ڈیوائڈاینڈ رول صرف انگریزوں کی پالیسی نہیں رہی ہے بلکہ جب حکومتوں اورحکمرانی کا سلسلہ شروع ہوا ۔
ہر حکومت کی پالیسی یہی رہتی ہے کہ پچاسی فی صد رعایا میں ہمیشہ انتشار رہے اورعوام میں یہی انتشار یا بے اتفاقی ہی پندرہ فی صد حکمرانوں کی ''قوت'' ہوتی ہے اوریہ بات واربرٹن کی ڈائری سے ثابت ہوجاتی ہے کہ عوام میں انگریزوں کے خلاف نفرت بھی تھی اوروہ انفرادی طورپر ہمیشہ انگریزوں کو نقصان پہنچاتے رہے لیکن افسوس کہ کوئی لائق قیادت میسر نہ تھی کیوںکہ اوپر کے لوگ سب کے سب ذاتی مفادات اورپرسنالٹی کلیش کاشکارتھے یاانگریزوں نے اسے بنادیاتھا۔