خالصتان تحریک کے حامی سکھوں کا قتل
ہردیپ سنگھ کے قتل اوراس کے نتیجے میں انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود ہندوستانی حکومت باز نہ آئی
برِ صغیر کی تقسیم کے موقع پر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے سکھ رہنماؤں بشمول مہاراجہ پٹیالہ اور ماسٹر تارا سنگھ کے ساتھ کم از کم تین ملاقاتیں کیں اور انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں۔
بانیٔ پاکستان نے سکھ رہنماؤں کو بے شمار ایسی مراعات کی بھی پیش کش کی جن کا کوئی چھوٹی کمیونٹی تصور بھی نہیں کر سکتی۔اگر تقسیم کے موقع پر سکھ رہنماء قائدِ اعظم کی پیش کش قبول کر لیتے تو پاکستان کے اندر ایک سکھ ریاست قائم ہو جاتی اور پنجاب تقسیم نہ ہوتا۔سکھوں نے قائدِ اعظم کی پیش کش قبول نہ کی۔
دراصل ماسٹر تارا سنگھ پنڈت نہرو کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔پنڈت جی نے سکھ رہنماؤں کے ساتھ وعدہ کیا کہ انڈیا کے اندر ایک خود مختار سکھ ریاست قائم کی جائے گی۔پنڈت جی نے کئی دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی اسی طرح کے وعدے کر کے جھانسا دیا اور بعد میں ہندوستانی فوج بھیج کر قبضہ کر لیا،البتہ سکھ اپنے ساتھ کیے گئے وعدے کو بھولے نہیں۔ ہندوستان نے اس دوران مشرقی پنجاب کے حصے بخرے کر کے تین صوبے تشکیل دے دئے ہیں۔
1973میں آنند پور کے مقام پر سکھوں نے ایک قرار داد منظور کی جس میں ہندوستان کے اندر ایک سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔سکھوں نے صرف مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے لئے جدو جہد بھی شروع کر دی۔80کی دہائی میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اس کاز کے لئے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان نذر کی۔
1980کی دہائی میں انڈیا نے سکھ تحریک کے حامی سکھوں کو چُن چُن کر مار ڈالا اور خود مختار سکھ ریاست کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا۔اس دہائی میں خالصتان تحریک نے ابتدا میں بہت زور پکڑا لیکن انڈین حکومت کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے یہ تحریک خاصی دب گئی البتہ یہ تحریک کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔
پچھلے کئی سالوں میں سکھوں کی تحریک نے یہ پالیسی اپنائی کہ انڈیا کے باہر سے انڈین حکومت پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا جائے کہ وہ سکھ ریاست کے قیام کا وعدہ پورا کرے۔اس سلسلے میں آسٹریلیا،کینیڈا اور امریکا میں رہنے والے سکھوں کو کامیابی سے موبلائز کیا گیا۔انڈیا کی حکومت نے ایک بار پھر پرانا اور آزمودہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سکھ تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اب کی بار انڈین حکومت کے لئے مشکلات بہت زیادہ ہیں۔
ایک تو سکھ پہلے کی نسبت زیادہ منظم ہیں اور انڈین حکومت کے ایجنٹوں کو موقع کم دے رہے ہیں۔ان کی سرگرمیاں انڈیا سے باہر ہونے کی وجہ سے انڈین حکومت کی پہنچ سے نسبتاً دور ہیں۔ جناب مودی جی کی حکومت خالصتانی سکھوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔
امسال جون کے مہینے میں خالصتان ٹائیگر فورس کے ایک بہت فعال اور انتہائی سرگرم رکن ہر دیپ سنگھ نجر کو دن دہاڑے اوٹاوہ کینیڈا کے گوردوارے کی پارکنگ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔کینیڈا وہ ملک ہے جس نے ہندوستاں کے پہلے نیوکلر ٹیسٹ کے لئے ایندھن فراہم کیا تھا لیکن انڈیا نے ایک انتہائی گھناؤنا جرم کرتے ہوئے اپنے محسن ملک کا بھی لحاظ نہیں کیا۔
کینیڈا نے اپنی سرزمین پراپنے شہری کے قتل کو بہت سنجیدگی سے لیا۔دو مہینے پہلے دہلی میں ہونے والی G-20کانفرنس کے موقع پر کینیڈا کے وزیرِاعظم نے ہندوستانی وزیرِ اعظم کے ساتھ اس معاملے کو اُٹھایا لیکن شاید مناسب جواب نہ ملنے پر کینیڈین وزیرِ اعظم نے واپس وطن لوٹنے پر کینیڈین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مجرمانہ انڈین غارت گری کا بھانڈا پھوڑ دیا۔کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے بیان پر سارا ہندوستان سیخ پا ہو گیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے۔
کینیڈا کی وزیرِ خارجہ میلانا جولیا نے تو اس ہندوستانی کا نام تک بتا دیا جو ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل کی کاروائی میں ملوث تھا۔میلانا نے بتایا کہ یہ انڈین افسر پون کمار تھا اور انڈین سیکیورٹی ایجنسی را کا ایجنٹ تھا۔امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن قتل کی اس مجرمانہ کاروائی کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
کینیڈا کی سرزمین پر جون میں ہر دیپ سنگھ کے قتل اور اس کے نتیجے میں انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود ہندوستانی حکومت باز نہ آئی اور اپنے اہلکار متعین نیویارک کو ایک اجرتی قاتل ڈھونڈنے کا حکم دیا تاکہ خالصتان تحریک کے حامی جناب گُر پنت سنگھ پنوں کو جلد از جلد قتل کر کے ٹھکانے لگادیا جائے۔
انڈین حکومت امسال اگست میں یہ حرکت اس وقت کر رہی تھی جب وزیرِ اعظم جناب مودی امریکا کے سرکاری دورے پر تھے اور ان کی خاصی پذیرائی ہو رہی تھی۔اس دورے میں امریکا اور انڈیا کے مابین تجارت اور دفاع کے شعبوں میں بڑھوتی متوقع تھی۔نیویارک امریکا کی ایک عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے انڈین حکومتی اہلکاروں کی طرف سے قتل کی سازش کا انکشاف ہوتا ہے۔ان دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ انڈین حکومت کے ایک اہلکار مسٹر گپتا جس کا تعلق انڈین سیکیورٹی ایجنسی را سے ہے اس میں ملوث ہے۔
گپتا نے نیویارک میں اجرتی قاتل سے رابطہ قائم کیا اور اسے خالصتان تحریک کے سرگرم رکن گُرپنت سنگھ پنوں کو فوراً ختم کرنے کا کہا ۔گپتا نے اجرتی قاتل کو اس مجرمانہ فعل کے بدلے ایک لاکھ ڈالر ادائیگی کی پیش کش کی۔ نیویارک میں مبینہ اجرتی قاتل یہ کام نبٹانے میں تیزی نہیں دکھا رہا تھا تو گپتا نے ایک بار پھررابطہ قائم کر کے اجرتی قاتل پر جلدی کرنے کے لئے زور دیا اور یہ بھی کہا ابھی کینیڈا میں ہر دیپ کے علاوہ3اور شکار موجود ہیں،انھیں بھی جلد از جلدختم کرنا از بس ضروری ہے۔
30جون2023 کو گپتا نے دہلی سے اُڑان بھری اور چیک ری پبلک پہنچا جہاں اسے امریکی حکومت کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔
گپتا جس امریکی اجرتی قاتل سے رابطے میں تھا اور جس کے ذریعے خالصتانی سکھ کو قتل کروانا چاہتا تھا،وہ در اصل ایک انڈر کورامریکی سیکیورٹی اہلکار تھا جو اس مکروہ اور گھناؤنے ہندوستانی منصوبے کی تمام تفصیلات گپتا سے حاصل کر رہا تھا،یوں گر پنت سنگھ پنوں کے قتل کی ہندوستانی واردات کو کامیابی سے نا کام بنا دیا گیا۔ پاکستان میں ایک انتہائی قابلِ اعتماد سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ اس سال پاکستان کے اندر چھپے 16 خالصتانی سکھوں کو انڈیا نے قتل کروایا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی حکومت کیوں ایسا کر رہی ہے۔انڈیا میں صرف خالصتان تحریک نہیں چل رہی کہ اس کو ختم کر کے انڈیا میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔انڈیا میں درجنوں ایسی تحریکیں چل رہی ہیں۔اصل میں بھارتی پنجاب بہت اہم ہے۔ایک تو یہ ریاست سارے ہندوستان کو کھلاتی ہے۔کشمیر میں علیحدگی کی ایک جاندار تحریک جاری ہے۔
اگر پنجاب میں حالات ہندوستان کے ہاتھوں سے نکلیں تو کشمیر کیآزادی کی تحریک کو بہت سپورٹ ملتی ہے۔سکھ ہندوستانی محاذ سے فارغ ہو کر کشمیر کاز کو سپورٹ کرنے پر آ جائیں تو کشمیر کی آزادی دنوں کی بات ہے۔
ابھی اگلے چند مہینوں میں انڈیا کے اندر قومی سطح پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔انتخابات سے پہلے جناب مودی جی اپنے اسٹرانگ مینStrong Manہونے کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں۔آزادی کے متوالے سکھوں کو قتل کروا کے وہ اسٹرانگ مین بن سکتے ہیں جس سے ان کو انتخابات میں بہت فائدہ ہو گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ مودی جی کشمیر میں کوئی ڈھونگ رچا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا ،امریکا اور کینیڈا جیسے طاقتور اور مضبوط عدلیہ رکھنے والے ممالک میں ایسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارروائی کرنے کی کیوں جرات کر رہا ہے اور کیوں تعلقات کشیدہ کرنے کا رسک لے رہا ہے۔اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ فی الوقت انڈیا، امریکا اور مغرب کی مجبوری ہے۔
مغربی طاقتوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ چین کی انتہائی تیزی سے ابھرتی قوت کے آگے بند باندھنا ہے۔اس کے لئے انڈیا فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے پر تیار ہوا ہے۔ان حالات میں انڈیا جانتا ہے کہ امریکا کسی صورت بھی تعلقات میں بگاڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔China Containmentپالیسی کی وجہ سے امریکا مجبور ہے کہ انڈیا کی حرکتوں سے صرفِ نظر کرے۔
بانیٔ پاکستان نے سکھ رہنماؤں کو بے شمار ایسی مراعات کی بھی پیش کش کی جن کا کوئی چھوٹی کمیونٹی تصور بھی نہیں کر سکتی۔اگر تقسیم کے موقع پر سکھ رہنماء قائدِ اعظم کی پیش کش قبول کر لیتے تو پاکستان کے اندر ایک سکھ ریاست قائم ہو جاتی اور پنجاب تقسیم نہ ہوتا۔سکھوں نے قائدِ اعظم کی پیش کش قبول نہ کی۔
دراصل ماسٹر تارا سنگھ پنڈت نہرو کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔پنڈت جی نے سکھ رہنماؤں کے ساتھ وعدہ کیا کہ انڈیا کے اندر ایک خود مختار سکھ ریاست قائم کی جائے گی۔پنڈت جی نے کئی دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی اسی طرح کے وعدے کر کے جھانسا دیا اور بعد میں ہندوستانی فوج بھیج کر قبضہ کر لیا،البتہ سکھ اپنے ساتھ کیے گئے وعدے کو بھولے نہیں۔ ہندوستان نے اس دوران مشرقی پنجاب کے حصے بخرے کر کے تین صوبے تشکیل دے دئے ہیں۔
1973میں آنند پور کے مقام پر سکھوں نے ایک قرار داد منظور کی جس میں ہندوستان کے اندر ایک سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔سکھوں نے صرف مطالبہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے لئے جدو جہد بھی شروع کر دی۔80کی دہائی میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اس کاز کے لئے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان نذر کی۔
1980کی دہائی میں انڈیا نے سکھ تحریک کے حامی سکھوں کو چُن چُن کر مار ڈالا اور خود مختار سکھ ریاست کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا۔اس دہائی میں خالصتان تحریک نے ابتدا میں بہت زور پکڑا لیکن انڈین حکومت کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے یہ تحریک خاصی دب گئی البتہ یہ تحریک کبھی بھی ختم نہیں ہوئی۔
پچھلے کئی سالوں میں سکھوں کی تحریک نے یہ پالیسی اپنائی کہ انڈیا کے باہر سے انڈین حکومت پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا جائے کہ وہ سکھ ریاست کے قیام کا وعدہ پورا کرے۔اس سلسلے میں آسٹریلیا،کینیڈا اور امریکا میں رہنے والے سکھوں کو کامیابی سے موبلائز کیا گیا۔انڈیا کی حکومت نے ایک بار پھر پرانا اور آزمودہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سکھ تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اب کی بار انڈین حکومت کے لئے مشکلات بہت زیادہ ہیں۔
ایک تو سکھ پہلے کی نسبت زیادہ منظم ہیں اور انڈین حکومت کے ایجنٹوں کو موقع کم دے رہے ہیں۔ان کی سرگرمیاں انڈیا سے باہر ہونے کی وجہ سے انڈین حکومت کی پہنچ سے نسبتاً دور ہیں۔ جناب مودی جی کی حکومت خالصتانی سکھوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے۔
امسال جون کے مہینے میں خالصتان ٹائیگر فورس کے ایک بہت فعال اور انتہائی سرگرم رکن ہر دیپ سنگھ نجر کو دن دہاڑے اوٹاوہ کینیڈا کے گوردوارے کی پارکنگ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔کینیڈا وہ ملک ہے جس نے ہندوستاں کے پہلے نیوکلر ٹیسٹ کے لئے ایندھن فراہم کیا تھا لیکن انڈیا نے ایک انتہائی گھناؤنا جرم کرتے ہوئے اپنے محسن ملک کا بھی لحاظ نہیں کیا۔
کینیڈا نے اپنی سرزمین پراپنے شہری کے قتل کو بہت سنجیدگی سے لیا۔دو مہینے پہلے دہلی میں ہونے والی G-20کانفرنس کے موقع پر کینیڈا کے وزیرِاعظم نے ہندوستانی وزیرِ اعظم کے ساتھ اس معاملے کو اُٹھایا لیکن شاید مناسب جواب نہ ملنے پر کینیڈین وزیرِ اعظم نے واپس وطن لوٹنے پر کینیڈین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مجرمانہ انڈین غارت گری کا بھانڈا پھوڑ دیا۔کینیڈا کے وزیرِ اعظم کے بیان پر سارا ہندوستان سیخ پا ہو گیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے۔
کینیڈا کی وزیرِ خارجہ میلانا جولیا نے تو اس ہندوستانی کا نام تک بتا دیا جو ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل کی کاروائی میں ملوث تھا۔میلانا نے بتایا کہ یہ انڈین افسر پون کمار تھا اور انڈین سیکیورٹی ایجنسی را کا ایجنٹ تھا۔امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان کربی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر جوبائیڈن قتل کی اس مجرمانہ کاروائی کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
کینیڈا کی سرزمین پر جون میں ہر دیپ سنگھ کے قتل اور اس کے نتیجے میں انتہائی کشیدہ تعلقات کے باوجود ہندوستانی حکومت باز نہ آئی اور اپنے اہلکار متعین نیویارک کو ایک اجرتی قاتل ڈھونڈنے کا حکم دیا تاکہ خالصتان تحریک کے حامی جناب گُر پنت سنگھ پنوں کو جلد از جلد قتل کر کے ٹھکانے لگادیا جائے۔
انڈین حکومت امسال اگست میں یہ حرکت اس وقت کر رہی تھی جب وزیرِ اعظم جناب مودی امریکا کے سرکاری دورے پر تھے اور ان کی خاصی پذیرائی ہو رہی تھی۔اس دورے میں امریکا اور انڈیا کے مابین تجارت اور دفاع کے شعبوں میں بڑھوتی متوقع تھی۔نیویارک امریکا کی ایک عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات سے انڈین حکومتی اہلکاروں کی طرف سے قتل کی سازش کا انکشاف ہوتا ہے۔ان دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ انڈین حکومت کے ایک اہلکار مسٹر گپتا جس کا تعلق انڈین سیکیورٹی ایجنسی را سے ہے اس میں ملوث ہے۔
گپتا نے نیویارک میں اجرتی قاتل سے رابطہ قائم کیا اور اسے خالصتان تحریک کے سرگرم رکن گُرپنت سنگھ پنوں کو فوراً ختم کرنے کا کہا ۔گپتا نے اجرتی قاتل کو اس مجرمانہ فعل کے بدلے ایک لاکھ ڈالر ادائیگی کی پیش کش کی۔ نیویارک میں مبینہ اجرتی قاتل یہ کام نبٹانے میں تیزی نہیں دکھا رہا تھا تو گپتا نے ایک بار پھررابطہ قائم کر کے اجرتی قاتل پر جلدی کرنے کے لئے زور دیا اور یہ بھی کہا ابھی کینیڈا میں ہر دیپ کے علاوہ3اور شکار موجود ہیں،انھیں بھی جلد از جلدختم کرنا از بس ضروری ہے۔
30جون2023 کو گپتا نے دہلی سے اُڑان بھری اور چیک ری پبلک پہنچا جہاں اسے امریکی حکومت کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔
گپتا جس امریکی اجرتی قاتل سے رابطے میں تھا اور جس کے ذریعے خالصتانی سکھ کو قتل کروانا چاہتا تھا،وہ در اصل ایک انڈر کورامریکی سیکیورٹی اہلکار تھا جو اس مکروہ اور گھناؤنے ہندوستانی منصوبے کی تمام تفصیلات گپتا سے حاصل کر رہا تھا،یوں گر پنت سنگھ پنوں کے قتل کی ہندوستانی واردات کو کامیابی سے نا کام بنا دیا گیا۔ پاکستان میں ایک انتہائی قابلِ اعتماد سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ اس سال پاکستان کے اندر چھپے 16 خالصتانی سکھوں کو انڈیا نے قتل کروایا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی حکومت کیوں ایسا کر رہی ہے۔انڈیا میں صرف خالصتان تحریک نہیں چل رہی کہ اس کو ختم کر کے انڈیا میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔انڈیا میں درجنوں ایسی تحریکیں چل رہی ہیں۔اصل میں بھارتی پنجاب بہت اہم ہے۔ایک تو یہ ریاست سارے ہندوستان کو کھلاتی ہے۔کشمیر میں علیحدگی کی ایک جاندار تحریک جاری ہے۔
اگر پنجاب میں حالات ہندوستان کے ہاتھوں سے نکلیں تو کشمیر کیآزادی کی تحریک کو بہت سپورٹ ملتی ہے۔سکھ ہندوستانی محاذ سے فارغ ہو کر کشمیر کاز کو سپورٹ کرنے پر آ جائیں تو کشمیر کی آزادی دنوں کی بات ہے۔
ابھی اگلے چند مہینوں میں انڈیا کے اندر قومی سطح پر انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔انتخابات سے پہلے جناب مودی جی اپنے اسٹرانگ مینStrong Manہونے کا تاثر قائم کرنا چاہتے ہیں۔آزادی کے متوالے سکھوں کو قتل کروا کے وہ اسٹرانگ مین بن سکتے ہیں جس سے ان کو انتخابات میں بہت فائدہ ہو گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ مودی جی کشمیر میں کوئی ڈھونگ رچا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا ،امریکا اور کینیڈا جیسے طاقتور اور مضبوط عدلیہ رکھنے والے ممالک میں ایسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کارروائی کرنے کی کیوں جرات کر رہا ہے اور کیوں تعلقات کشیدہ کرنے کا رسک لے رہا ہے۔اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ فی الوقت انڈیا، امریکا اور مغرب کی مجبوری ہے۔
مغربی طاقتوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ چین کی انتہائی تیزی سے ابھرتی قوت کے آگے بند باندھنا ہے۔اس کے لئے انڈیا فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے پر تیار ہوا ہے۔ان حالات میں انڈیا جانتا ہے کہ امریکا کسی صورت بھی تعلقات میں بگاڑ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔China Containmentپالیسی کی وجہ سے امریکا مجبور ہے کہ انڈیا کی حرکتوں سے صرفِ نظر کرے۔