معمر افراد کو ناکارہ اور بوجھ مت سمجھیے۔۔۔
اسلام نے عمر رسیدہ افراد کو اضافی حقوق دیے ہیں، انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا ہے
دینِ اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں۔
حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بل کہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔
ہمارا دین اس قدر خوب صورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا بہ غور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بوڑھے والد آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ ﷺ نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: ''میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہؓ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔'' (حاکم، المستدرک)
یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ ﷺ ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ ﷺ نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں۔
بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم و تکریم سے کتراتا ہے، حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے، آپ ﷺ نے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی تعظیم :
حضرت ابو موسی اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اﷲ تعالی کی تعظیم کا حصہ ہے۔'' (ابوداود، السنن)
اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بے شک! میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔'' ( کنز العمال)
بوڑھوں کا نماز میں بھی خیال رکھنا:
حضور نبی اکرم ﷺ کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہم دردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں: ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اﷲ ﷺ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت کرنے میں اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔
فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیوں کہ ان میں کم زور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ (بخاری)
سماجی اور معاشرتی معاملات میں بڑوں کی تکریم:
حضرت حسن بن مسلمؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہ اﷲ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔'' (بیہقی، شعب الایمان)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ '' (المستدرک)
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری)
اس حدیث مبارک میں غور طلب امر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمر رسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسوہ رسالت مآب ﷺ سے ملتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر طرح کے سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔ درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتہ داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جہاں اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائی کا حکم دیا ہے وہاں بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
رب کا انعام اپنے بوڑھے بندے پر:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے۔
جنون، کوڑھ اور برص اور جب پچاس سال کا ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالی اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اﷲ تعالی اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اﷲ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔'' (مسند احمد بن حنبل)
عہد خلافت راشدہ اور عمر رسیدہ لوگ:
عہد رسالت مآب ﷺ کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی عمر رسیدہ افراد کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا گیا اور انہیں کئی مراعات دی گئیں جو بوڑھے افراد کام کاج کے قابل نہیں تھے ان کے لیے وظائف مقرر کر دیے جاتے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم عمر رسیدہ افراد کی بھی امداد کی جاتی۔ جس کا عہد فاروقی کی درج ذیل مثال سے واضح اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار حضرت عمر فاروقؓ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھا بھیک مانگ رہا ہے آپ نے بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: جزیہ اور معاشی ضروریات نے مجبور کر دیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے جا کر کچھ عطا کیا پھر بیت المال میں لے جا کر خزانچی کو حکم دیا: یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو یہ انصاف نہ ہوگا کہ ہم نے جوانی میں ان سے فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں ہم ان کو بھول جائیں۔ ال غرض اس کا اور اس قسم کے دوسرے معززین کا بیت المال سے وظیفہ جاری ہوگیا اور ان سے جزیہ ساقط ہوگیا۔ (ابوعبیدہ قاسم، کتاب اموال)
دور حاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے راہ نمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔
ضعیف العمری کے باعث چڑچڑا پن فطری تقاضا ہے لہٰذا بوڑھوں کی خلاف مزاج باتوں پر تحمل اور برداشت سے صرف نظر کریں تاکہ گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن سکیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ضعیف العمر اشخاص کی قدر و منزلت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بل کہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔
ہمارا دین اس قدر خوب صورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کا بہ غور مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بوڑھے والد آپ ﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ ﷺ نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: ''میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہؓ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔'' (حاکم، المستدرک)
یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ ﷺ ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ ﷺ نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں۔
بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم و تکریم سے کتراتا ہے، حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے، آپ ﷺ نے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی تعظیم :
حضرت ابو موسی اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اﷲ تعالی کی تعظیم کا حصہ ہے۔'' (ابوداود، السنن)
اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بے شک! میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔'' ( کنز العمال)
بوڑھوں کا نماز میں بھی خیال رکھنا:
حضور نبی اکرم ﷺ کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہم دردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔
حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں: ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اﷲ ﷺ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نصیحت کرنے میں اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔
فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیوں کہ ان میں کم زور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔ (بخاری)
سماجی اور معاشرتی معاملات میں بڑوں کی تکریم:
حضرت حسن بن مسلمؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہ اﷲ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔'' (بیہقی، شعب الایمان)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ '' (المستدرک)
حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری)
اس حدیث مبارک میں غور طلب امر یہ ہے کہ آپ ﷺ نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمر رسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسوہ رسالت مآب ﷺ سے ملتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہر طرح کے سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔ درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ ﷺ نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتہ داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ ﷺ نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو ترجیح دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جہاں اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائی کا حکم دیا ہے وہاں بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو بہت سے حقوق دیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
رب کا انعام اپنے بوڑھے بندے پر:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے۔
جنون، کوڑھ اور برص اور جب پچاس سال کا ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالی اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اﷲ تعالی اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اﷲ تعالی اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اﷲ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔'' (مسند احمد بن حنبل)
عہد خلافت راشدہ اور عمر رسیدہ لوگ:
عہد رسالت مآب ﷺ کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی عمر رسیدہ افراد کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا گیا اور انہیں کئی مراعات دی گئیں جو بوڑھے افراد کام کاج کے قابل نہیں تھے ان کے لیے وظائف مقرر کر دیے جاتے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم عمر رسیدہ افراد کی بھی امداد کی جاتی۔ جس کا عہد فاروقی کی درج ذیل مثال سے واضح اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار حضرت عمر فاروقؓ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھا بھیک مانگ رہا ہے آپ نے بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا: جزیہ اور معاشی ضروریات نے مجبور کر دیا ہے۔
حضرت عمرؓ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے جا کر کچھ عطا کیا پھر بیت المال میں لے جا کر خزانچی کو حکم دیا: یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو یہ انصاف نہ ہوگا کہ ہم نے جوانی میں ان سے فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں ہم ان کو بھول جائیں۔ ال غرض اس کا اور اس قسم کے دوسرے معززین کا بیت المال سے وظیفہ جاری ہوگیا اور ان سے جزیہ ساقط ہوگیا۔ (ابوعبیدہ قاسم، کتاب اموال)
دور حاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے راہ نمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسوہ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔
ضعیف العمری کے باعث چڑچڑا پن فطری تقاضا ہے لہٰذا بوڑھوں کی خلاف مزاج باتوں پر تحمل اور برداشت سے صرف نظر کریں تاکہ گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن سکیں۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ضعیف العمر اشخاص کی قدر و منزلت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین