سب مایا ہے حصہ دوم
بی جے پی کو چندہ دینے والا سب سے بڑا روایتی گروہ وہ مڈل کلاس تاجر طبقہ تھا جسے دین و دنیا کی یکساں فکر رہتی ہے
چوہے پکڑنے والی بلی کا رنگ سیاہ ہے کہ سفید۔کیا فرق پڑتا ہے۔( ڈینگ ژاؤ بینگ)۔
انیس سو تیس، بتیس اور تنیتیس کے پارلیمانی انتخابات میں جرمن کارپوریٹ سیکٹر نے شائد یہی سوچ کر انتخابی ریس میں ہٹلر نامی گھوڑے پر شرط لگائی تھی۔کیونکہ جرمن کیمونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹس پر تو شرط نہیں بدی جاسکتی تھی۔چنانچہ منطقی انتخاب مضبوط اور فیصلہ کن شخصیت کا مالک ہٹلر ہی تھا جو جمہوریت اور کثیر جماعتی نظام کی افادیت پر یقین رکھے نہ رکھے مگر ایک مستحکم معیشت کے ستون بننے والوں کے لیے راستہ صاف کرسکے۔
ہٹلر کے مددگار سرمایہ کاروں کو اس کا صلہ جنگی معیشت کو تیزی سے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اسٹیل سازی، اسلحہ سازی، کیمیکل سازی کے ٹھیکوں کی شکل میں ملا۔ بھاگتے یہودیوں کا کاروبار اونے پونے داموں ہاتھ آگیا اور چند برس بعد روس سے فرانس تک کا مقبوضہ علاقہ، کاروبار اور بینک، مشرقی یورپ کے کنسنٹریشن کیمپوں کے قیدی بشمول لاکھوں غلام مزدوروں سستی یا مفت افرادی قوت کی صورت میں دستیاب ہو گئے۔ اور ان سب سے حاصل ہونے والا منافع غیرجانبدار سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرایا جانے لگا۔
گجرات ماڈل
سن چوراسی میں جب آر ایس ایس کے سیاسی بازو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے روپ میں پہلا الیکشن لڑا تو اس کے ہاتھ لوک سبھا کی صرف دو سیٹیں آئیں۔ چنانچہ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے رام مندر کی تعمیر کا ایشو اٹھایا اور اگلے پانچ قومی انتخابات میں اس کا ووٹ بینک ساڑھے تین فیصد سے اٹھ کر بیس فیصد کے اوسط پر آگیا۔لیکن دو ہزار نو کے الیکشن میں بی جے پی کا ووٹ بینک کم ہو کر تقریباً انیس فیصد پر پہنچ گیا۔اور پھر دو ہزار چودہ کے انتخابات میں اسی بی جے پی نے اکتیس فیصد ووٹروں کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یعنی دیگر پارٹیوں کے تقریباً بارہ فیصد ووٹروں نے اپنا وزن بی جے پی کے پلڑے میں ڈال دیا۔مگر کیوں؟
انیس سو اکیانوے میں جب بھارت کی بند سوشلسٹ معیشت کو آزاد روی کے راستے پر ڈالا گیا تو لائسنس جاری کرنے والے بابو کا زوال شروع ہوا اور مقامی کارپوریٹ سیکٹر نے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ٹاٹا اور برلا آزادی سے پہلے سے بھی کانگریس کی مالی معاونت میں پیش پیش تھے اور آزادی کے بعد بھی۔سن اسی کے عشرے میں لائسنس راج کی سرپرستی میں دھیرو بھائی امبانی کا ریلائنس گروپ ابھرنا شروع ہوا۔
مگر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سے جب بھارت میں یک جماعتی کے بجائے لگاتار مخلوط مرکزی حکومتوں کا چلن شروع ہوا تو ریلائنس گروپ نے ایک ہی ٹوکری میں انڈے رکھنے کے بجائے انھیں کئی چھوٹی بڑی ٹوکریوں میں پھیلا دیا تاکہ جو بھی اقتدار میں آئے اس سے گروپ کی گروتھ میں فرق نہ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت ریلائنس اثاثوں کے اعتبار سے بھارت کا سب سے طاقتور صنعتی گروپ ہے۔ظاہر ہے باقی کارپوریٹ سیکٹر نے بھی کارپوریٹ لیڈر کی تقلید میں یہی روش اختیار کی تاکہ فائدہ ہو نہ ہو مگر منافع میں خسارہ نہ ہو۔
بی جے پی کو چندہ دینے والا سب سے بڑا روایتی گروہ وہ مڈل کلاس تاجر طبقہ تھا جسے دین و دنیا کی یکساں فکر رہتی ہے۔جب انیس سو اٹھانوے میں اٹل بہاری واجپائی نے مخلوط حکومت بنائی تو بیس سے زائد اتحادی جماعتوں کو ساتھ لینے کی مشکل میں ان کے ہاتھ بندھے رہے اور بی جے پی کی جو بھی اقتصادی فلاسفی تھی اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کرپائی۔لہذا واجپائی جی کو من موہن سنگھ اقتصادی ماڈل پر ہی تکیہ کرنا پڑا۔چنانچہ ترقی کی شرح ضرور چار سے سات فیصد تک رہی لیکن اس کا شہری مڈل کلاس کو فائدہ پہنچا اور دیہی ہندوستان میں رہنے والی ساٹھ فیصد آبادی کی روزمرہ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔لہٰذا دو ہزار چار کے انتخابات میں چند بڑے شہروں میں انفراسٹرکچر کی ترقی تو انڈیا شائننگ کے الیکشن نعرے میں دکھائی دے رہی تھی مگریہ نعرہ مزدور اور کسان کے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔نتیجہ بی جے پی اتحاد کی شکست اور کانگریس کی فتح کی صورت میں نکلا۔
مگر بھارت کے ایک کونے میں سن دو ہزار میں ایک ایسی تبدیلی آئی جس کا اس وقت کسی نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔مغربی بھارت کی ریاست گجرات میں نریندر مودی بی جے پی کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔اور انھوں نے گجرات کی سوشیو پولٹیکل لیبارٹری میں اقتصادی لبرلائزیشن اور اندرونی فاشزم کی ایک موثر کاک ٹیل تیار کی جس کے نتیجے میں ایک جانب تو بڑے سرمائے کو ریاست میں راغب کرنے کے لیے زمین کے حصول ، قرضوں کی دستیابی اور ماحولیاتی قوانین کو لچکدار اور سہل بنایا گیا۔
دوسری جانب ووٹ بینک کو بڑھانے اور پکا کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سستہ ٹکاؤ پائیدار راستہ اختیار کیا گیا جس کا نتیجہ فروری مارچ دو ہزار دو کے عظیم گودھرا بلوے کی شکل میں نکلا۔جس طرح نازی جرمنی میں اکثریت کو مصروف رکھنے کے لیے یہودیوں کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ فراہم کردیا گیا تھا اسی طرح گجرات میں مسلمان اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا لگ بھگ نو فیصد ہے شدت پسند تجربات کے لیے پنچنگ بیگ بن گئی۔اس کے بعد مودی نے لگاتار چار ریاستی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے اور ریاست پر عملاً یک جماعتی بلکہ یک شخصی حکومت قائم ہوگئی۔
کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایسی حکومتوں سے معاملہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔چنانچہ جب بنگال نے ٹاٹاکے نینو کار پروجیکٹ کو کسانوں میں زرخیز زمین سے محروم کی بے چینی کے سبب ہری جھنڈی دکھا دی تو مودی نے اس پروجیکٹ کو گجرات منتقل کرنے کی فوری پیش کش کردی۔بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے صنعتی بدامنی سے پاک ریاست کی مارکیٹنگ کی گئی اور فورڈ اور جنرل موٹرز، اسرائیلی کمپنیاں اور ہندوستان کے تمام بڑے بڑے ٹیلی کام ، پیٹرو کیمیکل اور دیگر بھاری مصنوعات ساز گجرات آنے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کی مجموعی اقتصادی گروتھ تو دس برس کے عرصے میں نو فیصد کا ہندسہ چھو کر ساڑھے چار فیصد تک پہنچ گئی لیکن اس دوران گجرات کی معیشت دس فیصد سالانہ کی بڑھوتری ہی دکھاتی رہی۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور انھیں کھپانے کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کی سالانہ شرح کم ازکم سات سے آٹھ فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔کانگریس کے پہلے دور میں (دو ہزار چار تا نو ) ترقی کی شرح کم و بیش سات تا آٹھ فیصد رہی لیکن جب دو ہزار آٹھ میں عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تو بھارت کو ساٹھ ارب ڈالر سالانہ کما کر دینے والی آئی ٹی اور آؤٹ سورسنگ انڈسٹری کو بھی بیرونی آرڈرز ملنے کم ہوگئے اس کا اثر دیگر شعبوں پر بھی پڑنے لگا لہٰذا شرح ترقی آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی اور دو ہزار گیارہ کے بعد اس کا اوسط چار تا پانچ فیصد کے درمیان آگیا۔
ایسے موقع پر کانگریس کے امیج پر جلتی پر تیل کا کام پے درپے سامنے آنے والے میگا کرپشن اسکینڈلز نے کیا۔پہلے ایشین گیمز کے تعمیراتی کام میں اربوں کا گھپلا ، پھر ٹو جی ٹیلی کام لائسنس کی نیلامی میں لگ بھگ سترہ ارب روپے کا گھپلا ، پھر کوئلے کی کانوں کی لیز من پسند صنعت کاروں کو ٹکے سیر بیچنے کا اسکینڈل۔ساتھ ہی ساتھ کنگ فشر ایئرلائن کا دیوالیہ اور سیکڑوں دیگر کمپنیوں کا ڈوبنا۔چنانچہ مڈل کلاس نے کرپشن کے خلاف مزاحمت شروع کردی اور پہلے انا ہزارے کی تحریک اور پھر اروند کیجری وال کا ظہور ہوا۔دوسری جانب گجرات میں مودی کی اقتصادی پرفارمنس کے سبب ہندوستان کا کارپوریٹ سیکٹر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جب تک کانگریس کے وزنی کچھوے کو گجرات ماڈل کا اقتصادی خرگوش پیچھے نہیں چھوڑے گا تب تک معیشت لنگڑاتی ہوئی چلتی رہے گی۔
بی جے پی نے اپنی پے درپے دو شکستوں سے یہ سبق لیا کہ صرف مذہبی شدت پسندی ایک حد تک ہی بیچی جا سکتی ہے۔لہٰذا بی جے پی نے بدعنوانیوں کے خلاف مڈل کلاس کی بے چینی کو ہائی جیک کرکے کیش کرانے کا فیصلہ کرلیا اور رام مندر کے معاملے کو انتخابی تانگے کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا۔لیکن مودی کے ماتھے پر چونکہ دو ہزار دو کے مسلم کش فسادات کا ٹیکہ لگا ہوا تھا اس لیے بی جے پی مودی کو وزیرِ اعظم کا امیدوار بنانے کے بارے میں خاصی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔چنانچہ کارپوریٹ سیکٹر نے براہ راست مودی کو اگلے وزیرِاعظم کے طور پر اتارنے کا بیڑہ اٹھایا۔سب سے پہلے رتن ٹاٹا نے دو ہزار بارہ میں یہ خواہش ظاہر کی کہ ملک کو مودی جیسا شخص چاہیے۔ پھر ریلائنس کے امبانی برادرز نے بھی اس بات کو آگے بڑھایا۔
دو ہزار بارہ میں ہی دو برس بعد ہونے والے انتخابات کی حکمتِ عملی کارپوریٹ بورڈ روم میں تیار ہونے لگی اور یہ نقشہ بنایا گیا کہ انتخابی مہم میں ڈجیٹل بمباری کی جائے بالکل ایسے جیسے بالی وڈ کی کسی بھی فلم کو سو کروڑ روپے کے کلب میں لانے کے لیے فلم ریلیز ہونے سے پہلے ایسا اشتہاری طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی اس طوفان کی تاب نہ لاتے ہوئے بادلِ نخواستہ فلم دیکھ ہی لیتا ہے۔اور جب پہلے ہفتے میں فلمساز کو سو کروڑ روپے کا ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو دوسرے ہفتے میں فلم ڈوبے یا تیرے اس کی بلا سے۔چنانچہ جب ستمبر دو ہزار تیرہ میں اتخابات سے سات ماہ پہلے مودی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو اس مہم کا نقطہ صرف اور صرف مودی کے گجرات اکنامک ماڈل کو بنایا گیا۔بی جے پی نے بطور پارٹی ثانوی حیثیت اختیار کرلی تاکہ جو لوگ بی جے پی کے نظریے سے الرجک ہیں وہ مودی کے نام پر ہی ووٹ ڈال دیں۔ذرایع ابلاغ میں اشتہاری سونامی آگیا اور اس قدر اشتہاری گڑ ڈالا گیا کہ ہر ٹی وی چینل مودی مودی کرنے لگا۔کانگریس اور مودی کی اشتہاری مہم کا تناسب ایک اور پچاس ہوگیا۔
کہاں بی جے پی دو ہزار نو کے انتخابات میں بھارتی سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے پندرہ سو ارب ڈالر کے کالے دھن کی سوئس بینکوں سے واپسی پر کمربستہ تھی اور کہاں دو ہزار چودہ کے انتخابات میں مودی کے انتخابی فنڈ میں تیرہ سو چونتیس بڑے صنعت کاروں نے چندہ دیا جب کہ کانگریس کو محض چار سو اٹھارہ سرمایہ کاروں کی جانب سے ہی چندہ مل پایا۔
اب جب کہ مودی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں کیا وہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کے روسی ماڈل کی طرح سرکاری سیکٹر کو ٹکے سیر طفیلی سرمائے کو دے دیں گے یا پھر ترقی کا چینی ماڈل اپنائیں گے جس میں سرکاری، نجی اور بیرونی ساتھ ساتھ برابری سے چلتا ہے۔ماڈل کوئی بھی ہو دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ دو ہزار انیس کے انتخابات تک بھارتی کسانوں کی خود کشیوں میں کتنی کمی آتی ہے جو اس وقت بارہ ہزار سالانہ کے لگ بھگ ہے۔نکسل تحریک کا زور کتنا ٹوٹتا ہے جو اس وقت شمالی اور وسطی بھارت کے قبائلیوں کی زمین چھن جانے کے خوف پر پھل پھول رہی ہے۔اور مڈل کلاس کو کیا ملتا ہے۔مودی نے جو خواب دکھائے ہیں اگر وہ اگلے تین برس کے دوران پورے ہوتے نظر نہ آئے تو اس سے اگلے دو برس میں مودی کا سحر ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور یہی وقت ہوگا جب گجرات ماڈل نمبر ٹو سامنے لایا جائے یعنی فرقہ وارانہ کارڈ۔خدا کرے ایسا نہ ہو۔ ( اختتام )۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )
انیس سو تیس، بتیس اور تنیتیس کے پارلیمانی انتخابات میں جرمن کارپوریٹ سیکٹر نے شائد یہی سوچ کر انتخابی ریس میں ہٹلر نامی گھوڑے پر شرط لگائی تھی۔کیونکہ جرمن کیمونسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹس پر تو شرط نہیں بدی جاسکتی تھی۔چنانچہ منطقی انتخاب مضبوط اور فیصلہ کن شخصیت کا مالک ہٹلر ہی تھا جو جمہوریت اور کثیر جماعتی نظام کی افادیت پر یقین رکھے نہ رکھے مگر ایک مستحکم معیشت کے ستون بننے والوں کے لیے راستہ صاف کرسکے۔
ہٹلر کے مددگار سرمایہ کاروں کو اس کا صلہ جنگی معیشت کو تیزی سے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے اسٹیل سازی، اسلحہ سازی، کیمیکل سازی کے ٹھیکوں کی شکل میں ملا۔ بھاگتے یہودیوں کا کاروبار اونے پونے داموں ہاتھ آگیا اور چند برس بعد روس سے فرانس تک کا مقبوضہ علاقہ، کاروبار اور بینک، مشرقی یورپ کے کنسنٹریشن کیمپوں کے قیدی بشمول لاکھوں غلام مزدوروں سستی یا مفت افرادی قوت کی صورت میں دستیاب ہو گئے۔ اور ان سب سے حاصل ہونے والا منافع غیرجانبدار سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرایا جانے لگا۔
گجرات ماڈل
سن چوراسی میں جب آر ایس ایس کے سیاسی بازو بھارتیہ جن سنگھ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے روپ میں پہلا الیکشن لڑا تو اس کے ہاتھ لوک سبھا کی صرف دو سیٹیں آئیں۔ چنانچہ بی جے پی نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے رام مندر کی تعمیر کا ایشو اٹھایا اور اگلے پانچ قومی انتخابات میں اس کا ووٹ بینک ساڑھے تین فیصد سے اٹھ کر بیس فیصد کے اوسط پر آگیا۔لیکن دو ہزار نو کے الیکشن میں بی جے پی کا ووٹ بینک کم ہو کر تقریباً انیس فیصد پر پہنچ گیا۔اور پھر دو ہزار چودہ کے انتخابات میں اسی بی جے پی نے اکتیس فیصد ووٹروں کا اعتماد حاصل کرلیا۔ یعنی دیگر پارٹیوں کے تقریباً بارہ فیصد ووٹروں نے اپنا وزن بی جے پی کے پلڑے میں ڈال دیا۔مگر کیوں؟
انیس سو اکیانوے میں جب بھارت کی بند سوشلسٹ معیشت کو آزاد روی کے راستے پر ڈالا گیا تو لائسنس جاری کرنے والے بابو کا زوال شروع ہوا اور مقامی کارپوریٹ سیکٹر نے پھلنا پھولنا شروع کیا۔ٹاٹا اور برلا آزادی سے پہلے سے بھی کانگریس کی مالی معاونت میں پیش پیش تھے اور آزادی کے بعد بھی۔سن اسی کے عشرے میں لائسنس راج کی سرپرستی میں دھیرو بھائی امبانی کا ریلائنس گروپ ابھرنا شروع ہوا۔
مگر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سے جب بھارت میں یک جماعتی کے بجائے لگاتار مخلوط مرکزی حکومتوں کا چلن شروع ہوا تو ریلائنس گروپ نے ایک ہی ٹوکری میں انڈے رکھنے کے بجائے انھیں کئی چھوٹی بڑی ٹوکریوں میں پھیلا دیا تاکہ جو بھی اقتدار میں آئے اس سے گروپ کی گروتھ میں فرق نہ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت ریلائنس اثاثوں کے اعتبار سے بھارت کا سب سے طاقتور صنعتی گروپ ہے۔ظاہر ہے باقی کارپوریٹ سیکٹر نے بھی کارپوریٹ لیڈر کی تقلید میں یہی روش اختیار کی تاکہ فائدہ ہو نہ ہو مگر منافع میں خسارہ نہ ہو۔
بی جے پی کو چندہ دینے والا سب سے بڑا روایتی گروہ وہ مڈل کلاس تاجر طبقہ تھا جسے دین و دنیا کی یکساں فکر رہتی ہے۔جب انیس سو اٹھانوے میں اٹل بہاری واجپائی نے مخلوط حکومت بنائی تو بیس سے زائد اتحادی جماعتوں کو ساتھ لینے کی مشکل میں ان کے ہاتھ بندھے رہے اور بی جے پی کی جو بھی اقتصادی فلاسفی تھی اس پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کرپائی۔لہذا واجپائی جی کو من موہن سنگھ اقتصادی ماڈل پر ہی تکیہ کرنا پڑا۔چنانچہ ترقی کی شرح ضرور چار سے سات فیصد تک رہی لیکن اس کا شہری مڈل کلاس کو فائدہ پہنچا اور دیہی ہندوستان میں رہنے والی ساٹھ فیصد آبادی کی روزمرہ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔لہٰذا دو ہزار چار کے انتخابات میں چند بڑے شہروں میں انفراسٹرکچر کی ترقی تو انڈیا شائننگ کے الیکشن نعرے میں دکھائی دے رہی تھی مگریہ نعرہ مزدور اور کسان کے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔نتیجہ بی جے پی اتحاد کی شکست اور کانگریس کی فتح کی صورت میں نکلا۔
مگر بھارت کے ایک کونے میں سن دو ہزار میں ایک ایسی تبدیلی آئی جس کا اس وقت کسی نے کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔مغربی بھارت کی ریاست گجرات میں نریندر مودی بی جے پی کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔اور انھوں نے گجرات کی سوشیو پولٹیکل لیبارٹری میں اقتصادی لبرلائزیشن اور اندرونی فاشزم کی ایک موثر کاک ٹیل تیار کی جس کے نتیجے میں ایک جانب تو بڑے سرمائے کو ریاست میں راغب کرنے کے لیے زمین کے حصول ، قرضوں کی دستیابی اور ماحولیاتی قوانین کو لچکدار اور سہل بنایا گیا۔
دوسری جانب ووٹ بینک کو بڑھانے اور پکا کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا سستہ ٹکاؤ پائیدار راستہ اختیار کیا گیا جس کا نتیجہ فروری مارچ دو ہزار دو کے عظیم گودھرا بلوے کی شکل میں نکلا۔جس طرح نازی جرمنی میں اکثریت کو مصروف رکھنے کے لیے یہودیوں کی شکل میں ایک پنچنگ بیگ فراہم کردیا گیا تھا اسی طرح گجرات میں مسلمان اقلیت جو کل ریاستی آبادی کا لگ بھگ نو فیصد ہے شدت پسند تجربات کے لیے پنچنگ بیگ بن گئی۔اس کے بعد مودی نے لگاتار چار ریاستی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے اور ریاست پر عملاً یک جماعتی بلکہ یک شخصی حکومت قائم ہوگئی۔
کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ایسی حکومتوں سے معاملہ کرنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔چنانچہ جب بنگال نے ٹاٹاکے نینو کار پروجیکٹ کو کسانوں میں زرخیز زمین سے محروم کی بے چینی کے سبب ہری جھنڈی دکھا دی تو مودی نے اس پروجیکٹ کو گجرات منتقل کرنے کی فوری پیش کش کردی۔بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے صنعتی بدامنی سے پاک ریاست کی مارکیٹنگ کی گئی اور فورڈ اور جنرل موٹرز، اسرائیلی کمپنیاں اور ہندوستان کے تمام بڑے بڑے ٹیلی کام ، پیٹرو کیمیکل اور دیگر بھاری مصنوعات ساز گجرات آنے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کی مجموعی اقتصادی گروتھ تو دس برس کے عرصے میں نو فیصد کا ہندسہ چھو کر ساڑھے چار فیصد تک پہنچ گئی لیکن اس دوران گجرات کی معیشت دس فیصد سالانہ کی بڑھوتری ہی دکھاتی رہی۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک کروڑ نوجوان ملازمت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں اور انھیں کھپانے کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کی سالانہ شرح کم ازکم سات سے آٹھ فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔کانگریس کے پہلے دور میں (دو ہزار چار تا نو ) ترقی کی شرح کم و بیش سات تا آٹھ فیصد رہی لیکن جب دو ہزار آٹھ میں عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تو بھارت کو ساٹھ ارب ڈالر سالانہ کما کر دینے والی آئی ٹی اور آؤٹ سورسنگ انڈسٹری کو بھی بیرونی آرڈرز ملنے کم ہوگئے اس کا اثر دیگر شعبوں پر بھی پڑنے لگا لہٰذا شرح ترقی آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی اور دو ہزار گیارہ کے بعد اس کا اوسط چار تا پانچ فیصد کے درمیان آگیا۔
ایسے موقع پر کانگریس کے امیج پر جلتی پر تیل کا کام پے درپے سامنے آنے والے میگا کرپشن اسکینڈلز نے کیا۔پہلے ایشین گیمز کے تعمیراتی کام میں اربوں کا گھپلا ، پھر ٹو جی ٹیلی کام لائسنس کی نیلامی میں لگ بھگ سترہ ارب روپے کا گھپلا ، پھر کوئلے کی کانوں کی لیز من پسند صنعت کاروں کو ٹکے سیر بیچنے کا اسکینڈل۔ساتھ ہی ساتھ کنگ فشر ایئرلائن کا دیوالیہ اور سیکڑوں دیگر کمپنیوں کا ڈوبنا۔چنانچہ مڈل کلاس نے کرپشن کے خلاف مزاحمت شروع کردی اور پہلے انا ہزارے کی تحریک اور پھر اروند کیجری وال کا ظہور ہوا۔دوسری جانب گجرات میں مودی کی اقتصادی پرفارمنس کے سبب ہندوستان کا کارپوریٹ سیکٹر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جب تک کانگریس کے وزنی کچھوے کو گجرات ماڈل کا اقتصادی خرگوش پیچھے نہیں چھوڑے گا تب تک معیشت لنگڑاتی ہوئی چلتی رہے گی۔
بی جے پی نے اپنی پے درپے دو شکستوں سے یہ سبق لیا کہ صرف مذہبی شدت پسندی ایک حد تک ہی بیچی جا سکتی ہے۔لہٰذا بی جے پی نے بدعنوانیوں کے خلاف مڈل کلاس کی بے چینی کو ہائی جیک کرکے کیش کرانے کا فیصلہ کرلیا اور رام مندر کے معاملے کو انتخابی تانگے کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا۔لیکن مودی کے ماتھے پر چونکہ دو ہزار دو کے مسلم کش فسادات کا ٹیکہ لگا ہوا تھا اس لیے بی جے پی مودی کو وزیرِ اعظم کا امیدوار بنانے کے بارے میں خاصی ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔چنانچہ کارپوریٹ سیکٹر نے براہ راست مودی کو اگلے وزیرِاعظم کے طور پر اتارنے کا بیڑہ اٹھایا۔سب سے پہلے رتن ٹاٹا نے دو ہزار بارہ میں یہ خواہش ظاہر کی کہ ملک کو مودی جیسا شخص چاہیے۔ پھر ریلائنس کے امبانی برادرز نے بھی اس بات کو آگے بڑھایا۔
دو ہزار بارہ میں ہی دو برس بعد ہونے والے انتخابات کی حکمتِ عملی کارپوریٹ بورڈ روم میں تیار ہونے لگی اور یہ نقشہ بنایا گیا کہ انتخابی مہم میں ڈجیٹل بمباری کی جائے بالکل ایسے جیسے بالی وڈ کی کسی بھی فلم کو سو کروڑ روپے کے کلب میں لانے کے لیے فلم ریلیز ہونے سے پہلے ایسا اشتہاری طوفان اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی اس طوفان کی تاب نہ لاتے ہوئے بادلِ نخواستہ فلم دیکھ ہی لیتا ہے۔اور جب پہلے ہفتے میں فلمساز کو سو کروڑ روپے کا ہدف حاصل ہوجاتا ہے تو دوسرے ہفتے میں فلم ڈوبے یا تیرے اس کی بلا سے۔چنانچہ جب ستمبر دو ہزار تیرہ میں اتخابات سے سات ماہ پہلے مودی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو اس مہم کا نقطہ صرف اور صرف مودی کے گجرات اکنامک ماڈل کو بنایا گیا۔بی جے پی نے بطور پارٹی ثانوی حیثیت اختیار کرلی تاکہ جو لوگ بی جے پی کے نظریے سے الرجک ہیں وہ مودی کے نام پر ہی ووٹ ڈال دیں۔ذرایع ابلاغ میں اشتہاری سونامی آگیا اور اس قدر اشتہاری گڑ ڈالا گیا کہ ہر ٹی وی چینل مودی مودی کرنے لگا۔کانگریس اور مودی کی اشتہاری مہم کا تناسب ایک اور پچاس ہوگیا۔
کہاں بی جے پی دو ہزار نو کے انتخابات میں بھارتی سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے پندرہ سو ارب ڈالر کے کالے دھن کی سوئس بینکوں سے واپسی پر کمربستہ تھی اور کہاں دو ہزار چودہ کے انتخابات میں مودی کے انتخابی فنڈ میں تیرہ سو چونتیس بڑے صنعت کاروں نے چندہ دیا جب کہ کانگریس کو محض چار سو اٹھارہ سرمایہ کاروں کی جانب سے ہی چندہ مل پایا۔
اب جب کہ مودی وزیرِ اعظم بن گئے ہیں کیا وہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کے روسی ماڈل کی طرح سرکاری سیکٹر کو ٹکے سیر طفیلی سرمائے کو دے دیں گے یا پھر ترقی کا چینی ماڈل اپنائیں گے جس میں سرکاری، نجی اور بیرونی ساتھ ساتھ برابری سے چلتا ہے۔ماڈل کوئی بھی ہو دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ دو ہزار انیس کے انتخابات تک بھارتی کسانوں کی خود کشیوں میں کتنی کمی آتی ہے جو اس وقت بارہ ہزار سالانہ کے لگ بھگ ہے۔نکسل تحریک کا زور کتنا ٹوٹتا ہے جو اس وقت شمالی اور وسطی بھارت کے قبائلیوں کی زمین چھن جانے کے خوف پر پھل پھول رہی ہے۔اور مڈل کلاس کو کیا ملتا ہے۔مودی نے جو خواب دکھائے ہیں اگر وہ اگلے تین برس کے دوران پورے ہوتے نظر نہ آئے تو اس سے اگلے دو برس میں مودی کا سحر ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور یہی وقت ہوگا جب گجرات ماڈل نمبر ٹو سامنے لایا جائے یعنی فرقہ وارانہ کارڈ۔خدا کرے ایسا نہ ہو۔ ( اختتام )۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )