جدید کوہ نور اور گولکنڈہ کی کان
مقام شکر ہے کہ ’’دل گراختہ‘‘ تو ہم نے پیدا کر لیا ہے جو اگرچہ دور فرنگستان اور امریکستان میں ہے ۔۔۔۔
FAISALABAD:
ملالہ یوسف زئی کے بارے میں یہ بات تو ہم بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی، یوں کہیے کہ وہ احمد فراز والی بات ہو گئی تھی کہ
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
سوات کے اجڑے ہوئے خرابے کے بارے میں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس خراب اور راکھ کے ڈھیر میں ملالہ یوسف زئی جیسا لعل بدخشاں، گوہر نایاب اور لعل بے بہا ملے گا کہ ساری دنیا اس کی چکا چوند سے منور ہو جائے گی لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ہیرا کوئلے کی کان ہی میں ملتا ہے، اور دیدہ ور نرگس کے ہزاروں سالوں کے آنسو بہانے کے بعد ملتا ہے اور یہاں تو آنسوؤں کے ساتھ ساتھ خون بھی بہایا گیا تھا اور ان دونوں یعنی خون اور آنسوؤں کے امتزاج سے جو ہیرا بنا تھا، اس کا جواب کسی بھی جوہری کے پاس نہیں تھا۔
مدار نقطہ بینش زخال تست مرا
کہ قدر گوہری یک دانہ جوہری داند
ترجمہ : تمہارا خال ہی میری دانش و بینش کا اصل نقطہ ہے کیونکہ کسی در نایاب کی قدر و پرکھ صرف ماہر جوہری ہی کو ہوتی ہے۔ اہل مغرب جانتے ہیں کہ مشرق کی سرزمین ہیرے موتی پیدا کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس کو رکھنے کے لیے کوئی مناسب مقام نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگ ایسے در ہائے نایاب کو لے جا کر اصل مقام پر پہنچا دیتے ہیں چاہے وہ کوئی کوہ نور ہو یا سوات کی ماہ نور ہو، کوہ نور ہیرے کو بھی تو اہل مغرب اس لیے ساتھ لے کر گئے تھے کہ اس خراب آباد میں اس کے ساتھ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے اس لیے اسے اپنے ہاں کے سب سے موزون ترین مقام تاج برطانیہ کی زینت بنا لیا ۔
کاخر ای خاتم جمشید ہمایوں آثار
گرفتد عکس توبر لعل و نگینم چہ شود
یعنی اے ہمایوں صفت خاتم جمشید اگر تم اپنا مبارک عکس مجھ پر بھی ڈال دے تو میں دھینہ ہو جاؤں گا اور آپ کا کچھ بھی کم نہیں ہو گا، ابھی ابھی اس شب چراغ کی طرف سے روشنی کی جو کرن ہماری طرف آئی ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ صرف روشنی کی ایک کرن نہیں بلکہ اس کرن کے اندر اور بھی بہت ساری ''کرنیں'' ہیں جیسے سورج میں کئی رنگ ہوتے ہیں اور پھر ان رنگوں کے ''ملاپ'' سے ہزاروںرنگ پیدا ہوتے ہیں، اس کرن میں سب سے پہلی اور روشن ترین ''کرن'' تعلیم کا فروغ ہے۔ ذرا سوچئے تعلیم کا فروغ ایک بار اور سوچئے تعلیم کا فروغ ۔۔۔ یہ وہی فروغ ہے جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ
حسن فروغ شمع سخن در رہے اسد
پہلے دگ راختہ پیدا کرے کوئی
مقام شکر ہے کہ ''دل گراختہ'' تو ہم نے پیدا کر لیا ہے جو اگرچہ دور فرنگستان اور امریکستان میں ہے لیکن روشنی ہماری طرف پھینک رہا ہے اور اب وہی دل گراختہ کہہ رہا ہے کہ تعلیم کا فروغ...اس کے بعد ''اجتماعی کوشش'' اپنی جگہ ایک اور بڑی کرن ہے اور ان کرنوں کے بعد ''ضرورت'' ہے سب کو ملا کر ایک مرتبہ پھر پرھئے تعلیم کے فروغ کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، لعل شب چراغ کی کرنیں ایک طرف ان کرنوں میں پھر مزید کرنیں بھی ایک طرف ۔۔۔ لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر ملالہ یوسف زئی قابل ہے تو کاہل ہم بھی نہیں ہیں، ''حسن فروغ شمع سخن'' یعنی تعلیم کے لیے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ہم بھی بہت کچھ کر رہے ہیں، ملالہ نے جن اجتماعی کوششوں کی بات کی ہے وہ ہمارے نہایت ہی تعلیم یافتہ اور کوالیفائیڈ لیڈر ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔
تعلیم کے فروغ کے لیے اس سے زیادہ اجتماعی کوششیں اور کیا ہوں گی جو ہماری سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں، تقریباً ہر سیاسی پارٹی نے چنے ہوئے تعلیمی ماہرین رکھے ہوئے ہیں جو اوپن ائر کلاسوں یعنی سڑکوں، چوکوں اور اجتماعی مقامات پر اپنی اپنی تعلیمی کلاسیں منعقد کرتی ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے بمقام اسلام آباد تقریباً سارس پارٹیوں نے ''تعلیم کے فروغ'' کے اجتماعی انتظامات کیے تھے۔ اندرون ملک کے ''ماہرین تعلیم'' تو ان میں شامل تھے ہی باہر کے ممالک سے بھی ماہرین بلوائے گئے تھے۔
بڑی اچھی کلاسیں ہوئیں اور تعلیم کو خاصا فروغ ملا، اتنا زیادہ فروغ کہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ تعلیم آگے آگے دوڑ رہی تھی اور فروغ اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا، مطلب یہ کہ تعلیم کے فروغ کا کام ہمارے ہاں پہلے سے بھی اچھا خاصا زوروں پر ہے، اس پر اگر ملالہ یوسف زئی کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تعلیم کا فروغ چند ہی دنوں کی بات ہے، پھر آپ دیکھ لیں گے کہ تعلیم کو اپنا فروغ مل گیا ہے کہ اس فروغ کو سنبھالنے کے لیے تعلیم کے پاس ''گودام'' کم پڑ جائیں گے، حالانکہ ملک بھر کی گلی گلی میں تعلیم کے گوداموں اسٹوروں اور دکانوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہ جال اتنا مکمل ہے کہ بچے کی مجال ہے جو بچے، بچے کے نہ کوئی جائے بچ کے نہ کوئی جائے۔
اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب
لطمہ موج کم از سیلی استاد نہیں
لیکن جو بات ہم خاص طور پر واضح کرنا چاہتے ہیں وہ ''گولکنڈہ'' کی بات ہے۔ کوہ نور ہیرا کہتے ہیں کہ گولکنڈہ کی کسی کان میں سے ہاتھ لگا تھا، پھر دنیا کو کوہ نور نے اتنا چکا چوند کر دیا کہ کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ یہ بے مثال و بے مثال جمیلہ جمیل اور کمیلہ کمال کوہ نور کہاں سے نکلا تھا، کوہ نور آف گولکنڈہ کے وقت میں تو ہم نہیں تھے اس لیے جو کچھ ہوا وہ ہو چکا ہے لیکن کوہ نور آف سوات کے ساتھ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کے گولکنڈہ کے ساتھ ان کان کنوں اور جوہریوں کا بھی ذکر کریں گے جن کی مساعی جمیلہ سے آج یہ کوہ نور زمانہ اتنی تانباکی سے چمک رہا ہے۔
ملالہ کی چکا چوند نے دنیا کو اتنا زیادہ چکا چوند کیا ہوا ہے کہ اس کے گولکنڈہ کا کوئی نام تک نہیں لیتا اور وہ گولکنڈہ ہیں جناب ملالہ کے والد محترم ۔۔۔ اس بے چارے کو نظر انداز کرنے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آج ہمیں بھی ان کے نام کا پتہ نہیں ہے حالانکہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ مغرب کی قدر دان دنیا نے ان کو کہیں اقوام متحدہ میں یا کہیں اور ایک ''ماہر تعلیم'' کے طور پر رکھا ہوا ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے، ان سے زیادہ ماہر تعلیم اور کون ہو سکتا ہے، ثبوت ہم سب کے سامنے ہے ۔ بلکہ ہمیں تو دکھ اس بات کا بھی ہے کہ سوات اور پشاور کے ان ''جوہر شناس'' صحافیوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جنہوں نے اس کوہ نور کو دریافت کیا تھا اور مغرب کے جوہریوں کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ان میں ہمارے ایک دوست بھی ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کے بارے میں یہ بات تو ہم بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی، یوں کہیے کہ وہ احمد فراز والی بات ہو گئی تھی کہ
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
سوات کے اجڑے ہوئے خرابے کے بارے میں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس خراب اور راکھ کے ڈھیر میں ملالہ یوسف زئی جیسا لعل بدخشاں، گوہر نایاب اور لعل بے بہا ملے گا کہ ساری دنیا اس کی چکا چوند سے منور ہو جائے گی لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ہیرا کوئلے کی کان ہی میں ملتا ہے، اور دیدہ ور نرگس کے ہزاروں سالوں کے آنسو بہانے کے بعد ملتا ہے اور یہاں تو آنسوؤں کے ساتھ ساتھ خون بھی بہایا گیا تھا اور ان دونوں یعنی خون اور آنسوؤں کے امتزاج سے جو ہیرا بنا تھا، اس کا جواب کسی بھی جوہری کے پاس نہیں تھا۔
مدار نقطہ بینش زخال تست مرا
کہ قدر گوہری یک دانہ جوہری داند
ترجمہ : تمہارا خال ہی میری دانش و بینش کا اصل نقطہ ہے کیونکہ کسی در نایاب کی قدر و پرکھ صرف ماہر جوہری ہی کو ہوتی ہے۔ اہل مغرب جانتے ہیں کہ مشرق کی سرزمین ہیرے موتی پیدا کرنے کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن اس کو رکھنے کے لیے کوئی مناسب مقام نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگ ایسے در ہائے نایاب کو لے جا کر اصل مقام پر پہنچا دیتے ہیں چاہے وہ کوئی کوہ نور ہو یا سوات کی ماہ نور ہو، کوہ نور ہیرے کو بھی تو اہل مغرب اس لیے ساتھ لے کر گئے تھے کہ اس خراب آباد میں اس کے ساتھ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے اس لیے اسے اپنے ہاں کے سب سے موزون ترین مقام تاج برطانیہ کی زینت بنا لیا ۔
کاخر ای خاتم جمشید ہمایوں آثار
گرفتد عکس توبر لعل و نگینم چہ شود
یعنی اے ہمایوں صفت خاتم جمشید اگر تم اپنا مبارک عکس مجھ پر بھی ڈال دے تو میں دھینہ ہو جاؤں گا اور آپ کا کچھ بھی کم نہیں ہو گا، ابھی ابھی اس شب چراغ کی طرف سے روشنی کی جو کرن ہماری طرف آئی ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم کے فروغ کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ صرف روشنی کی ایک کرن نہیں بلکہ اس کرن کے اندر اور بھی بہت ساری ''کرنیں'' ہیں جیسے سورج میں کئی رنگ ہوتے ہیں اور پھر ان رنگوں کے ''ملاپ'' سے ہزاروںرنگ پیدا ہوتے ہیں، اس کرن میں سب سے پہلی اور روشن ترین ''کرن'' تعلیم کا فروغ ہے۔ ذرا سوچئے تعلیم کا فروغ ایک بار اور سوچئے تعلیم کا فروغ ۔۔۔ یہ وہی فروغ ہے جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ
حسن فروغ شمع سخن در رہے اسد
پہلے دگ راختہ پیدا کرے کوئی
مقام شکر ہے کہ ''دل گراختہ'' تو ہم نے پیدا کر لیا ہے جو اگرچہ دور فرنگستان اور امریکستان میں ہے لیکن روشنی ہماری طرف پھینک رہا ہے اور اب وہی دل گراختہ کہہ رہا ہے کہ تعلیم کا فروغ...اس کے بعد ''اجتماعی کوشش'' اپنی جگہ ایک اور بڑی کرن ہے اور ان کرنوں کے بعد ''ضرورت'' ہے سب کو ملا کر ایک مرتبہ پھر پرھئے تعلیم کے فروغ کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، لعل شب چراغ کی کرنیں ایک طرف ان کرنوں میں پھر مزید کرنیں بھی ایک طرف ۔۔۔ لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر ملالہ یوسف زئی قابل ہے تو کاہل ہم بھی نہیں ہیں، ''حسن فروغ شمع سخن'' یعنی تعلیم کے لیے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ہم بھی بہت کچھ کر رہے ہیں، ملالہ نے جن اجتماعی کوششوں کی بات کی ہے وہ ہمارے نہایت ہی تعلیم یافتہ اور کوالیفائیڈ لیڈر ایک عرصے سے کر رہے ہیں۔
تعلیم کے فروغ کے لیے اس سے زیادہ اجتماعی کوششیں اور کیا ہوں گی جو ہماری سیاسی پارٹیاں کر رہی ہیں، تقریباً ہر سیاسی پارٹی نے چنے ہوئے تعلیمی ماہرین رکھے ہوئے ہیں جو اوپن ائر کلاسوں یعنی سڑکوں، چوکوں اور اجتماعی مقامات پر اپنی اپنی تعلیمی کلاسیں منعقد کرتی ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے بمقام اسلام آباد تقریباً سارس پارٹیوں نے ''تعلیم کے فروغ'' کے اجتماعی انتظامات کیے تھے۔ اندرون ملک کے ''ماہرین تعلیم'' تو ان میں شامل تھے ہی باہر کے ممالک سے بھی ماہرین بلوائے گئے تھے۔
بڑی اچھی کلاسیں ہوئیں اور تعلیم کو خاصا فروغ ملا، اتنا زیادہ فروغ کہ چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ تعلیم آگے آگے دوڑ رہی تھی اور فروغ اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا، مطلب یہ کہ تعلیم کے فروغ کا کام ہمارے ہاں پہلے سے بھی اچھا خاصا زوروں پر ہے، اس پر اگر ملالہ یوسف زئی کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تعلیم کا فروغ چند ہی دنوں کی بات ہے، پھر آپ دیکھ لیں گے کہ تعلیم کو اپنا فروغ مل گیا ہے کہ اس فروغ کو سنبھالنے کے لیے تعلیم کے پاس ''گودام'' کم پڑ جائیں گے، حالانکہ ملک بھر کی گلی گلی میں تعلیم کے گوداموں اسٹوروں اور دکانوں کا جال بچھا ہوا ہے اور یہ جال اتنا مکمل ہے کہ بچے کی مجال ہے جو بچے، بچے کے نہ کوئی جائے بچ کے نہ کوئی جائے۔
اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتب
لطمہ موج کم از سیلی استاد نہیں
لیکن جو بات ہم خاص طور پر واضح کرنا چاہتے ہیں وہ ''گولکنڈہ'' کی بات ہے۔ کوہ نور ہیرا کہتے ہیں کہ گولکنڈہ کی کسی کان میں سے ہاتھ لگا تھا، پھر دنیا کو کوہ نور نے اتنا چکا چوند کر دیا کہ کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ یہ بے مثال و بے مثال جمیلہ جمیل اور کمیلہ کمال کوہ نور کہاں سے نکلا تھا، کوہ نور آف گولکنڈہ کے وقت میں تو ہم نہیں تھے اس لیے جو کچھ ہوا وہ ہو چکا ہے لیکن کوہ نور آف سوات کے ساتھ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس کے گولکنڈہ کے ساتھ ان کان کنوں اور جوہریوں کا بھی ذکر کریں گے جن کی مساعی جمیلہ سے آج یہ کوہ نور زمانہ اتنی تانباکی سے چمک رہا ہے۔
ملالہ کی چکا چوند نے دنیا کو اتنا زیادہ چکا چوند کیا ہوا ہے کہ اس کے گولکنڈہ کا کوئی نام تک نہیں لیتا اور وہ گولکنڈہ ہیں جناب ملالہ کے والد محترم ۔۔۔ اس بے چارے کو نظر انداز کرنے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آج ہمیں بھی ان کے نام کا پتہ نہیں ہے حالانکہ یہ ہمیں معلوم ہے کہ مغرب کی قدر دان دنیا نے ان کو کہیں اقوام متحدہ میں یا کہیں اور ایک ''ماہر تعلیم'' کے طور پر رکھا ہوا ہے اور یہ بڑی اچھی بات ہے، ان سے زیادہ ماہر تعلیم اور کون ہو سکتا ہے، ثبوت ہم سب کے سامنے ہے ۔ بلکہ ہمیں تو دکھ اس بات کا بھی ہے کہ سوات اور پشاور کے ان ''جوہر شناس'' صحافیوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جنہوں نے اس کوہ نور کو دریافت کیا تھا اور مغرب کے جوہریوں کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ان میں ہمارے ایک دوست بھی ہیں۔