بے جا شکوہ
بھارت کی محبت سے سرشار ایک معاصر کے رپورٹر نے بڑے ’’رنج اور دکھ‘‘ سے یہ خبر دی ہے ۔۔۔
بھارت کی محبت سے سرشار ایک معاصر کے رپورٹر نے بڑے ''رنج اور دکھ'' سے یہ خبر دی ہے کہ اسلام آباد میں متعین دو بھارتی اخبار نویسوں کو اچانک رات گئے کسی سرکاری افسر کی طرف سے فون کر کے کیوں کہا گیا کہ آپ اپنا بوریا بستر باندھ لیں اور اگلے ہی ہفتے بھارت جانے کی تیاری کر لیں۔ ان بھارتی صحافیوں کے نام ہیں: سنہیش الیکس فلپ، جو کہ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے نمایندہ ہیں اور مینا مینن، جو کہ بھارتی انگریزی اخبار ''دی ہندو'' سے وابستہ ہیں۔ یہ وہی مینا مینن صاحبہ ہیں جنہوں نے چند ہفتے قبل بلوچستان کے ایک متنازعہ کردار ماما قدیر سے ملاقات کی تھی اور ان کے منہ سے یہ الفاظ کہلوائے تھے: ''اگر بلوچستان میں ریفرنڈم کروایا جائے تو سارے بلوچی آزادی کے حق میں اور پاکستان سے مکمل علیحدگی کے لیے ووٹ دیں گے۔''
یہ دونوں بھارتی صحافی گزشتہ سال اگست میں اسلام آباد اترے تھے۔ انھیں چند ماہ کا ویزہ دیا گیا تھا۔ جب اس مدت کا خاتمہ ہو گیا تو ان کی درخواست پر پاکستان کی وزارت داخلہ اور وزارت اطلاعات کے ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ نے ان کے ویزے کی مدت میں مزید اضافہ کر دیا۔ اب یہ مدت بھی ختم ہو چکی ہے۔ اصولی طور پر ان بھارتی صحافیوں کو از خود پاکستان چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن یہ دونوں اسلام آباد میں چِپکے رہے۔
ان کا بین السطور کہنا تھا کہ ان سے قبل جو دو بھارتی صحافی اسلام آباد میں تعینات تھے، وہ پانچ سال یہاں مقیم رہے، اس لیے اب انھیں بھی زیادہ عرصہ کے لیے قیام کی اجازت دی جائے۔ یہ مطالبہ غیر اخلاقی بھی تھا اور غیر قانونی بھی۔ گزشتہ برسوں کے دوران جو بھارتی صحافی اسلام آباد میں اپنے ''صحافتی فرائض'' ادا کرتے رہے، ان میں ایک محترمہ نروپما بھی تھیں جنہوں نے اسلام آباد سے ممبئی پہنچتے ہی ''دی ہندو'' میں پاکستان کے خلاف ایسے نفرت انگیز اور زہر فشاں قسط وار آرٹیکل لکھے کہ شاید پاکستان کے متعلقہ حکام کو افسوس ہی ہوا ہو گا کہ اس محترمہ کو پاکستان میں مسلسل پانچ سال رہنے کی اجازت کیوں دی گئی؟
کیا پاکستان کو بھارت کی اس صحافی کے غیر مہذب اور غیر اخلاقی رویے سے کوئی سبق نہیں سیکھنا چاہیے تھا؟ لیکن حیرت ان پر ہے جو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب فلپ اور مینا مینن کی ویزہ مدت میں اضافہ نہ کر کے گویا پاکستان کسی عالمی اخلاقیات کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت پاکستان کے پانچ سو سے زائد زائرین، جو خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ کے عرس میں شرکت کے لیے اجمیر شریف جانا چاہتے تھے، کو ویزہ دینے سے صاف انکار کر سکتا ہے تو پاکستان بھارت کے دو صحافیوں کی ویزہ مدت میں اضافہ نہ کرنے کا مجاز کیوں نہیں؟
دونوں مذکورہ بھارتی صحافیوں کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جی وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب نے گزشتہ دنوں نیویارک میں بروئے کار CPJ (کونسل فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس) کی مرکزی عہدیدار کیٹی مارٹن سے دوران ملاقات کہا تھا کہ ''مَیں پاکستان کو میڈیا فرینڈلی ملک بنانا چاہتا ہوں، جہاں نہ صرف ملکی اخبار نویس آزادانہ طور پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض ادا کر سکیں بلکہ غیر ملکی صحافی بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔''
جی ہاں، ہمارے وزیر اعظم نے یہ باتیں ضرور کہی تھیں لیکن ان باتوں کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ بھارتی ـ صحافیوں کو غیر قانونی طور پر اور لا متناہی مدت کے لیے پاکستان میں رہنے کی اجازت دی جائے؟ یہ واقعہ براہ راست میرے علم میں ہے کہ چند روز قبل ہی ختم ہونے والے بھارتی قومی انتخابات کی کوریج کے لیے بہت سے پاکستانی صحافی بھارت جانے کے خواہشمند تھے تا کہ پاکستانی قارئین و ناظرین کو ہر روز بھارتی انتخابات کے احوال سے آگاہ رکھا جائے لیکن اسلام آباد میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن نے پچانوے فیصد پاکستانی صحافیوں کو ویزے دینے سے صاف انکار کر دیا۔
حکومت پاکستان نے بھارت کے ان دونوں صحافیوں، الیکس فلپ اور مینا مینن، کی مدتِ ویزہ میں اضافہ نہ کر کے کسی عالمی قانون کی ہر گز خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ یہ تو ''وارا'' کھانے کی بات ہے اور ضابطے کی کارروائی بھی۔ امریکا، امریکی صحافیوں اور CPJ ایسی عالمی صحافتی تنظیموں کو بھی اس سلسلے میں پاکستان کے بارے میں اظہارِ ناراضی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس معاملے میں امریکا سے تو براہ راست ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے: مئی 2014ء کے پہلے ہفتے اسلام آباد میں ''بھارتی انتخابات اور مسئلہ کشمیر'' کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں کئی امریکی مسلمان کشمیری دانشوروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
ان میں معروف کشمیری رہنما، دانشور اور صحافی ڈاکٹر غلام نبی فائی صاحب بھی شامل تھے لیکن امریکا نے انھیں پاکستان نہ آنے دیا۔ اگر امریکا اپنے وطن کے بہتر مفاد میں ایک معروف کشمیری رہنما کو پاکستان آنے کی اجازت دینے میں متأمل ہے تو پاکستان کو بھی یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے قومی مفاد میں کسی غیر ملکی صحافی کو اپنی سرزمین میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ اس میں شکوہ کرنے کی ضرورت ہے نہ غصہ کرنے کی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اسی سلسلے میں جو گِلہ کیا ہے، وہ بھی بے جا اور فضول ہے۔
اسلام آباد سے دونوں بھارتی اخبار نویسوں کو ویزے کی مدت ختم ہونے پر شائستگی سے چلے جانے پر ہمارے ہاں جو صحافی دوست احتجاج کناں ہیں، انھیں پاکستان کے خلاف بھارت کے متشددانہ رویے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ بھارت کی پانڈے چری یونیورسٹی میں زیر تعلیم اکلوتے پاکستانی طالب علم علی حسن رضا کو مئی 2014ء کے وسط میں ہندوؤں نے جس بہیمانہ تشدد و بربریت کا نشانہ بنا کر بھارت سے نکلنے پر مجبور کیا ہے، آیا اس پر ہمارے ہاں بھارتی بدتمیزی پر کسی نے احتجاج کیا؟ اسی سلسلے میں 22 مئی 2014ء کو ''ایکسپریس ٹربیون'' میں شایع ہونے والے جناب صائم سعید (جو خود بھی چند برس قبل بھارت میں زیر تعلیم رہے لیکن انھیں وہاں سے مجبوراً نکلنا پڑا) کا آرٹیکل بھی خاصا چشم کشا ہے۔