سائیکالوجیکل ٹراما
کراچی میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا ہر طرف امن کا راج تھا ۔۔۔
FAISALABAD:
پچھلے دنوں ہمیں ایک عزیز کے گھر ان کی مزاج پرسی کے لیے جانا پڑا، دوپہر کا ٹائم تھا ہم نے گھر میں داخل ہوکر علیک سلیک کی مگر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ خاتون خانہ یعنی بھابی صاحبہ نے معمولی طریقے سے سلام کا جواب دیا اور موبائل میں لگ گئیں۔ ہمیں حیرت کے ساتھ بے وقت آنے پر کچھ شرمندگی کا احساس بھی ہوا، بھابی مسلسل موبائل پر مصروف تھیں کبھی یہ نمبر ٹرائی تو کبھی دوسرا نمبر۔
اسی اثنا میں انھوں نے غصے سے اپنی بیٹی کو آواز دی اور کہا اویس کا فون نہیں لگ رہا ہے اس کے تمام دوستوں کو بھی فون کرلیے ہیں ان کی بیٹی نے تسلی دی مگر انھیں کسی صورت قرار نہیں تھا۔ جلے پاؤں کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں، اسی اثنا میں لائٹ آگئی تو انھوں نے فوراً ٹی وی لگا کر نیوز چینل سرچ کرنا شروع کردیے ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ہمارے لیے بدستور نو لفٹ کی تختی ان کے چہرے پر لگی ہوئی تھی۔
ان کی حالت دیکھ کر اب تو ہمیں بھی تشویش ہونے لگی تھی، کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟یہ صورتحال جاری تھی کہ گیٹ کی گھنٹی بجلی اور بھابی صاحبہ خود بھاگ کر گیٹ کھولنے گئیں واپس آئیں تو ان کا بیٹا ان کے ساتھ تھا اور بھابی صاحب پرسکون حالت میں نظر آرہی تھیں، مگر مسلسل بیٹے کی گوشمالی بھی جاری تھی اور وہ ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ ممی میرا فون چارج نہیں تھا آپ پریشان مت ہوا کریں، میری توبہ، آیندہ میں کسی دوست کے ذریعے آپ کو میسج کروا دیا کروں گا۔
خیر بڑی مشکل سے ان کی حالت سنبھلی پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور معذرت کی گئی کہ فاطمہ برا نہیں منانا اویس کی صبح سے کوئی اطلاع نہیں تھی ورنہ یہ یونیورسٹی پہنچ کر مجھے بتا دیتا ہے مگر آج اس نے ایسا نہیں کیا جب سے مجھے شدید گھبراہٹ ہو رہی تھی لگتا تھا دل بند ہوجائے گا۔ ان کے بچے کہنے لگے پھپھو امی کا روز کا معمول ہے ہم گھر سے جاتے ہیں تو امی کے میسج شروع ہوجاتے ہیں کہاں پہنچے، اب کہاں ہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ سن کر بھابی صاحبہ نے کہا تم تو جانتی ہو اس شہر کراچی میں کیا حالات ہیں یقین مانو جب تک گھر کے افراد باہر رہتے ہیں سولی پر جان اٹکی رہتی ہے میں تو خوف اور ڈپریشن کی مریض بن گئی ہوں۔
خاندان بھر میں میری مضبوط شخصیت کے چرچے تھے مگر ان حالات نے میرے اعصاب کو جیسے ختم کردیا ہے یہ سن کر ہمیں بھی احساس ہوا کہ واقعی کراچی کے لوگ روزانہ کن عذابوں سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے مہینے ہمارے ساتھ جو ڈکیتی کا واقعہ ہوا تھا تو اس کے بعد ہمارے اعصاب بھی جواب دے گئے تھے ہر موٹرسائیکل سوار ہمیں ڈاکو لگنے لگا تھا جوس کے ڈبے کے پھٹنے کی آواز گولی سے مشابہ لگتی تھی ۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے ان حالات نے ہم سب کو سائیکالوجیکل ٹراما میں مبتلا کردیا ہے ، ایک مسلسل اذیت ہے۔ اس کے اثرات نہایت خطرناک طور پر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں بے چینی خوف ڈپریشن جیسے عوارض میں اضافہ ہو رہا ہے جوکہ شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمے دار ہے اور یہ وجوہات سائیکومیٹک پرابلمز یعنی دماغ کے جسم پر بیماری کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں ۔ہائی بلڈ پریشر، ارٹرایٹس، سائنوسائٹس، شوگر جیسے امراض عام ہو رہے ہیں کیونکہ اس قسم کی صورت حال میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے زیادہ تر خواتین فوبک انگزائیٹی کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ گھر کے مرد اور بچے روزانہ گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو ان کو ہر وقت فکر رہتی ہے کہ بچے اور شوہر، بھائی، والد وغیرہ ساتھ خیریت کے گھر پہنچ جائیں جس شہر میں روزانہ بوری بند لاشیں ملتی ہوں، گلیوں اور بازاروں میں فائرنگ ہوتی ہو، سرعام پولیس کی موجودگی میں موبائل اور پرس چھینے جاتے ہوں کوئی گلی کوئی کوچہ محفوظ نہ ہو وہاں مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک انسان بھی سائیکو ٹراما میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔
ٹی وی لگاؤ تو ہر چینل سے مختلف حادثات کے مناظر روتی بلکتی خواتین اور لاچار بچوں کی دل دوز کہانیوں پر مبنی خبریں موجود ہوتی ہیں ان مناظر نے بھی لوگوں کا سکون اور چین لوٹ لیا ہے ۔ زندگی کے دکھ میڈیا پر دیکھ کر دل اور بھی ڈوب جاتا ہے۔ برداشت، رواداری، صبر ختم ہوتا جا رہا ہے غم و غصے کے رویے پروان چڑھ رہے ہیں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں خوف و دہشت ان کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے جس سے ان کی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں اور ایک اور خطرناک رجحان یہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اکثر متاثرہ علاقوں کے بچے ڈر و خوف کی حدود سے نکل گئے ہیں یہ رجحان انھیں اذیت پسند بنا رہا ہے۔
ایسے انسان کسی کے دکھ و تکلیف کا احساس کرنے کے قابل نہیں رہتے اور متشدد رویہ اپناتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے ماحول سے یہی کچھ سیکھا ہوا ہوتا ہے کراچی کے ان حالات کے ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں ہیں مختلف گروہ ہیں جنھوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے کراچی کو جہنم بنادیا ہے۔ نوگو ایریاز بن گئے ہیں حالانکہ ایک دور تھا جب کراچی نے کھلی بانہوں کے ساتھ ملک کے کونے کونے سے آنے والوں کو پناہ دی روزگار دیا جو لوگ دبئی نہیں جا پاتے تھے کراچی آجاتے تھے ۔
کراچی میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا ہر طرف امن کا راج تھا روشنی تھی محبتیں تھیں پرسکون ماحول تھا آدھی آدھی رات کو بھی چہل پہل رہتی تھی تعلیمی ادارے مثبت سرگرمیوں کا گڑھ تھے مگر 80 کی دہائی کے بعد آہستہ آہستہ کراچی میں مفاد پرستوں نے مختلف مافیاز کے تحت کام کرنا شروع کردیا لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور اسی مفاد پرستی کی سیاست نے نفرتوں کو ہوا دی پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے مسلح ونگز کو مضبوط کیا مگر حکومتیں سوتی رہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مفاد پرستوں کے ساتھ مل کر کراچی کے امن کو تباہ و برباد کردیا کاروباری برادریاں یہاں سے شفٹ ہو رہی ہیں آج ہر طرف افراتفری، لاقانونیت کا راج ہے انسانیت سسک رہی ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص سے خوفزدہ ہے اس قسم کی صورتحال میں کسی کی مدد کرنا بھی وبال جان بن گیا ہے زندگی جذبوں سے خالی ہوگئی ہے ۔
اب بھی وقت ہے اگر ہم عروس البلاد کراچی کی رونقیں بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا حالات بہتر بنانے کے لیے سول سوسائٹی کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ سب مل کر سیاست دانوں کو مجبور کریں کہ وہ مل کر قتل و غارت گری کو روکیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے مل کر کراچی کی رونقیں بحال کریں تمام سیاست دان مل کر امن کے قیام، قانون کے تحفظ اور معیشت کی بحالی پر بات چیت کریں جس میں آرمی، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے نمایندے بھی شامل ہوں اس کے علاوہ دین کی تعلیمات پر عمل کرنے اور کروانے کے لیے اساتذہ کرام اور علما آگئے آئیں تاکہ بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر باہمی بھائی چارے کے ساتھ اخوت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ بھلا کر صرف اور صرف اپنے شہر کے مفاد میں کام کریں تو امید ہے انشاء اللہ جلد ہی کراچی کی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔
پچھلے دنوں ہمیں ایک عزیز کے گھر ان کی مزاج پرسی کے لیے جانا پڑا، دوپہر کا ٹائم تھا ہم نے گھر میں داخل ہوکر علیک سلیک کی مگر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ خاتون خانہ یعنی بھابی صاحبہ نے معمولی طریقے سے سلام کا جواب دیا اور موبائل میں لگ گئیں۔ ہمیں حیرت کے ساتھ بے وقت آنے پر کچھ شرمندگی کا احساس بھی ہوا، بھابی مسلسل موبائل پر مصروف تھیں کبھی یہ نمبر ٹرائی تو کبھی دوسرا نمبر۔
اسی اثنا میں انھوں نے غصے سے اپنی بیٹی کو آواز دی اور کہا اویس کا فون نہیں لگ رہا ہے اس کے تمام دوستوں کو بھی فون کرلیے ہیں ان کی بیٹی نے تسلی دی مگر انھیں کسی صورت قرار نہیں تھا۔ جلے پاؤں کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھیں، اسی اثنا میں لائٹ آگئی تو انھوں نے فوراً ٹی وی لگا کر نیوز چینل سرچ کرنا شروع کردیے ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ہمارے لیے بدستور نو لفٹ کی تختی ان کے چہرے پر لگی ہوئی تھی۔
ان کی حالت دیکھ کر اب تو ہمیں بھی تشویش ہونے لگی تھی، کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟یہ صورتحال جاری تھی کہ گیٹ کی گھنٹی بجلی اور بھابی صاحبہ خود بھاگ کر گیٹ کھولنے گئیں واپس آئیں تو ان کا بیٹا ان کے ساتھ تھا اور بھابی صاحب پرسکون حالت میں نظر آرہی تھیں، مگر مسلسل بیٹے کی گوشمالی بھی جاری تھی اور وہ ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ ممی میرا فون چارج نہیں تھا آپ پریشان مت ہوا کریں، میری توبہ، آیندہ میں کسی دوست کے ذریعے آپ کو میسج کروا دیا کروں گا۔
خیر بڑی مشکل سے ان کی حالت سنبھلی پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئیں اور معذرت کی گئی کہ فاطمہ برا نہیں منانا اویس کی صبح سے کوئی اطلاع نہیں تھی ورنہ یہ یونیورسٹی پہنچ کر مجھے بتا دیتا ہے مگر آج اس نے ایسا نہیں کیا جب سے مجھے شدید گھبراہٹ ہو رہی تھی لگتا تھا دل بند ہوجائے گا۔ ان کے بچے کہنے لگے پھپھو امی کا روز کا معمول ہے ہم گھر سے جاتے ہیں تو امی کے میسج شروع ہوجاتے ہیں کہاں پہنچے، اب کہاں ہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ سن کر بھابی صاحبہ نے کہا تم تو جانتی ہو اس شہر کراچی میں کیا حالات ہیں یقین مانو جب تک گھر کے افراد باہر رہتے ہیں سولی پر جان اٹکی رہتی ہے میں تو خوف اور ڈپریشن کی مریض بن گئی ہوں۔
خاندان بھر میں میری مضبوط شخصیت کے چرچے تھے مگر ان حالات نے میرے اعصاب کو جیسے ختم کردیا ہے یہ سن کر ہمیں بھی احساس ہوا کہ واقعی کراچی کے لوگ روزانہ کن عذابوں سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے مہینے ہمارے ساتھ جو ڈکیتی کا واقعہ ہوا تھا تو اس کے بعد ہمارے اعصاب بھی جواب دے گئے تھے ہر موٹرسائیکل سوار ہمیں ڈاکو لگنے لگا تھا جوس کے ڈبے کے پھٹنے کی آواز گولی سے مشابہ لگتی تھی ۔
حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے ان حالات نے ہم سب کو سائیکالوجیکل ٹراما میں مبتلا کردیا ہے ، ایک مسلسل اذیت ہے۔ اس کے اثرات نہایت خطرناک طور پر بڑھے ہیں جس کے نتیجے میں بے چینی خوف ڈپریشن جیسے عوارض میں اضافہ ہو رہا ہے جوکہ شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا ذمے دار ہے اور یہ وجوہات سائیکومیٹک پرابلمز یعنی دماغ کے جسم پر بیماری کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں ۔ہائی بلڈ پریشر، ارٹرایٹس، سائنوسائٹس، شوگر جیسے امراض عام ہو رہے ہیں کیونکہ اس قسم کی صورت حال میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہے زیادہ تر خواتین فوبک انگزائیٹی کا شکار ہو رہی ہیں کیونکہ گھر کے مرد اور بچے روزانہ گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو ان کو ہر وقت فکر رہتی ہے کہ بچے اور شوہر، بھائی، والد وغیرہ ساتھ خیریت کے گھر پہنچ جائیں جس شہر میں روزانہ بوری بند لاشیں ملتی ہوں، گلیوں اور بازاروں میں فائرنگ ہوتی ہو، سرعام پولیس کی موجودگی میں موبائل اور پرس چھینے جاتے ہوں کوئی گلی کوئی کوچہ محفوظ نہ ہو وہاں مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک انسان بھی سائیکو ٹراما میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔
ٹی وی لگاؤ تو ہر چینل سے مختلف حادثات کے مناظر روتی بلکتی خواتین اور لاچار بچوں کی دل دوز کہانیوں پر مبنی خبریں موجود ہوتی ہیں ان مناظر نے بھی لوگوں کا سکون اور چین لوٹ لیا ہے ۔ زندگی کے دکھ میڈیا پر دیکھ کر دل اور بھی ڈوب جاتا ہے۔ برداشت، رواداری، صبر ختم ہوتا جا رہا ہے غم و غصے کے رویے پروان چڑھ رہے ہیں بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں خوف و دہشت ان کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے جس سے ان کی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں اور ایک اور خطرناک رجحان یہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اکثر متاثرہ علاقوں کے بچے ڈر و خوف کی حدود سے نکل گئے ہیں یہ رجحان انھیں اذیت پسند بنا رہا ہے۔
ایسے انسان کسی کے دکھ و تکلیف کا احساس کرنے کے قابل نہیں رہتے اور متشدد رویہ اپناتے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے ماحول سے یہی کچھ سیکھا ہوا ہوتا ہے کراچی کے ان حالات کے ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں ہیں مختلف گروہ ہیں جنھوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے کراچی کو جہنم بنادیا ہے۔ نوگو ایریاز بن گئے ہیں حالانکہ ایک دور تھا جب کراچی نے کھلی بانہوں کے ساتھ ملک کے کونے کونے سے آنے والوں کو پناہ دی روزگار دیا جو لوگ دبئی نہیں جا پاتے تھے کراچی آجاتے تھے ۔
کراچی میں کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا ہر طرف امن کا راج تھا روشنی تھی محبتیں تھیں پرسکون ماحول تھا آدھی آدھی رات کو بھی چہل پہل رہتی تھی تعلیمی ادارے مثبت سرگرمیوں کا گڑھ تھے مگر 80 کی دہائی کے بعد آہستہ آہستہ کراچی میں مفاد پرستوں نے مختلف مافیاز کے تحت کام کرنا شروع کردیا لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا اور اسی مفاد پرستی کی سیاست نے نفرتوں کو ہوا دی پھر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے مسلح ونگز کو مضبوط کیا مگر حکومتیں سوتی رہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مفاد پرستوں کے ساتھ مل کر کراچی کے امن کو تباہ و برباد کردیا کاروباری برادریاں یہاں سے شفٹ ہو رہی ہیں آج ہر طرف افراتفری، لاقانونیت کا راج ہے انسانیت سسک رہی ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص سے خوفزدہ ہے اس قسم کی صورتحال میں کسی کی مدد کرنا بھی وبال جان بن گیا ہے زندگی جذبوں سے خالی ہوگئی ہے ۔
اب بھی وقت ہے اگر ہم عروس البلاد کراچی کی رونقیں بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا حالات بہتر بنانے کے لیے سول سوسائٹی کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ سب مل کر سیاست دانوں کو مجبور کریں کہ وہ مل کر قتل و غارت گری کو روکیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے مل کر کراچی کی رونقیں بحال کریں تمام سیاست دان مل کر امن کے قیام، قانون کے تحفظ اور معیشت کی بحالی پر بات چیت کریں جس میں آرمی، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے نمایندے بھی شامل ہوں اس کے علاوہ دین کی تعلیمات پر عمل کرنے اور کروانے کے لیے اساتذہ کرام اور علما آگئے آئیں تاکہ بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر باہمی بھائی چارے کے ساتھ اخوت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کچھ بھلا کر صرف اور صرف اپنے شہر کے مفاد میں کام کریں تو امید ہے انشاء اللہ جلد ہی کراچی کی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔