جدہ میں فلمی میلہ
سعودی معاشرہ میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں
سعودی عرب میں گزشتہ ایک عشرہ سے بنیادی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے ، اپنے پروفیشن کے بارے میں فیصلہ کرنے، تنہا ڈرائیونگ کرنے، بغیر محرم کے عمرہ اور حج کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے حقوق حاصل ہو چکے ہیں۔ اب سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں بحر احمر فلمی میلہ نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے۔
سعودی عرب کا سماج سماجی اور سیاسی طور پر کتنا لبرل ہوگیا ہے اس بات کا اندازہ اس فلمی میلہ میں عراق کے سابق صدر صدام حسین کے انڈر گراؤنڈ ہونے اور پھانسی کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی ۔
اب تک دنیا بھر میں پانچ بڑے فلمی میلوں کا ہر سال خوب چرچا ہوتا ہے۔ ان فلمی میلوں میں فرانس کے شہر کینز میں ہونے والا فلمی میلہ پھر جرمنی کے شہر برلن میں ہونے والا میلہ اور کینیڈا کے شہر ٹورینٹو اور جنوبی امریکا کے شہر Sundanceمیں ہونے والے بین الاقوامی فلمی میلے شامل ہیں۔ جدہ میں ہونے والا یہ تیسرا فلمی میلہ ہے جو دس دن جاری رہے گا۔
ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والے رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس فلمی میلہ میں دنیا بھر کے اداکار شرکت کررہے ہیں۔ بھارتی اداکار رنویر سنگھ اس میلہ میں شرکت کے لیے آئے اور جدہ کے ایک جدید ترین مال میں کچھ خریداری کے لیے گئے تھے تو ان کے اتنے چاہنے والے جمع ہوئے کہ سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے۔
اس دفعہ میلہ کا افتتاح سعودی فلم HWJN سے ہوا ۔ اس میلہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان کے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کی جانے والی کئی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئی ہیں۔ معروف ڈائریکٹر ضرار خان کی ایک فلم جس کو جرمنی کے شہر ہیڈن برگ میں 30ہزار یورو کا انعام ملا تھا، اس میلہ میں خوب پذیرائی ہوئی ۔ جدہ کے اس میلہ میں دو شارٹ فلمز سلینا اور عید مبارک کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
سلینا کی ڈائریکٹر ارم یوسفزئی اور عید مبارک کی ڈائریکٹر ماہ نور ہیں۔ ایک پاکستانی صحافی عرفان اسلم نے جدہ فلمی میلہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی فلم وکیری سب سے زیادہ مقبول فلم ثابت ہوئی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جدہ شہر میں جن لوگوں نے فلم وکیری دیکھی ہے وہ اس کے گرویدہ ہوگئے۔ وکیری کی ڈائریکٹر ارم پروین بلال ہیں۔
اس فلم کی کہانی چند سال قبل سوشل میڈیا پر دھوم مچانے والی اداکارہ قندیل بلوچ کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔
فلم کی ڈائریکٹر ارم پروین کا بیانیہ ہے کہ یہ فلم مکمل طور پر قندیل بلوچ کی زندگی کی عکاسی نہیں کرتی۔ ارم کا خیال ہے کہ وہ قندیل کی زندگی پر مکمل طور پر اس بناء پر نہیں بنائی کہ She did not want to glorify the way her story ended in tragedy۔ ارم نے اپنے خیال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سارے لوگ جن کی زندگی قندیل جیسی ہے زندہ ہیں مگر قندیل بلوچ کے قتل کے بعد وہ خوف زدہ ہوگئے البتہ دنیا کو قندیل کے بارے میں جاننا چاہیے۔
قندیل بلوچ کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے ایک پسماندہ علاقے سے تھا۔ قندیل اپنی بے باک اداکاری اور منہ پھٹ ہونے کی بناء پر خوب مشہور ہوئی تھی۔
قندیل نے اپنے والدین اور بھائیوں کو ملتان منتقل کرایا تھا، وہ اپنے والدین کا واحد سہارا بن گئی تھی اور قندیل کے پیسہ سے اس کا خاندان خوشحالی کی طرف گامزن تھا۔ قندیل اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ملتان گئی ہوئی تھی جہاں ایک رات اس کے بھائی نے غیرت کی بناء پر قندیل بلوچ کو قتل کردیا تھا۔ قندیل بلوچ کے قتل کا خوب چرچا ہوا تھا مگر پھر بوڑھے والدین نے اپنے قاتل بیٹے کو تو معاف کردیا تھا۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے افراد جلد رہا ہوجاتے ہیں۔
فلم وکیری کی زندگی ایک اسکول ٹیچر نور ملک کے گرد گھومتی ہے۔ نور ملک سنگل مدر ہیں اور وہ لاہور میں ایک اسکول کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرتی ہیں۔ نور ملک کا ٹرانس جینڈر برادری سے گہرا تعلق دکھایا گیا ہے۔ اس فلمی میلہ کی ایک خاص بات عراق کے سابق صدر صدام حسین کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری کی نمائش تھی۔
امریکا اور اتحادی ممالک نے 2003میں ملک میں تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر عراق پر حملہ کیا۔ امریکا اور اتحادی ممالک نے عراق پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت کے صدر صدام حسین گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے۔
صدام حسین 235 دن تک روپوش رہے۔ امریکا اور عراق کی نئی حکومت نے صدام حسین کی گرفتاری میں مدد دینے کے لیے 25 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کیا تھا۔ اس ڈاکومنٹری فلم کی کہانی دو اشخاص صدام حسین اور اعلیٰ( ALAA) کے گرد گھومتی ہے۔ یہ دونوں شخص ایک دوسرے کے لیے مکمل متصادم تھے۔اس ڈاکومنٹری میں دکھایا گیا ہے کہ صدام حسین اپنے تین محافظوں کے ساتھ اعلیٰ کے گھر پہنچ گئے۔
اعلیٰ کو سیاست کے بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ اعلیٰ نے صدام کے باورچی، حجام، ملازم اور دوست کے کردار کو اس خوبصورتی سے ادا کیا ہے جب صدام حسین کے دو لڑکے قتل کیے جاچکے تھے۔ اعلیٰ نے اس ڈاکومنٹری میں بتایا کہ عرب روایات کے تحت میزبان آنے والے مہمان سے سوال نہیں کرتا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کتنا عرصہ قیام کرے گا، مگر اعلیٰ کی یہ دلیل امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو مطمئن نہ کرسکی اور اس غریب عرب شہری کو ابو غریب جیل میں طویل عرصہ تک تشدد برداشت کرنا پڑا۔
ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی خبریں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر شایع ہوئیں اور اس جیل میں قیدیوں پر ہونے والے تشدد کی وڈیوز ٹی وی چینلز پر چلیں تو امریکی حکام اس جیل کو بند کرنے پر مجبور ہوئے۔
یہ ڈاکومنٹری ایک کردش فلم ساز حلکوت مصطفی نے بنائی تھی۔ جب 90ء کی دہائی میں صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرلیا تھا تو سعودی عرب اور عراق کے تعلقات خراب ہوگئے تھے مگر صدام حسین کے آخری دنوں کے بارے میں جدہ کے فلمی میلہ میں نمائش سے ثابت ہوا کہ اب سعودی عرب ایک تبدیل شدہ ملک ہے ۔
اب سعودی معاشرہ میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ سعودی عرب کے صرف تعلیم کے شعبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ اعداد و شمار جو بہت سے حقائق کی توثیق کرتے ہیں سعودی عرب میں اس وقت خواندگی کی شرح 97.59 فیصد ہے۔
ان اعداد و شمار کے مطابق بالغ مردوں میں خواندگی کی شرح 98.2 فیصد اور خواتین میں 96.05ء فیصد ہے جوشرح سنگاپور اور کویت سے زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے ایک اور حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خواتین میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان حیرت انگیز طور پر بڑھ گیا۔ سعودی عرب سے ملنے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملازمت کرنے اور کاروبار کرنے والی خواتین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 2016 میں کام کرنے والی خواتین کی شرح 19 فیصد تھی جو 2022 میں 36 فیصد تک پہنچ گئی۔
ماہرین معاشیات کا مفروضہ ہے کہ خواتین کی پیداواری عمل میں شرکت سے سعودی معیشت میں اس سال 3.5 فیصد کی شرح سے بڑھتی اور اب اس معیشت کی حالت 39 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ خواتین تاجروں کے لیے سعودی عرب تحفظ کے لحاظ سے بہترین ملک ہے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ایک خواتین سعودی ماہر سارہ ال شامی سعودی (CEO) اسٹاک ایکسچینج کی پہلی سی ای او کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ یہ اعزاز پاکستان میں کسی خاتون کو حاصل نہیں ہوا ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں تبدیلیاں معروضی حقائق کے مطابق ہوتی ہیں۔ سعودی عرب کی بقاء اور ترقی کے لیے یہ تبدیلیاں ضروری تھیں۔