سرکار دو عالمؐ نے آسمانوں کی سیر فرمائی

آج ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت کی بنیادوں میں جو ضعف آگیا ہے اس کے شہتیر ہل رہے ہیں

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ISLAMABAD:
بے نظیر معجزہ معراج النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحیح قول کے مطابق بیداری کے عالم میں جسم مبارک کے ساتھ 27 رجب المرجب کی شب وقوع پذیر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عمر مبارک اکیاون (51) برس آٹھ ماہ بیس دن تھی اور نبوت کا بارہواں برس تھا۔ ہجرت سے تقریباً ایک برس قبل اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ واقعہ معراج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و اعلیٰ مقام و مرتبہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ قرآن حکیم فرقان حمید میں اس کی تصریح اور احادیث صحیحہ میں اس کی تشریح و تفصیل موجود ہے۔

لیلۃ کے معنی ہیں رات، معراج کے معنی ہیں عروج اور بلندی، جس کے معنی بنے عروج اور بلندی کی رات۔ یہ رات اس لیے بابرکت اور عروج کی رات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر فرمائی اور اللہ رب العزت کی تجلی سے سرفراز ہوئے۔ بعض مفسرین نے اصطلاحی امتیاز کے لیے مکہ معظمہ سے بیت المقدس کی سیر کو گئے جس کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل میں ہوا ہے ''اسرایٰ'' جب کہ بیت المقدس سے عرش بریں تک کے سفر کو گئے جس کی وضاحت سورۂ نجم اور صحیح احادیث میں ہے۔ ''معراج'' کے نام سے موسوم کیا ہے۔

امام مسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ''میرے پاس ایک براق لایا گیا جو سفید رنگ کا تھا وہ اتنا تیز رفتار تھا کہ جتنی دور انسانی نظر پڑتی ہے اتنی دور اس کا ایک قدم پڑتا تھا میں اس پر سوار ہوگیا اور بیت المقدس آیا اور اس پتھر کے ساتھ اسے باندھا جس پتھر کے ساتھ دیگر انبیائے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی۔ میں مسجد اقصیٰ سے باہر آیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو دو پیالے پیش کیے ایک شربت کا اور دوسرا دودھ کا۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپؐ نے فطرت کو پسند فرمایا۔

اس کے بعد ہم آسمان پر پہنچے وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا جنھوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی اس کے بعد دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور تیسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا جنھوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعائے خیر دی۔ اس کے بعد چوتھے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا اس کے بعد پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام کو دیکھا۔ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تمام ہی انبیائے کرام نے مجھے دعائیں دیں۔

اس کے بعد تمام ہی انبیا نے اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی اور سب سے آخر میں سید الانبیا، فخر موجودات وجہ تخلیق کائنات جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خداوند قدوس کے حضور حمد و ثنا اس طرح کی ''تمام تعریفیں اس خدا کی جس نے مجھے جہاں بھر کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈر سنانے والا بناکر بھیجا اور مجھ پر قرآن حکیم نازل کیا جس میں ہر چیز کا روشن بیان ہے اور بنایا میری امت کو درمیانی اور گردانا میری امت کو کہ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور کھولا میرے سینے کو اور دور کیا مجھ سے میرا بوجھ اور بلند کیا میرے لیے میرا ذکر اور بنایا مجھ کو فاتح اور خاتم'' اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ''اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے افضل قرار دیا۔''

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ''مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے جایا گیا یہاں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو وحی چاہی فرمائی''۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا اپنے رب سے شرف ملاقات کے لیے خطیرۃالقدوس تک پہنچے اور روبرو و دوبدو شرف کلامی حاصل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ عزوجل کے حضور پرخلوص سلام و نیاز پیش کیا۔ یہ وہ اعزاز ہے جو کائنات کی کسی مخلوق کو خواہ وہ نبی ہو یا ملائکہ حاصل نہ ہوسکا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''رات نورالعینی میں نے اس نور کو دیکھا''۔ پھر وہ کار خاص جس کے لیے بارگاہ خداوندی میں حاضری کے لیے بطور خاص فرش سے عرش پر طلب کیا گیا تھا ان امور کی وحی ہوئی جو احکامات جاری فرمائے گئے ان میں سے چند یہ ہیں۔


(الف) ہر روز 50 نمازوں کی فرضیت کا حکم ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بار بار استدعا پر گھٹتے گھٹتے 5 رہ گئیں لیکن گنتی میں کمی کے باوصف تول میں 5 کا وزن 50 کے برابر ہی قرار پایا۔

(ب)تمام گناہوں کے قابل معافی ہونے کا امکان لیکن شرک کو ناقابل معافی جرم یقین دلایا گیا۔

(ج)نیکی کی نیت پر ایک نیکی کا ثواب اور اس کے عمل کرنے پر دس گنا ثواب اسی طرح گناہ کی نیت پر برأت لیکن اس پر عمل کرنے پر ایک ہی گناہ نامہ اعمال میں لکھے جانے کی خبر دی گئی۔ ان کے علاوہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل کے لیے 14 نکات پیش کیے گئے جو سورۃ بنی اسرائیل کی 23 تا 29 آیات پر مشتمل ہیں اور جو ایک مضبوط، متوازن اور دیرپا معاشرے کے قیام، بقا اور استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔

بعدازاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس بیت المقدس اترے اور جن انبیا علیہ السلام کے ساتھ مختلف آسمانوں میں ملاقات ہوئی تھی وہ سب اور جملہ ملائکہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رخصت کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ تک ہم سفر رہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کی امامت فرمائی ،جس میں روایت کے مطابق زمین و آسمان کے تمام انبیا اور ملائکہ شریک تھے۔ اس طرح اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو زمین و آسمان پر کامل کردیا۔

قرآن حکیم کے ارشادات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ معراج جسمانی ہوئی ہے صرف روحانی نہیں ہوئی کیونکہ اگر صرف خواب ہوتا تو وضاحت سے منام لا لفظ آتا جیسے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے واقعے میں ہے۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ اس لیے پیش کیا کہ فخر کائنات رحمت اللعالمین رب العالمین کی علامات کا بذات خود اپنی نگاہ مبارک سے مشاہدہ فرما لیں اور اس کا مشاہدہ پھر خوب ہوا لہٰذا اللہ عزوجل نے قرآن حکیم میں بیان فرمایا کہ ''بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے یہ بھی واضح ہوگیا کہ سماعت ہو یا بصارت سب ہمارے دست قدرت میں ہے اگر ہم بشر کو عزت دینے پر آئیں تو فرش سے عرش پر بلا لیتے ہیں اور ایسی علامات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو''۔

آج ہماری تہذیب و تمدن کی عمارت کی بنیادوں میں جو ضعف آگیا ہے اس کے شہتیر ہل رہے ہیں وہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو نظرانداز کردینے کا ہی نتیجہ ہے۔یہ رات اس بات کی یاد تازہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے جس کے لیے بطور خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طلب کیا گیا تھا۔آج بھی واقعہ معراج کے پیغامات اسلامی معاشرہ اور ریاست کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بناسکتے ہیں اگر ہم سوچیں، سمجھیں اور صدق دل سے ان پر معاشرے کی تعمیر وتشکیل کے لیے عمل کریں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل اہمیت اس کی کیفیت کی جزئیات میں کھوجانے میں نہیں بلکہ معراج ایک عظیم ترین معجزہ، ایک عظیم ترین واقعہ، ایک عظیم ترین تجربہ اور ایک عظیم ترین پیغام ہے جو ایک عظیم ترین شخصیت پر یعنی محمد مصطفیٰ سرور دو جہاں، نبی و آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فرش سے لے کر عرش کے درمیان خالق دو جہاں مالک مکاں و لامکاں کے حکم سے پیش آیا۔
Load Next Story